• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرگنگا رام کی برسی اس بار بھی 10جولائی کو خاموشی سے گزر گئی کیونکہ جب آنکھوں میں تعصب کا موتیا اتر آتا ہے تو پھر قد آور شخصیات کی خدمات بھی نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔وہ شخص جسے نئے اور جدید لاہور کا بانی سمجھا جاتا ہے اور جس نے اس دھرتی کو اپنی جنم بھومی سمجھ کر حق ادا کیااس کی خدمات کو نفرت کے الائو میں جھونکنے کا آغاز قیام پاکستان کے فوری بعد ہی ہوگیا تھا۔تقسیم ہند سے قبل انگریز سرکار نے سر گنگا رام کی خدمات کے اعتراف میں لاہور کے مال روڈ پر اس کا مجسمہ نصب کر رکھا تھا۔ایک روز مشتعل مظاہرین نے گنگا رام کے چہرے پر تارکول مل کر گویا اپنا منہ کالا کرلیا۔کسی منچلے نے جوتوں کا ہار سر گنگا رام کے گلے میںڈال دیا۔دوسری بار یہ واقعہ تب پیش آیا جب بھارت میں انتہاپسندوں نے بابری مسجد کو شہید کیا تو ہمارے ہاں احتجاج کرنے والے مظاہرین نے سر گنگا رام کی سمادھی منہدم کردی۔سعادت حسن منٹو نے ’’جوتا‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے ایک افسانے میںیہ واقعہ بیان کرتے ہوئے گہرا طنز کیا اور لکھا کہ ہجوم نے رُخ بدلا اور سرگنگا رام کے مجسمے پر پل پڑا۔لاٹھیاں برسائی گئیں ،اینٹیں اور پتھر پھینکے گئے۔جوتوں کا ہار بنا کر سر گنگا رام کے گلے میں ڈال دیا گیا ۔اسی اثنا میں پولیس آگئی ،مظاہرین میں سے ایک شخص زخمی ہوا توکسی نے آواز لگائی ،اسے گنگا رام اسپتال لے چلو۔سر گنگا رام کی سمادھی جو منہدم کر دی گئی تھی اسے دوبارہ تعمیر تو کردیا گیا لیکن ’’سن رائز بلائنڈ اسکول ‘‘کے قریب موجود یہ سمادھی متعلقہ اداروں کی غفلت اور عدم توجہی کے باعث زبوں حالی کا شکار ہے اور ہمارے اجتماعی اندھے پن کی روداد بیان کر رہی ہے۔سر گنگا رام کا نام سنتے ہی گنگا رام اسپتال کا خیال تو آتا ہے مگر ہمارے عہد کے نوجوان اس عظیم شخصیت کی خدمات سے واقف نہیں۔لائل پور کی تحصیل جڑانوالہ کے گائوں گنگا پورمیں پیدا ہونے والے سر گنگا رام پیشے کے اعتبار سے انجینئر تھے ۔سب سے پہلے سر گنگا رام نے اپنی جنم بھومی کی تقدیر بدلی۔گنگا پور جس کا پرانا نام چک نمبر591گوگیرہ تھا،اس کی زرعی اراضی بیکار پڑی تھی۔گوگیرہ برانچ کی نہر کا پانی یہاں اونچائی کے باعث نہیں پہنچ پاتا تھا۔سر گنگا رام نے آبپاشی کا منصوبہ تیار کیا ،موٹر منگوائی ،ریل کی پٹری بچھائی جس کے انجن کو گھوڑے کھینچا کرتے تھے۔پانی دستیاب ہوا تو اس علاقے کے کھیتوں میں فصلیں لہلہانے لگیں ۔سر گنگا رام نے اپنے اس گائوں میں ’’کوآپریٹو فارمنگ سوسائٹی ‘‘بنائی اور اس کے لئے 56ایکٹر زمین عطیہ کی ۔اس زمین سے حاصل ہونے والی آمدن سے یہ سوسائٹی آج بھی لوگوں کا مقدر بدل رہی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ سر گنگا رام نے رینالہ خورد میں ایک بجلی گھر بھی لگوایا جس کی پیداوار ایک میگاواٹ تھی۔پنجاب کے سابق گورنر سر میلکم نے گنگا رام کے بارے میں کیا خوب کہا کہ انہوں نے ہیرو کی طرح کمایا اور درویش کی طرح لٹایا ۔

