سعادت حسن منٹو
یہ نئی چیزوں کا زمانہ ہے۔ نئے جوتے، نئی ٹھوکریں، نئے قانون، نئے جرائم، نئی گھڑیاں، نئی بے وقتیاں، نئے آقا، نئے غلام اور لطف یہ ہے کہ نئے غلاموں کی کھال بھی نئی ہے جو ادھڑ ادھڑ کر جدت پسند ہو گئی ہے، اب ان کےلئے نئے کوڑے اور نئے چابک تیار ہو رہے ہیں۔
ادب بھی نیا ہے، جس کے بے شمار نام ہیں۔ کوئی اسے ترقی پسند کہتا ہے، کوئی تنزلی پسند، کوئی فحش کہتا ہے، کوئی مزدور پرست، اس نئے ادب کو پرکھنے کےلئے نئی کسوٹیاں بھی موجود ہیں۔ یہ کسوٹیاں پرچے ہیں، سالنامے، ماہنامے، ہفتہ وار اور روزنامے۔ ان پرچوں کے مالک اور ایڈیٹر بھی نئے ہیں۔ کوئی پاکستانی ہے، کوئی اکھنڈ ہندوستانی۔ کوئی کانگریسی ہے، کوئی کمیونسٹ ۔سب اپنی اپنی کسوٹی پر اس نئے ادب کو پرکھتے رہتے ہیں اور اس کا کھوٹا کھرابتاتے رہتے ہیں، مگر ادب سونا نہیں جو اس کے گھٹتے بڑھتے بھاؤ بتائے جائیں۔
ادب زیور ہے اور جس طرح خوبصورت زیور خالص سونا نہیں ہوتے، اسی طرح خوبصورت ادب پارے بھی خالص حقیقت نہیں ہوتے۔ ان کو سونے کی طرح پتھروں پر گھسا گھسا کر پرکھنا بہت بڑی بے ذوقی ہے۔ ادب یا تو ادب ہے ورنہ ایک بہت بڑی بے ادبی۔ زیور یا تو زیور ہے ورنہ ایک بہت ہی بدنما شے ہے۔ ادب اور غیر ادب، زیور ار غیر زیور میں کوئی درمیانی علاقہ نہیں۔
یہ زمانہ نئے دردوں اور نئی ٹیسوں کا زمانہ ہے۔ ایک نیا دور پرانے دور کا پیٹ چیر کر پیدا کیا جا رہا ہے۔ پرانا دور موت کے صدمے سے رو رہا ہے۔ نیا دور زندگی کی خوشی سے چلا رہا ہے۔ دونوں کے گلے رندھے پڑے ہیں۔ دونوں کی آنکھیں نمناک ہیں۔ اس نمی میں اپنے قلم ڈبو کر، لکھنے والے لکھ رہے ہیں۔ نیا ادب میں زبان وہی ہے، صرف لہجہ بدل گیا ہے۔ دراصل اسی بدلے ہوئے لہجے کا نام نیا ادب، ترقی پسند ادب یا مزدور پرست ادب ہے۔
ادب ایک فرد کی اپنی زندگی کی تصویر نہیں۔ جب کوئی ادیب قلم اٹھاتا ہے تو وہ اپنے گھریلو معاملات کا روزنامچہ نہیں لکھتا۔ اپنی ذاتی خوشیوں، رنجشوں، بیماریوں اور تندرستیوں کا ذکر نہیں کرتا۔ اس کی قلمی تصویروں میں بہت ممکن ہے آنسو اس کی دکھی بہن کے ہوں، مسکراہٹیں آپ کی ہوں اور قہقہے ایک خستہ حال مزدور کے۔
ہر ادب پارہ کی ایک خاص فضا، ایک خاص اثر اور ایک خاص مقصدہوتا ہے۔ لیکن قصہ آدم وہی ہے۔ ایک عورت اور ایک مرد، دو عورتیں اور ایک مرد یا دو مرد اور ایک عورت یہ گردان ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔
انسان کو بھوک پہلے بھی لگتی تھی اور اب بھی لگتی ہے۔ طاقت کا خواہاں پہلے بھی تھا، اب بھی ہے۔تبدیلی کیا ہوئی ہے، کچھ بھی نہیں، روٹی، عورت اور تخت ۔
انسان، عورت سے محبت کرتا ہے تو ہیر رانجھا کی داستان بن جاتی ہے۔ روٹی سے محبت کرتا ہے تو ا یپی کیوریس کا فلسفہ پیدا ہو جاتا ہے۔ تخت سے پیار کرتا ہے تو سکندر، چنگیز، تیمور یا ہٹلر بن جاتا ہے۔ دنیا بہت وسیع ہے۔ کوئی چیونٹی مارنا بہت بڑاگناہ سمجھتا ہے، کوئی لاکھوں انسان ہلاک کر دیتا ہے اور اپنے اس فعل کو بہادری اور شجاعت سے تعبیر کرتا ہے۔
ہر انسان دوسرے انسان کے پتھر مارنا چاہتا ہے۔ ہر انسان دوسرے انسان کے افعال پرکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ اس کی فطرت ہے، جسے کوئی بھی حادثہ تبدیل نہیں کر سکتا۔ میں کہتا ہوں کہ اگر آپ مجھے پتھر مارنا ہی چاہتے ہیں تو خدارا ذرا سلیقے سے ماریئے۔ میں اس آدمی سے ہر گز ہر گز اپنا سر پھڑوانے کےلئے تیار نہیں جسے سر پھوڑنے کا سلیقہ ہی نہ آتا ہو، اگر آپ کو یہ سلیقہ نہیں آتا تو سیکھئے! دنیا میں رہ کر جہاں آپ نمازیں پڑھنا، روزے رکھنا اور محفلوں میں جانا سیکھتے ہیں، وہاں پتھر مارنے کا ڈھنگ بھی آپ کو سیکھنا چاہیئے۔
میرے نزدیک بس ، یہ سلسلہ بھی ایک کسوٹی ہے۔ انسان کے ہر فعل کےلئے، اس کے گناہ ، اس کے ثواب کے لیےاس کی شاعری کے لیے، اس کے افسانوں کےلئے، مجھے نام نہاد نقادوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ نکتہ چینیاں صرف پتیاں نوچ کر بکھیر سکتی ہیں لیکن انہیں جمع کر کے ایک سالم پھول نہیں بنا سکتیں۔
بہت سے نقاد گزر چکے ہیں، لیکن اس ادب سے بے ادبیاں دور نہیں ہوئیں۔ بہت سےادوار گزرےہیں لیکن انسان ایک دوسرے سے متحد نہیں ہوئے ۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ یہ المیہ ہی سعادت حسن منٹو ہے۔ یہ المیہ ہی آپ ہیں ۔ یہ المیہ ہی ساری دنیا ہے ،جس میں کسوٹیاں زیادہ ہیں اور کسے جانے والے کم ، جس میں پتھر کم ہیں اور پھوڑنے والے زیادہ۔
(مآخذ: کتاب : لذت سنگ)