• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلا سوال، سائنس سے: تم تو جانتی ہو میں تمہارا بڑا مداح ہوں، ہمہ وقت تمہارے گُن گاتا ہوں، ہر محفل میں تمہارے حسن کی تعریف کرتا ہوں، آخر یہ تم ہی تو ہو جس نے ہم انسانوں کی زندگیاں آسان بنائی ہیں، تمہارے ہی دم سے اِس جہان میں رونق ہے، تمہاری بدولت ہی ہم انسان ’’تو شب آفریدی چراغ آفریدم‘‘ گنگناتے پھرتے ہیں۔

کہاں انسان معمولی بخار سے مر جاتا تھا اور کہاں آج تمہاری بدولت اُس نے موذی امراض پر قابو پا لیا ہے۔ کبھی اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں برسوں لگ جاتے تھے اور آج وہ چند گھنٹوں کی مسافت سے ہواؤں میں تیرتا ہوا پہنچ جاتا ہے۔ جوں جوں تمہاری عمر بڑھ رہی ہے توں توں تمہارے حسن میں مزید نکھار آ رہا ہے۔

روزانہ تم نئے اسرار سے پردہ اٹھاتی ہو۔ تمہارے حسن کے جلوؤں کے اب وہ لوگ بھی عاشق ہیں جو پہلے کسی طرح مان کر ہی نہیں دیتے تھے مگر اے محبوبہ دل نواز، بےشک میں بھی تیرا چاہنے والا ہوں، تیری زلف گرہ گیر کا اسیر ہوں، تیرے جادو کا قائل ہوں مگر تو نے اپنی حشر سامانیوں سے نقصان بھی بہت پہنچایا ہے۔ زیادہ دور کیوں جائیں، ابھی کل کی بات ہے جب ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے گئے، لاکھوں بےگناہ افراد مارے گئے، جو بچ گئے وہ مردوں سے بدتر رہے، آج تک تمہارے دامن سے یہ داغ نہیں دھل سکا۔

میں جانتا ہوں تمہارا دفاع یہی ہوگا کہ اِس میں تمہارا کوئی قصور نہیں کہ یہ فیصلہ تو سیاستدانوں نے کیا تھا مگر تمہارا یہ عذر قابلِ قبول نہیں۔

اپنے دامن میں کامیابیاں سمیٹتے ہوئے تم کسی کو حصہ دار نہیں بناتیں، اسی اصول کے تحت تمہیں ناکامی کا بھی پورا ذمہ لینا چاہئے۔ آج کل کے کیمیائی ہتھیار، ڈرون، زہریلی گیسیں، خود کار مشین گن، ہائیڈروجن بم، نیوکلئیر ہتھیار یہ سب تمہاری دین ہیں۔

اگر تم نے کروڑوں انسانوں کی زندگیاں بچائی ہیں تو کروڑوں انسانوں کا خون بھی تمہاری گردن پر ہے اور یہ ناقابلِ معافی جرم ہے۔ یہی نہیں بلکہ تم ہماری زندگیوں میں اِس قدر دخیل ہو چکی ہو کہ پرائیویسی کا تصور خاک میں مل گیا ہے، تم نے بظاہر انسان کو آزادی دی ہے مگر حقیقت میں اُس کی آزادی کے آگے بند باندھ دیا ہے، یہ ایک ایسا خطرناک سفر ہے جس کا انجام سوچ کر ہم انسان لرز جاتے ہیں۔ اِس کے باوجود تمہارے چاہنے والوں میں کمی نہیں بلکہ روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

خاص طور سے جب سے یہ وبا آئی ہے ہر کوئی تمہارے نام کی مالا جپ رہا ہے، حتیٰ کہ تمہارے بدترین ناقد بھی چپکے چپکے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ سائنس نے ویکسین کب تیار کرنی ہے مگر دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو تمہیں اِس وائرس کا ذمہ دار سمجھتے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ یہ وائرس انسانوں میں نہ آتا اگر تمہاری وجہ سے انسان جنگلوں میں گھس کر زمین کا توازن برباد نہ کرتا اور جانوروں کی بستیاں نہ اجاڑتا۔

تمہاری بدنامی کے ڈرسے میں زیادہ تفصیل میں نہیں جا رہا، تھوڑے کہے کو بہت جانو، اور ہو سکے تو اِن اعتراضات کا جواب لکھ بھیجو۔ فقط، تمہارامحبوب۔