فلاحی شعبہ میں خدمات کے اعتبار سے سر گنگا رام کے کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے۔گنگا رام ٹرسٹ کے زیر انتظام سر گنگا رام اسپتال سے متعلق تو سب جانتے ہیں مگر انہوں نے اس طرح کے بیسیوں فلاحی ادارے بنائے اور چلائے۔معذور بچوں کے لئے اپاہج آشرم بنایا گیا۔بیوہ خواتین کی امداد کے لئے فلاحی منصوبہ شروع کیا۔سر گنگا رام نے گورنر پنجاب کو کامرس کالج بنانے کا مشورہ دیا تو کہا گیا کہ کالج کے لئے موزوں جگہ میسر آتے ہی کام شروع کردیا جائے گا۔سر گنگا رام نے اپنی رہائشگاہ ’’نابھا ہائوس‘‘ کی چابیاں نکال کر میز پر رکھ دیں یوں گورنمنٹ ہیلے کالج آف کامرس کا آغاز ان کی حویلی سے ہوا۔سر گنگا رام کی وفات کے بعد ان کے خاندان نے لاہور میں ایک میڈیکل کالج بنایا جو ان کے بڑے بیٹے بالک رام کے نام پر بالک رام میڈیکل کالج کہلایا مگر قیام پاکستان کے بعد اس کا نام بدل کر فاطمہ جناح میڈیکل کالج رکھ دیا گیا۔

فلاحی شعبہ میں سخاوت اور فیاضی کے باعث سر گنگا رام کو پنجاب کا حاتم طائی قرار دیا جاتا تھا مگر ان کا اصل کارنامہ ان فلاحی منصوبوں کو اپنی ذات کا مرہون منت نہ کرنا ہے ۔ہمارے ہاں بیشمار لوگ خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہو کر سماجی و فلاحی منصوبوں کا آغاز کرتے ہیں ،کوئی اسپتال یا ڈسپنسری بنائی جاتی ہے ،غریبوں کی امداد کے لئے کوئی ادارہ قائم کیا جاتا ہے مگر جو شخص اس منصوبے کا خالق اور روح رواں ہوتا ہے اس کے آنکھیں بند کرتے ہی یہ ادارے بھی اپنی موت آپ مر جاتے ہیں کیونکہ ان اداروں کو مستقل بنیادوں پر چلانے کا بندوبست نہیں کیا جاتا ۔سر گنگا رام کا وژن یہ تھا کہ اداروں کی مستقل آمدن کا بندوبست کیا جائے۔مثال کے طور پر انہوں نے گنگا رام اسپتال کے اخراجات پورے کرنے کے لئے مال روڈ پر دکانیں خریدیں اور گنگا رام ٹرسٹ کے لئےوقف کردیں ۔جب ان کے پاس کوئی شخص ہاسپٹل کے لئے عطیہ کرنے آتا تو وہ نقد رقم قبول نہ کرتے اور کہتے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اسپتال کے اثاثہ جات میں اضافہ کردیں ۔مثال کے طور پر کئی لوگ گھوڑا تانگہ خرید کر گنگا رام اسپتال کے لئے وقف کردیتے ،اس سے روزانہ جتنی آمدن ہوتی وہ گنگا رام ٹرسٹ کے کھاتے میں جمع ہوتی رہتی ۔بعض صاحب حیثیت افراد دکانیں خرید کر ٹرسٹ کے نام کر دیتے اور اس کے کرائے سے ہاسپٹل کو آمدن ہوتی رہتی۔ہمارے عہد میںفلاحی ادارے چلانے والے افراد مستقل آمدن کا بندوبست نہیں کرتے اس لئے ادارے چلانے کے لئے مستقل بنیادوں پر عطیات اور فنڈز کی اپیل کرنا پڑتی ہے۔

گزشتہ کئی برسوں کی طرح اس بار بھی سر گنگا رام کی برسی خاموشی سے گزر گئی۔زندہ دلی اپنے محسنوں کو یاد رکھنے کا نام ہے مگر یوں لگتا ہے زندہ دلان لاہور نے اپنے محسن کو بھلا دیا۔

تازہ ترین