• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانیوں کی اکثریت تبدیلی چاہتی ہے ۔تبدیلی کی اس خواہش کو سیاست کے بازار میں انقلاب کے نام پر فروخت کیا جا رہا ہے ۔ ہمارے بازاروں میں بہت سے ستم ظریف نقلی مال کو سو فیصد اصلی قرار دیکر فروخت کر ڈالتے ہیں۔ خریدار کو اصلیت کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب وہ واپس گھر پہنچتا ہے ۔ تبدیلی کے نعروں پر یقین کرنے والوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہونے والا ہے ۔ کوئی یہ مت سمجھے کہ گیارہ مئی کو عام انتخابات کے اگلے روز پاکستان میں تبدیلی یا انقلاب آ جائے گا ۔جس طرح موسم بدلنے کا ایک وقت ہوتا ہے اسی طرح وقت بدلنے کا بھی ایک موسم ہوتا ہے ۔ موسم اچانک نہیں بدلتا آہستہ آہستہ بدلتا ہے ۔ تبدیلی بھی اچانک نہیں آتی تبدیلی بھی آہستہ آہستہ آتی ہے ۔ تبدیلی کا عمل 11مئی کے بعد شروع نہیں ہونا تبدیلی کا عمل 11مئی سے بہت پہلے شروع ہو چکا ہے۔ ذرا غور کیجئے ! 18فروری 2008ء کو انتخابات کے دن پاکستان کے کیا حالات تھے اور 2013ء میں کیا حالات ہیں ؟
18فروری 2008ء کو جنرل پرویز مشرف پاکستان کے صدر تھے ۔ نگران وزیر اعظم محمد میاں سومرو سے لیکر نگران وزیر اطلاعات نثار میمن تک پوری حکومت مشرف کی دائیں جیب میں تھی ۔ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر سمیت اعلیٰ عدالتوں کے اکثر جج مشرف کی بائیں جیب میں تھے ۔ جسٹس ریٹائرڈ قاضی فاروق نام کا چیف الیکشن کمشنر صرف کاغذی کارروائیوں کیلئے مختص تھا۔میڈیا پابندیوں کا شکار تھا میری مثال لیجئے میرے سمیت کچھ دیگر ٹی وی اینکروں پر پابندی تھی ۔ میں پاکستانی ٹی وی چینلز پر تبصرے کرنے کی بجائے بی بی سی اور وائس آف امریکہ پر تبصرے کرنے میں مصروف تھا مشرف حکومت کے میڈیا منیجر ز بی بی سی اور وائس آف امریکہ پر میرے تبصرے سن کر کہا کرتے تھے کہ اب پاکستان میں تمہارا کوئی مستقبل نہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ چند غدار ٹی وی اینکروں اور دہشت گردوں کے ساتھی ججوں سے قوم کو نجات دلا کر پاکستان کو بچا لیا گیا ہے ۔ لیکن پھر ہم سب نے دیکھا کہ مشرف کا تکبر انہیں لے ڈوبا ۔ انہوں نے 2008ء کے الیکشن میں اپنے حامیوں میں بھاری رقوم تقسیم کیں ہر ممکن دھاندلی بھی کی لیکن عوام نے ووٹ کے ہتھیار سے مشرف کے ساتھیوں کو شکست دی ۔ اس شکست کے بعد مشرف کو صدارت سے استعفےٰ دینا پڑا ۔ انکی جگہ آصف علی زرداری صدر بن گئے۔ زرداری حکومت عام پاکستانیوں کے حالات بہتر بنانے میں کامیاب نہ ہو سکی لیکن میڈیا کے ذریعہ شعور کی بیداری کا عمل جاری رہا ۔ یہی شعور تبدیلی کے عمل کو آگے بڑھاتا رہا ۔ یہ تبدیلی حکمران نہیں لائے یہ تبدیلی عوام لائے ۔ 2008ء اور 2013ء میں کتنا فرق ہے ؟ 2008ء میں پاکستان کا صدر پرویز مشرف تمام اختیارات کا مالک تھا ۔ 2013ء میں پاکستان کا صدر آصف علی زرداری محض ایک نمائشی حیثیت کا مالک ہے ۔ نگران وزیر اعظم جسٹس ریٹائرڈ میر ہزار خان کھوسو جناب صدر کی بات سن تو لیتے ہیں لیکن مرضی اپنی کرتے ہیں ۔ 2008ء میں چیف جسٹس کے عہدے پر موجود شخص انصاف کے نام پر ایک سوالیہ نشان تھا ۔ 2013ء میں چیف جسٹس کے عہدے پر بیٹھے ہوئے افتخار محمد چوہدری صاحب پوری دنیا میں پاکستانیوں کیلئے باعث افتخار ہیں۔ 2008ء میں چیف الیکشن کمشنر ایک ربڑ سٹمپ تھا 2013ء میں چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم اپنی کمزوری صحت اور بڑھاپے کے باوجود خاصا طاقتور ہے کیا یہ تبدیلی نہیں؟
2008ء میں نگران حکومتوں کے سیکرٹ فنڈز سے صحافیوں کو خریدا جا رہا تھا ۔ 2013ء میں نگران حکومتوں کے سیکرٹ فنڈز منجمد ہیں اور عدالتوں میں بحث جاری ہے کہ قومی سلامتی اور حب الوطنی کے نام پر سیکرٹ فنڈز کی کالک اپنے چہروں پر ملنے والوں کے نام طشت ازبام کئے جائیں یا نہیں ؟ 2008ء کے انتخابات میں تحریک انصاف، جماعت اسلامی اوربلوچستان کی کئی قوم پرست جماعتوں نے حصہ نہ لیا۔ ان جماعتوں کے بائیکاٹ کا فائدہ مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی نے اٹھایا ۔2013ء میں ایسا نہیں ہوگا ۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میدان میں ہے ۔ بلوچ قوم پرست جماعتیں نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)بھی انتخابات میں حصہ لیں گے۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے امیدوار بھی سامنے آ چکے ہیں پچھلے پانچ سال میں بہت کچھ بدل چکا ہے ۔ یہ سب کچھ اچانک نہیں بدلا یہ سب تبدیلیاں آہستہ آہستہ آئی ہیں۔ پانچ سال پہلے نوجوان پاکستان سے بھاگ رہے تھے پانچ سال بعد نوجوان پاکستان واپس ا ٓ رہے ہیں ۔ میں ایسے کئی نوجوانوں سے واقف ہوں جو پانچ سال پہلے قبائلی علاقوں اور سوات میں طالبان کے ساتھ مل کر بندوق کے ذریعہ تبدیلی کی کوشش میں مصروف تھے ۔اب یہی نوجوان ووٹ کے ذریعہ تبدیلی لانے کی کوشش میں شامل ہو چکے ہیں ۔ ایک نوجوان ایسا بھی ہے جو مشرف دور میں نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد ریاست پاکستان کا باغی بن گیا تھا لیکن 2013ء میں اپنے باغی ساتھیوں کو ووٹ کے ذریعہ تبدیلی کے عمل میں حصہ لینے کی ترغیب دے رہا ہے ۔ یقینا بلوچستان میں بدستور کئی مشکلات ہیں لیکن 2008ء کی نسبت کچھ نہ کچھ بہتری کی امید موجود ہے ۔2008ء میں مشرف نے ملٹری انٹیلی جنس کے ذریعہ بلوچستان میں کھلم کھلا انتخابی دھاندلی کی ۔ 2013ء میں ملٹری انٹیلی جنس کا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں ۔دیگر خفیہ اداروں کے بارے میں کچھ شکایات موجود ہیں لیکن آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی ان شکایات کو دور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ فوج کی طرف سے صاف اور شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا جا رہا ہے لیکن فوج کا کوئی افسر کسی ایک سیاسی جماعت کیساتھ ملکر انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتا ہوا نظر نہیں آرہا ۔ یہ ایک خوش آئند تبدیلی ہے اور اس تبدیلی کے بطن سے مزید کئی تبدیلیاں جنم لے سکتی ہیں ۔ مزید تبدیلیوں کی گنجائش یقینا موجود ہے ۔
عام پاکستانی بجلی کے بحران سے نجات چاہتے ہیں۔ خودکش حملوں اور ڈرون حملوں سے نجات چاہتے ہیں، مہنگائی، بیروزگاری اور کرپشن سے نجات چاہتے ہیں ۔ ان سب تبدیلیوں کا تعلق قانون کی بالادستی سے ہے ۔ قانون کی بالادستی سے سیاسی استحکام آئیگا اور سیاسی استحکام کے ذریعہ معاشی استحکام آئیگا ۔ یہ سب تبدیلیاں چند دنوں میں نہیں آئیں گی ۔ ان تبدیلیوں کیلئے جس عزم اور حوصلے کی ضرورت ہے وہ پاکستان کی نوجوان نسل میں تو نظر آتا ہے لیکن بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت میں اس کا فقدان ہے ۔ قانون کی بالادستی کا سب سے بڑا تقاضا سابق صدر پرویز مشرف کا احتساب تھا افسوس کہ کچھ سیاسی قائدین غیر ملکی دباؤ پر مشرف کے بارے میں خاموش ہو گئے حالانکہ 2008ء کے انتخابات میں یہی قائدین مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہے تھے ۔ 2008ء کے انتخابات میں جن جماعتوں نے محض اس لئے انتخابات کا بائیکاٹ کیا کہ مشرف کی صدارت میں شفاف انتخابات نہیں ہو سکتے وہ جماعتیں 2013ء میں متحد نہیں ہیں ۔ ایک رائے یہ ہے کہ تحریک انصاف نے غیر ملکی طاقتوں کو خوش رکھنے کیلئے جماعت اسلامی کیساتھ اتحاد نہیں کیا اور مسلم لیگ (ن) نے بھی غیر ملکی دوستوں کے دباؤ پر مشرف کیساتھ غیراعلانیہ این آر او کر لیا۔ پاکستان کی سیاست میں این آر او کے نام پر جو برائی پیپلز پارٹی نے پھیلائی تھی اس بیماری نے باقی جماعتوں کو بھی گھیر لیا ہے ۔ 2008ء کے انتخابات میں مشرف کے حامیوں اور مخالفوں میں مقابلہ تھا۔ 2013ء میں مشرف عبرت کی مثال بن چکا ہے لیکن مشرف کے ساتھی مسلم لیگ (ن) ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سے لیکر ایم کیو ایم، فنکشنل لیگ اور ق لیگ میں سینے پھیلائے بیٹھے ہیں ۔ ان جماعتوں میں زیادہ فرق نظر نہیں آ رہا ۔ لیکن تبدیلی کا عمل جاری رہیگا ۔ سیاسی و جمہوری تبدیلی اچانک نہیں آہستہ آہستہ آئیگی ۔ اس تبدیلی کے عمل میں حصہ ڈالنے کیلئے 11مئی کو صرف ایماندار امیدواروں کو ووٹ دیجئے ۔
تازہ ترین