• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

5 اگست 2019 ء تاریخ کا ’’سیاہ دن ‘‘ کے نام سے جانا جائے گا، اس دن بھارت نے اقوام متحدہ کی قرار دادیں اور عالمی برداری سے کیے گئے وعدوں کو پامال کرتے ہوئے اپنے آئین وقانون کو بلڈوز کرکے دنیا پر یہ واضح کرنے کی ناکام کوشش کی کہ اس نے عالمی متنازع علاقےکشمیر اور لداخ ہڑپ کرلیے ہیں اس سیاہ دن اُس نے اپنے آئین کے آرٹیکل 35 اے اور آرٹیکل 370 کو کالعدم کردیا ۔ 

اس اقدام کے نتیجے میں کشمیر کے حوالے سے اُس نے جو موقف اختیار کر رکھا تھا اس میں ایک غیر معمولی تبدیلی واقع ہوگئی ۔ہر چند کہ ہندوستان کشمیر کو اپنا ٹوٹ انگ تو شروع ہی سے کہتا رہا تھا لیکن مذکورہ آرٹیکلز نے مقبو ضہ کشمیر کو ایک خصوصی تشخص بھی فراہم کر رکھا تھا جس کے تحت اس کی حیثیت ہندوستان کی دیگر ریاستوں سے مختلف تھی۔ان آرٹیکلز کے کالعدم قرار دیے جانے کے بعد مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان نے گویا آئینی طور پر اپنا باضابطہ حصہ قرار دے دیا ہے۔

یہ اقدام عالمی فورمز پر ہندوستان کے اعلانا ت کے بھی خلاف ہے ۔کیوں کہ اقوام متحدہ کی قرار دادیں کشمیر کو ایک متنازع مسئلہ قرار دیتی ہیں ۔گزشتہ ایک برس سے کشمیر کا ایک بڑا علاقہ کرفیو کی زد میں ہے ۔انسانی حقوق کا احترام تو ہندوستان روز اوّل سے ہی نہیں کررہا تھا اب اس میں مزید اضافہ ہوچکا ہے ۔اس تمام صورت حال میں حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ باوجود جبر و تشدد کی انتہائی کا روائیوں کے اہل کشمیر کا عزم اپنی جگہ قائم ہے اُن کےجذبہ حریت نے اس مسئلے کو کرۂ ارض پر انسانی اقدار سے محبت کرنے والے ہر فرد تک پہنچا دیا ۔ آ ج نہیں تو کل وہ یقیناً آزادی کے حصول میں کام یاب و کامران ہوں گے۔لیکن ایک سال سے مقبوضہ کشمیر کےعوام کو جس کیفیت کا سامنا ہے اس کا اندازہ عالمی سطح پر سب کو ہے پھر بھی دنیا خاموش ہے۔جس کااحساس دلانا ہوگا۔

خصوصاً ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں لاک ڈائون ہے۔ جب کہ مقبوضہ کشمیر کےعوام ایک سال سے لاک ڈائون سے بھی زیادہ درد ناک عذاب سے گزر رہے ہیں ۔ان سے اظہار یکجہتی کے لیے آج ملک بھر میں یومِ استحصال کشمیر منایا جارہا ہے۔ہندوستان نے اپنے آئین کے آرٹیکل 35 اے اور آرٹیکل 370 کو کالعدم کرکے کتنی کام یابی حاصل کی یہ تو وقت نے ثابت کر دیا ۔زیرنظر مضمون میں قارئین کو آرٹیکل 370کا جائزہ پڑھ کر بہ خوبی اندازہ ہو جائے گا کہ بھارت نے اس آرٹیکل کے پر خچے اُڑا کر مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کیسے ختم کی۔

بھارتی حکومت نے 5اگست 2019 ء کو ’ ’آئینی (جموں اور کشمیر پر لاگو) حکم نامہ ‘‘2019نافذ کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کی زبان میں کئی تبدیلیاں کردیں۔ اس آرٹیکل کی بنیادی ساخت جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے تھی ۔ صرف یہی نہیں،بھارت نے ’’جموں اینڈ کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ2019 ‘‘نافذ کرتے ہوئے الگ ریاست کی حیثیت ختم کردی۔ یہ ریاست تین خطوں پر مشتمل تھی، جن میںکشمیر، لداخ اور جموں شامل تھے۔ اب یہ بھارتی آئین کی رو سے آزاد ریاست نہیں رہی ۔ اس پیش رفت کے مضمرات سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف اس تبدیلی کے قانونی بلکہ تاریخی اور سیاسی پہلوئوں کو بھی اجاگر کیا جائے۔

حکومت ِہند کے قانون 1935ء کے سیکشن 5نے برطانوی راج کے تحت وفاق ِہند کو قائم کیا تھا۔ اس آرٹیکل کا سیکشن 311 دو دفعات ، ’’ برٹش انڈیا ‘‘ اور ’’انڈیا‘‘ کو بیان کرتا ہے ۔ برٹش انڈیا بھارت کے دوتہائی علاقے کا احاطہ کرتا تھا،جبکہ انڈیا میں باقی ایک تہائی علاقے شامل تھے۔ یہ ایک تہائی حصہ نوابی ریاستوں اور قبائلی علاقہ جات پر مشتمل تھا۔ ان ریاستوں کے اپنے حکمران تھے ۔ یہ برٹش انڈیاکا حصہ نہیں تھے ۔ اُس وقت کم و بیش 565 ریاستیں اپنی اہمیت کے اعتبار سے تاج ِ برطانیہ کے تحت مختلف درجے کی خودمختاری رکھتی تھیں۔اُن کے درمیان تعلق کو مختلف دستاویزات اور معاہدوں کی شکل میں بیان کیا گیا تھا۔

ایکٹ 1935 ء کےسیکشن 6 کے مطابق نوابی ریاستیں وفاق ِانڈیا کے ساتھ الحاق کرسکتی تھیں بشر طیکہ گورنر جنرل ریاست کے حکمران کی طرف سے پیش کردہ الحاق کی درخواست منظور کرلیں۔ لیکن اس شق کی رو سےکسی ریاست کو وفاق میں شامل ہونے پر مجبور نہیں کیا جاسکےگااور نہ ہی ریاست کی مرضی کے خلاف اس پر کوئی شرط عائد کی جائے گی۔

اب یہ سوال کہ برطانوی راج ختم ہونے کے بعد نوابی ریاستوں کی حیثیت کیا ہوگی؟ اس بات کو کرپس مشن رپورٹ 1942 ء کے علاوہ کیبنٹ مشن میں بھی زیر ِبحث لایا گیا ۔اور ان دونوں نے تسلیم کیا کہ برطانوی ہند کی جگہ قائم ہونے والی ریاستوں کونوابی ریاستوں پر کوئی اختیار حاصل نہ ہوگا۔

آزادی ہند ایکٹ 1947 ء کے مطابق دوآزاد ریاستیں، پاکستان اور بھار ت ، قائم کی جائیں گی او ر ان دونوں کے لیے تاج برطانیہ ایک ایک گورنرجنرل مقرر کرے گا۔ سیکشن 7 کے مطابق تاج برطانیہ کے نوابی ریاستوں کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدے اور تحریر کردہ تمام دستاویزات ختم ہوجائیں گی۔ تاہم اگر کوئی نوابی ریاست چاہے تو وہ کسی ایک ریاست کے ساتھ شامل ہونے کے لیے آزاد ہوگی ۔ اس لیے کہ نوابی ریاستوں کو پاکستان اور بھارت سے بھی زیادہ آزادی مل گئی تھی کیونکہ آزادی ملنے کے بعد بھی ان دونوں ریاستوں (پاکستان اور بھارت) پر تاج ِ برطانیہ کے نامزد کردہ گورنرجنرلوںکو حکومت کرناتھی ،تاہم نوابی ریاستوں کا اس کے بعد تاج ِبرطانیہ سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا تھا اور نہ ہی برطانوی راج کو اس پرکوئی اختیار تھا۔

اگرچہ آزادی ہند ایکٹ 1947 ء میں درج تھا کہ زیادہ تر نوابی ریاستیں خودمختار ہی رہیں گی لیکن بھارتی حکومت اکھنڈ بھارت کی سوچ رکھتی تھی ۔ گویا وہ اس تمام خطے کو ایک ناقابل ِتقسیم جغرافیائی سرزمین سمجھتی تھی اور اس میں مختلف نوابی ریاستوں کا وجود اس کے لیے ناقابل ِقبول تھا،چنانچہ رفتہ رفتہ تمام نوابی ریاستیں بھارت میں شامل کی جانے لگیں۔

انڈیا کی تقسیم کے ساتھ ہی جموں اور کشمیر ایک خودمختار ریاست بن گئ، جس پر مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت تھی ۔ مہاراجہ کشمیری نہیں بلکہ ڈوگرہ راجپوت ہندو تھا۔ ریاست میں مسلمان اکثریت میں تھے لیکن ہندئووںکی بھی آبادی تھی ۔ وادی ٔ کشمیر کو16 مارچ 1846 ء کوگلاب سنگھڈوگرہ نے انگریزوں سے معاہدہ امرتسر کے تحت 75 لاکھ روپے میں خریدا تھا ۔مہا راجہ کے پاس پہلے سے ہی لداخ اور جموں تھے ۔1845ء میں لڑی جانے والی پہلی اینگلو سکھ جنگ کے بعد سکھوں نے معاہدہ لاہور کے تحت 9 مارچ 1846 ء کو کشمیر انگریزوں کے حوالے کردیا تھا۔

مہاراجہ آزادرہنا چاہتا تھا ۔اس لیے اُس نے اپنے دفاع کے لیے بھارت سے مدد مانگی ۔ اُسے بتایا گیا کہ اس مقصد کے لیے اُسے بھارت سے الحاق کے معاہدے پر دستخط کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ان حالات میں اس نے 26 اکتوبر 1947ء کو حکومت ہند ایکٹ 1935 ء کے تحت معاہدے پر دستخط کردیے ۔جس کے مندرجات درج ذیل ہیں:

(a)مہاراجہ نے الحاق کے معاہدے پر دستخط کیےجو مشروط تھے، شق نمبر 1 سے:

b))مہاراجہ نے تسلیم کیا کہ بھارتی ریاست کی اسمبلی ریاست جموں اور کشمیر کے لیے دفاع، امور ِخارجہ، مواصلات اور دیگر معاون امور تک محدود قانون سازی کرسکتی ہے ۔ (شق نمبر 3)

(c)حکومت ِہند کے قانون 1935 ء یا آزادی ٔ ہند ایکٹ 1947 ء میں کی گئی کوئی بھی تبدیلی اس معاہدے کی شقوں کوتبدیل نہیں کرسکے گی، تاوقتیکہ مہاراجہ کسی ضمنی شق پر متفق ہوجائے ۔ (شق نمبر 5)

(d)معاہدے کی کوئی بھی شق مہاراجہ کو بھارت کے کسی بھی مستقبل کے آئین کو قبول کرنے یا حکومت ہند کے ایکٹ کے تحت کسی اور بندوبست میں شریک ہونے پر پابند نہیں کرتی ہے۔ (شق نمبر 7)

(e)مہاراجہ کا ریاست پر بدستور اختیار، حق اور اتھارٹی برقرار رہے گی، سوائے اس کے جو معاہدے میں طے پائے ہیں۔ (شق نمبر 8)

لارڈ مائونٹ بیٹن نے معاہدہ تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت چاہتی ہے کہ امن و امان کی بحالی کے بعد الحاق کا معاملہ عوام کی خواہش کے مطابق طے کیا جائے ۔

الحاق کے معاہدے نے بھارتی پارلیمنٹ کو صرف تین مخصوص امور میں قانون سازی کا اختیار دیا تھا۔ جو مہاراجہ کو مستقبل میں کسی آئینی بندوبست میں شامل ہونے سے نہیں روکتا سکتے تھے۔ اُس وقت تک ریاست کا اپنا آئین نہیں بنا تھا ۔ دوسرے الفاظ میں الحاق کا فیصلہ مستقبل کے بندوبست کی بنیاد پر ریاست کے عوام کی صوابدید پر ہونا تھا ۔ مزید یہ کہ ریاست کی حتمی حیثیت کا تعین اقوام ِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قرار دادوں کی روشنی میں کیا جانا تھا ۔ جوکشمیر پر بھارت اور پاکستان کے درمیان مسلح کشمکش کا حل نکالنے کے لیے منظور کی گئی تھیں۔ ان حالات کی روشنی میں آئین کا آرٹیکل 370 عارضی طور پر ریاست جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کا تحفظ کرتا تھا۔

آرٹیکل 370 کے مطابق ، اس آئین کی کسی چیز سے قطع نظر:

(a) آرٹیکل 238کی شقوں کا اطلاق جموں اور کشمیر کی ریاست پر نہیں ہوگا۔

( (bمذکورہ ریاست کے حوالے سے پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار درج ذیل امور تک محدود ہوگا۔

(i) جو ریاست کی حکومت کے مشورے سے یونین لسٹ اور موجودہ فہرست میں شامل کیے گئے ہیں اور صدر کے اعلان کردہ ریاست کے بھارت سے الحاق کے معاہدے کی شقوں سے مطابقت رکھتے ہیںجن کے تحت بھارت کی پارلیمنٹ ریاست کے بارے میں قانون سازی کرسکتی ہے ۔

(ii) مذکورہ فہرست میں شامل دیگر معاملات ، بھارتی حکومت کی منظوری سے ہوں گے ، جن کے بارے میں صدر خصوصی حکم دیں گے ۔