دوسرا سوال، مذہب سے: سمجھ نہیں آ رہی کہاں سے شروع کروں، تمہیں محبوب کہوں یا دوست، ناصح کہوں یا غمگسار! ہزاروں لاکھوں سال گزر گئے مگر تمہارا جادو آج بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے، نہ جانے تم میں ایسا کیا سحر ہے کہ سائنس کا حسن اپنی تمام تر رعنائیوں کے باوجود تمہارے آگے پھیکا پڑ جاتا ہے۔ آج بھی دنیا کی آٹھ ارب آبادی میں سے سات ارب لوگ تمہارے آگے جھکتے ہیں۔

ایسا ہی ایک بےبس انسان میں بھی ہوں۔ اِس بیکراں کائنات پر جب میں نظر دوڑاتا ہوں تو اپنی کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے اور اِس کرہ ارض پر انسان کی زندگی مجھے لایعنی اور بےمقصد لگتی ہے۔

ڈور کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا۔ اِس گھٹا گھوپ اندھیرے میں جب تم آگے بڑھ کر میرا ہاتھ تھامتے ہو تو بیمار کو یکایک جیسے قرار آ جاتا ہے، ایسے لگتا ہے جیسے کائنات کی ہر شے نگینے کی طرح اپنی جگہ فِٹ ہو گئی ہو، اشیا کی بےترتیبی میں اچانک نظم آجاتا ہے، زندگی کی بےمعنویت کو معانی مل جاتے ہیں، انسان کی بےچارگی کو سہارا مل جاتا ہے، کائنات کی وسعتیں چشمِ زدن میں ہم آہنگ ہو جاتی ہیں، صنعت کردگار کے رموز آشکار ہو جاتے ہیں۔ یونہی تو سات ارب لوگ تمہارے دیوانے نہیں۔

کہیں کوئی مسجد میں تمہارا شکر بجا لاتا ہے تو کوئی گرجے میں تم سے مدد مانگتا ہے، کہیں مندروں کی گھنٹیوں سے تمہارا استقبال کیا جاتا ہے تو کہیں کسی کنیسہ میں تم سے نجات طلب کی جاتی ہے۔

تمہارے بغیر زندگی کا تصور ہی ہم انسانوں کے لیے محال ہے مگر ہم انسان کبھی مطمئن نہیں ہوتے، سوال اٹھانے پر مجبور ہیں۔ آج میں اِس دنیا میں جگہ جگہ ظلم کا بازار گرم دیکھتا ہوں، کہیں کوئی دانیال انصاف کا ترازو لیے نہیں بیٹھا اور جب لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ ایسا کیوں ہے تو مختلف جواب ملتے ہیں۔

کوئی پادری کہتا ہے یہ نظام قدرت ہے، کوئی شیخ کہتا ہے کہ ظالم کی رسی دراز ہے، کسی کی نظر میں یہ آزمائش ہے، کسی کے خیال میں تنبیہ ہے، کوئی تسلی دیتا ہے کہ روز قیامت اِس کا اجر ملے گا، کوئی دلاسہ دیتا ہے کہ اسی دنیا میں ہی بدلہ مل جائے گا۔ میرے ایک دوست کی بیٹی ذہنی معذور ہے، عمر چودہ پندرہ سال ہے، اپنا خیال نہیں رکھ سکتی، اِس جملے سے آگے کچھ لکھنے کی ہمت مجھ میں نہیں، میرا دوست مجھ سے پوچھتا ہے کہ یہ کس کی آزمائش ہے، بیٹی کی یا والدین کی؟

بیٹی کا تو کوئی جرم ہی نہیں لہٰذا اُس کی آزمائش نہیں ہو سکتی۔ والدین کا کوئی گناہ ہو سکتا ہے یا عین ممکن ہے کہ اُن کا بھی گناہ نہ ہو پھر بھی یہ آزمائش ہو سکتی ہے۔ کیا یہ آزمائش یا تنبیہ کبھی ختم ہوگی، میرا دوست اِس کا جواب مانگتا ہے، کہتا ہے ہم میاں بیوی دعائیں مانگ مانگ کر تھک گئے ہیں پر صدائے برنخواست۔

میرے پاس بھی اِس کا کوئی جواب نہیں۔ اسی لیے میرے راہ رو، آج ہمت کرکے تم سے پوچھ رہا ہوں، ہو سکے تو جواب دے دینا۔ فقط، تمہارا تابع فرمان۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین