• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرونا کے خوف سے سب کو گھر میں رہنے کی بار بار تاکید انسانی صحت کا خاص طور پر ذہنی صحت پر گہرے منفی اثرات مرتب کر رہی ہے .موت سے پہلے موت کا خوف انسانی اعصاب پر اس قدر سوار ہو چکا ہے کہ انسانی ذہن چھوٹے چھوٹے مسئلہ کو بھی اب پہاڑ محسوس کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نفسیاتی الجھنیں بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ تعلیمی ادارے بند، دفاتر بند ، گھریلو کام کرنے والے افراد کا گھر میں داخلہ بند، ریسٹورنٹ بند ، پارلرز بند ، شادی بیاہ کی تقاریب بند ، لوگوں کا ملنا جلنا بند۔ لے دے کہ اب صرف وائی فائی کی بدولت موبائل فونز اور انٹرنیٹ کا لامتناہی استعمال جس نے بچوں سے لے کر بڑوں تک کو نفسیاتی الجھن کا شکار کر دیا ہے۔ پہلے بچوں کے پاس ایک نظام (ڈسپلن) تھا صبح اٹھنا ہے، ناشتہ کرنا ہے، اسکول جانا ہے، اسکول سے واپس آکر دوپہر کا کھانا کھانا ہے، ٹیوشن پہ جانا ہے، شام کو کھیلنا، قاری صاحب سے پڑھنا ، رات کو ہوم ورک کرنا اور رات کا کھانا کھا کے جلدی سو جانا ہے۔ ہفتہ اتوار یعنی ویک اینڈ کو دادی دادی یا نانا نانی کے گھر ملنے کے لیے جانا اور دوسرے کزنز کے ساتھ وقت گزارنا۔ لیکن اب ایک ہی چاردیواری میں میں 24گھنٹے گزارنا ان بچوں کے لئے مشکل ہو رہا ہے۔ پڑھائی سے لاتعلق اور ویڈیو گیمز یا موبائل گیمز سے لامتناہی تعلق۔ادھر والدین پہ بھی دباؤ بڑھ چکا ہے کہ پہلے چند گھنٹے اپنے بچوں پر نظر رکھنی ہوتی تھی اور وقت دینا ہوتا تھا۔وہ اسی روٹین کے عادی تھے۔ لیکن اب انہیں اپنے بچوں کو پڑھانا بھی ہے ۔ قرآن بھی پڑھانا ہے، پابندی سے کھانا بھی تیار کرنا ہے، کام کرنے والی یا کرنے والے کا سارا کردار خود ادا کرنا ہے۔ ایسے میں وہ اپنے بچوں کے لئے خاطر خواہ وقت نہیں نکال پا رہے ہیں۔ روٹین بے ترتیب ہوتے چلے جارہے ہیں۔ بچے والدین کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مصروفیات بڑھنے کی وجہ سے جب والدین انہیں توجہ نہیں دے پاتے تو بچے شرارتیں کرتے ہیں یا والدین کی نہیں سنتے۔ان حالات مجموعی طور پر والدین پریشان ہیں کہ بچے بگڑتے ہی چلے جارہے ہیں ۔نا تعلیم حاصل کر رہے ہیں نا تربیت بلکہ جو کچھ پہلے ڈسپلن میں تھے وہ اسے بھی چھوڑتے چلے جا رہے ہیں۔ جو بری عادت ہے یا بچپن کی چیزیں اسکول جانے سے چھوڑ دیں تھیں اور اچھی چیزیں یا باتیں سیکھی تھیں ا نہیں بھولتے جا رہے ہیں۔ جو کہ والدین کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔ ایسے میں والدین بجائے بچوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ معاملات کرئیں وہ ٹینشن میں آجاتے اور بچوں کو جھڑکنا ہیں ان پر چیخنا اور مارناشروع کردیتے ہیں۔ یوں والدین اور بچے دونوں فرسٹریشن کا شکار ہو کہ ذہنی طور پر بیمار ہوتے جا رہے ہیں یعنی کووڈ سے بچنے کے چکر میں ذہنی امراض میں مبتلا ہوتے چلیے جارہے ہیں۔بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ انسان سماجی حیوان ہے۔ لیکن اس وبا کے خوف سے انسان سچ مچ حیوان ہو چکا ہے ۔گھر میں کوئی بیمار پڑ جائے تو جب تک اس کی جان کے لالے نہ پڑ جائیں۔ گھر والے تو کیا وہ خود مریض ہسپتال جانے کو تیار نہیں ہوتا کہ کہیں کورونا نہ ہو جائے یا اسپتال والے کرونا کا مریض نہ قرار دے دیں۔ ساٹھ پینسٹھ سال کی عمر کے والدین سے اولاد ملنے کو تیار نہیں کہ کہیں ماں باپ کو کورونا نہ لگ جائے۔ اور وہ بیچارے ماں باپ کیونکہ بہت ہی کم والدین بیک وقت موجود ہوتے ہیں جن کی عمریں 70 یا 80 سال سے زیادہ ہوں۔ یا تو وہ اکیلی ماں ہوتی ہے یا اکیلا والد اس عمر میں تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں۔ قیدی کی طرح وقت پر کھانا کھانے کو مل جاتا ہے۔ لیکن اپنوں کی شکل کو ترس گئے ہیں ۔ بھلا ہو ویڈیو کال کا جس نے اس تکلیف دہ احساس میں کمی کی ہے۔ کوئی جاننے والا بیمار پڑ جائے یا کسی کا انتقال ہو جائے تو اب لوگ جنازے میں جانا نہیں چاہتے۔ کیا اتنی احتیاط سے انسانی صحت بہتر ہو رہی ہے یا لوگ انسان سے حیوان کا روپ دھار رہے ہیں؟ لوگوں سے ملنے، ان کے دکھ درد میں شریک ہونے سے دلوں میں نرمی آتی ہے۔ لیکن اس احتیاط نے انسانی دل کو سخت کردیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ موت کے خوف سے بجائے کہ دل نرم ہوتے سبب نفسا نفسی میں لگ گئے ہیں۔ جس کو ذرا سا موقع مل رہا ہے کمانے کا وہ اس سے کہیں زیادہ کمانے میں لگا ہے ۔مصنوعی قلت کرکے اشیاء کی قیمت بڑھائی جا رہی ہے معیار گرایا جا رہا ہے۔ کیونکہ دماغ میں یہی ہے کہ بس اب تو مرنا ہے تو جتنا ممکن ہوسکے مال بنا لیں۔ پھر موقع ملے یا نہ ملے۔ یہ بھی تو ایک نفسیاتی دباؤ کا ہی نتیجہ ہے اگر اس قلم کار کے لکھے قلم پر یقین نہیں تو جا کر کسی نفسیات کے ماہر سے مل لیجئے۔ اندازہ ہو جائے گا کہ کورونا سے ڈرنے اور لڑنے کے بجائے اب انسان اور انسانی نفسیات کو بیماریوں سے بچانا ہے۔ فیصلہ "آپ" کو ہی کرنا ہے۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین