• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذرا سوچئے ، دنیا والے سلام کرنے کے ڈھنگ بھول گئے ہیں۔ اس کورونا وائرس نے انسان کو انسان سے دور کیا سو کیا، اس کے طور طریقے بھی بدل ڈالے۔ یوں تو دنیا بھر کے لوگ آپس میں ملتے تو ہاتھ ملایا کرتے تھے۔ اس وبا نے زور پکڑا تو جو بہت سے حکم صادر ہوئے ان میں ایک یہ ہے کہ ایک دوسر ے سے ہاتھ نہ ملائیں ورنہ وبا ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو لگنے کے بجائے دونوں کو لگ جائے گی۔ چلئے، ماہرین یوں کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے لیکن ماہرین یہ نہ بتا سکے کہ ہاتھ نہ ملائیں تو کیا کریں۔ظاہر ہے اس سوال کا جواب دینا صحت کے معاملے کے ماہروں کا کام نہیں۔ پھر کس کا کام ہے۔ سوچئے وہ کون ہے جو طے کرکے بتائے کہ ہاتھ نہ ملائیں تو کیا کریں۔

تو ہوا یہ کہ جس کو جو ڈھنگ سمجھ میں آیا اُس نے اختیار کرلیا۔ اب اگر مغرب والوں کو اس معاملے میں اپنا امام کرلیا جائے تو انہوں نے عجیب بے ڈھنگا طریقہ دریافت کیا ہے۔ وہ ایک دوسرے سے ہاتھ نہیں ملاتے بلکہ ایک دوسرے سے کہنیاں ملاتے ہیں۔ ایک تماشا سا لگتا ہے، لوگ تپاک سے ایک دوسرے کی طرف بڑھ رہے ہیں اپنی اپنی کہنیاں آگے بڑھائے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آئی یہ ادا۔ ہاتھ ملا نے کی حکمت تو سمجھ میں آتی تھی کہ گرم ہتھیلیوں کے لمس سے گرمجوشی کا تبادلہ ہوتا تھا ، لیکن کہنی سے کہنے ملانے میں کس نے کیا خوبی دیکھی۔

پھر ادھر ایک نرالی ادا نظر آئی ۔ کہنی سے کہنی ملانے کے لئے بھی کچھ تو قریب آنا پڑتا ہے۔ لوگ دور ہی سے سلام کرنے کےلئے ہاتھ جوڑ کر نمستے کے انداز میں سلام کرنے لگے ہیں۔یہ وہی نمستے ہے جو قدیم ایران میں سورج کی پرستش کرنے والے صبح طلوع ہوتے ہوئے سورج کے سامنے ہاتھ جوڑا کرتے تھے، کسی نے مجھے بتایا کہ اُس عمل کو نماست کہا جاتا تھا، جس سے لفظ نمستے نکلا۔

سچ پوچھئے تو کورونا کا قصہ ہو نہ ہو، سلام کرنے کے دنیامیں سینکڑوں انداز ہیں۔ہماری سرزمین پر جتنے بھی معاشرے بستے ہیں، ایک دوسر ے کو اپنے اپنے انداز سے سلام کرتے ہیں۔ بعض معاشروں میں لوگ ناک سے ناک ملاتے ہیں، کہیں کہیں رخسار سے رخسا رملاتے ہیں۔یہاں مغربی معاشرے میں خواتین سے ملتے ہیں تو گال سے گال ملا کر ہوا میں ذرا سا چوم لیتے ہیں۔دنیا کے کچھ علاقوں میں ہاتھ نہیں ملاتے، گلے ملتے ہیں، معانقے کرتے ہیں اور عام اصطلاح میں ’جپھی ڈالتے ہیں اور کبھی کبھی پیار کی جپھی۔

اس کے علاوہ ہاتھ ملانے کے بھی الگ الگ طور ہیں۔ اکثر ایک ہاتھ سے ایک ہاتھ ملاتے ہیں، کچھ زیادہ ہی قربت کا اظہار کرنا ہو تو دوسرے کا ایک ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوںمیں تھام لیتے ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ گرمجوشی دکھا نا ہوتو اس کا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ہاتھ تھام کر کتنی دیر تک مسلسل ہلاتے ہیں۔اس معاملے میں امریکہ کے صدر ٹرمپ کا مصافحہ دیکھنے کے قابل ہوتا ہے جو اگر مودی کے ساتھ ہو تو ختم ہونے یا ٹھہرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ٹرمپ صاحب میزبان سے فاصلے پر بیٹھے ہوں تو ’کر کر لمبے ہاتھ ‘ جس خشوع و خضوع سے ہاتھ ملاتے ہیں، وہ منظر بھی ان کے جانے کے بعد تک یاد رہے گا، اور جو دوسرا منظر یاد رہے گا وہ یہ کہ ٹرمپ جب اسٹیج پر آتے ہیں تو مجمع تو تالیاں بجا ہی رہا ہوتا ہے، خود جناب صدر بھی تالی بجا رہے ہوتے ہیں۔یہ امریکہ کا پہلا صدر ہوگا جو اپنی بے شمار حرکتوں کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔

اب آئیے اپنی تہذیب، اپنی معاشرت، اپنے ادب و آداب میں سلام کرنے کے نہایت نفیس انداز۔وہ گھر کی بہو بیٹیوں کا بڑوں کے سامنے آنا تو جھک کر ہاتھ پیشانی تک لے جاکر ’تسلیم‘ کہنا۔ گھر کے لڑکے ہوں تو ہاتھ سے ماتھے کو چھوتے ہوئے زیر لب ’آداب‘ کہنا۔ بڑے آپس میں ملیں تو گرم جوشی سے سلامتی کے دعائیہ کلمات کہنا اور سب سے پہلے خیریت دریافت کرنااور اپنی خیر و عافیت بیان کرنا۔ یہ سب ہماری تہذیب کے علاقے میں آتا ہے جو اب خواب کی طرح محو ہوا جاتا ہے۔ ہاتھ پیشانی تک لے جانے کی بات ہورہی ہے تو مجھے جناح صاحب کی وہ تصویر بے حد عزیز ہے جس میں وہ اپنا دایاںہاتھ بڑے ہی ادب سے پیشانی تک اٹھائے ہوئے ہیںاور صاف نظر آتا ہے کہ وہ کسی فرد کو نہیں، پوری قوم کو سلام کررہے ہیں۔دکھ ہے تو اس بات کا ہم نے ان کے اس سلام کا جواب نہیں دیا۔

تقسیم سے پہلے سارے ہندو مسلمان ایک دوسرے کو ’آداب عرض‘ کہا کرتے اور ماتھے تک ہاتھ لے جاتے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ، پیشانی کو ہاتھ لگانے کا رواج ساری ہی دنیا میں تھا۔آج تک دنیا کے تمام ملکوں کی فوج ہاتھ ماتھے کے قریب لے جاکر سلیوٹ کرتی ہے۔سلام کسی بھی علاقے یا کسی بھی عقیدے کا ہو، اس میں پیشانی کا کتنا دخل ہے، سوچئے تو سوچنے کو بہت کچھ ہے۔اگر ہاتھ وہاں تک نہ جائے تو وہ خود اتنا جھکتی ہے کہ سلام کی قدر کو آسمان سے ملا دیتی ہے۔ہم نے جب بھی ماں کو سلام کیا، پیشانی ہی کو قدموں میں رکھا۔

حیرت ہے کہ جب ہاتھ ملانا ممنوع ہوا تو لوگوں نے بیسیوں متبادل اختیار کئے،ہاتھ پیشانی تک لے جانے کا کسی کو خیال نہ آیا۔ شکر ہے او رغنیمت ہے کہ ابھی کچھ ہاتھ باقی ہیں جو بڑے ادب سے پیشانی کا رُخ کرتے ہیں۔جی یہ کہے بغیر نہیں مانتا کہ جن تھوڑے بہت لوگوں نے وہ بزرگوں کی رسم نبھارکھی ہے، ان کو ہمارا سلام۔

تازہ ترین