جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے ایف بی آر کے سوالات کا جواب مزید سوالات سے دینے کو اہم جانا۔ مجاز اتھارٹی کو فراہم کردہ تفصیلات مختلف اور حقیقت عین اُس کے برعکس نظر آتی ہے۔ گزشتہ ہفتے ٹی وی اسکرینوں پر دکھایا گیا کہ ہاتھ میں چھڑی لیے ایک ادھیڑ عمر خاتون مسز سیرینا عیسیٰ ایف بی آر کے دفتر میں داخل ہو رہی ہیں۔ خبریں آئیں کہ ایک مرتبہ پھر منی ٹریل دیدی گئی۔ اسکے باوجود شام کے وقت ایف بی آر کو دیا گیا بیان میڈیا میں جاری کرنا ضروری سمجھا گیا، کہا گیا کہ انکے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔ اس لیے اپنا بیان پبلک کر رہی ہیں۔
سرینا کھوسو عیسیٰ صاحبہ اگر تمام تر توانائیاں سپریم کورٹ کی ہدایات پر عمل کرنے پر صرف کرتیں تو عین ممکن تھا مقدمہ خود بخود ختم ہو جاتا مگر ایک سال سے سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود معاملہ جوں کا توں ہے۔ سوالات کا جواب دینے کے بجائے ایف بی آر کے افسران کو غیرمتعلقہ سوالات میں اُلجھایا گیا۔ ایف بی آر کو دی گئی تفصیلات میں کہیں بھی بیرون ملک خریدی گئی جائیدادوں کا ذکر نہیں کیا گیا۔ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ جائیدادیں خریدنے کیلئے رقم کہاں سے آئی۔
سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ آپ کے پاس اسپینش پاسپورٹ کے ساتھ ساتھ پاکستانی شناختی کارڈ بھی ہے۔ اُن کی جانب سے میڈیا کو جاری شدہ بیان میں موقف اپنایا گیا کہ وہ خاص برتائو کی طلبگار نہیں ہیں جبکہ دیکھا گیا ہے کہ مجاز اتھارٹیز کو مطمئن کرنے کے بجائے آپ الٹا ایف بی آر سے سوالات کر رہی ہیں۔
یہ بتانا ضروری ہے کہ بیرون ملک جائیداد آپ نے جس رقم سے خریدی اس رقم کا سورس کیا تھا۔ صرف یہ کہہ دینا ہی کافی نہیں ہوگاکہ آپ ایک قابل جج کی اہلیہ اور قانونی پیچیدگیوں سے بخوبی واقف ہیں۔ ایف بی آر کو دیے گئے بیان میں آپ نے منی ٹریل کی تعریف پر سوالات تو اُٹھا دیے ہیں تاہم اس رقم کے ذرائع نہیں بتائے جس سے جائیدادیں خریدی گئیں۔
آپ کے ظاہر کردہ اثاثوں کی مدد سے برطانیہ میں جائیدادیں خریدنا بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔ یہاں ایک بات قابلِ غور ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے آپکو تمام تر تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دیا ہے اس کے باوجود عدالتی حکم کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ایف بی آر کو دیے گئے سرٹیفکیٹ میں یہ تو بتایا گیا کہ غیرملکی بینک اکائونٹ میں چھ لاکھ پائونڈ موجود تھے تاہم یہ نہیں بتایا کہ وہ چھ لاکھ پائونڈ آئے کہاں سے تھے۔
آپ سے پوچھا گیا بنیادی سوال کہ 2014تک آپ کی جانب سے ایف بی آر میں جمع کرائے گئے انکم ٹیکس گوشواروں (ریٹرنز) میں لندن کی جائیدادوں کا ذکر تک نہیں ہے۔ آج بھی دیکھا جائے تو بنیادی سوال اپنی جگہ جوں کا توں موجود ہے۔ مانا کہ یہ فلیٹس آپکے اور آپکے بچوں کے نام پر ہیں لیکن جن پیسوں سے یہ فلیٹس خریدے گئے ہیں وہ کہاں سے آئے ہیں، اسکا جواب ابھی آنا باقی ہے۔