(وضاحت۔ آرٹیکل کی رو سے ، ریاست کی حکومت سے مراد وہ شخص ہے جسے وزرا کی کونسل کی مشاورت سے صدر اُس وقت جموں اور کشمیر کا مہاراجہ تسلیم کرے گا)

(c) آرٹیکل 1 کی شقوں اور اس آرٹیکل کا ریاسست کے حوالے سے اطلاق ہوگا۔

((d آئین کی تبدیل شدہ شقوں کا ریاست پر اطلاق صدر کے خصوصی حکم کے مطابق ہوگا :

(i)بشرطیکہ ایسا کوئی معاملہ جس کا الحاق کے معاہدے کے پیراگراف نمبر 1کی ذیلی شق b میں حوالہ نہ دیا گیا ہو، سوائے اس کہ ریاست کی حکومت کے مشورے سے ہوا ہو۔

(ii)بشرطیکہ ایسا کوئی حکم نامہ جو حوالہ دیے گئے گزشتہ امور سے متعلق ہو سوائے اس کے جو حکومت کی منظوری سے ہو۔

2۔ ریاست کی حکومت کی اجازت جس کا حوالہ پیراگراف، ذیلی شق1) یا اُس شق کی ذیلی شق (d)کی دوسری شرط دستور ساز اسمبلی کے کسی فیصلے کے لیے سامنے رکھنی ہوگی۔

3۔ آرٹیکل کی شقوں میں موجود کسی بھی شے کے باوجود صدر سرکاری نوٹیفیکیشن کے ذریعےا علان کرسکتا ہے کہ یہ آرٹیکل اب فعال نہیں رہے گا یاان تبدیلیوں اور استثنا کے ساتھ قابل ِرہے گا۔

بشرطیکہ دستور ساز اسمبلی کی سفارشات شق نمبر 2 کے حوالے سے ہو گی قبل اس کے کہ صدر ایسا کوئی نوٹی فی کیشن جاری کرے۔

یہ بات بھی قابل ِ غور ہے کہ یہ شق لفظ

’’Not withstanding‘‘

ـ سے شروع ہوتی ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ شق آرٹیکل 370 کی تمام شقوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔

بھارت کے صدرنے پانچ اگست 2019 ء کو حکم نامہ جاری کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کو دوبارہ ترتیب دیا، جیسا کہ :

آرٹیکل 370 کی شق 1 کے مطابق صدر ریاست جموں کشمیر کی حکومت کی منظوری سے مندرجہ ذیل حکم نامہ جاری کرتےہیں :

(1) یہ حکم نامہ آئین کہلا سکتا ہے جس کا اطلاق جموں اور کشمیر پر ہوگا۔ (حکم نامہ 2019ج)

(2)یہ ایک مرتبہ نافذ العمل ہوگا اور آئین کے حکم نامے 1954 ء کو معطل کرکے اس کی جگہ لے گا جس میں وقتاً فوقتاً ترمیم ہوتی رہی ہے ۔

3۔ آئین کے تمام مندرجات میں وقتاً فوقتاً ترمیم ہوتی رہی ہے ۔ یہ ریاست جموں اور کشمیر پر نافذ ہوںگے اور اس میں تبدیلیوں اور استثنا درج ذیل ہوں گی:

آرٹیکل 367 میں مندرجہ ذیل شقوں کا اضافہ کیا جائے گا، جیسا کہ :

4۔ آئین کی روسے جو ریاست جموں اور کشمیر کے لیے ہوگا:

(a)آئین یا اس کی شقوں کے حوالے کو آئین کا حوالہ سمجھا جائے گا یا مذکورہ ریاست پر نا فذ ہونے والی شقوں کو اسی حوالے سے دیکھا جائے گا۔

(b) وقتی طور پر شخص کی شناخت صدر دستورساز اسمبلی کی سفارش پر کریں گے جیسا کہ جموں اور کشمیر کے صدر ِریاست جو ریاست کے وزرا کے مشورے سے کام کریں گے اور جسے ریاست جموں اور کشمیر کا گورنر سمجھا جائے گا۔

(c) مذکورہ ریاست کی حکومت بشمول ریاست جموں اور کشمیر کے گورنر وزرا کی کونسل کے مشورے سے کام کریں گے ، اور

آرٹیکل 370 کی شق (3کے حوالے سے ریاست کی دستور ساز اسمبلی جس کا شق (2) میں حوالہ دیا گیا ہے ، کو ریاست کی قانون ساز اسمبلی پڑھا جائے گا۔

آرٹیکل 370 میں کی جانے والی تبدیلی جس پر قانونی سوال اُٹھایا جارہا ہے ، دراصل اس کی شق (3)کو تبدیل کیا جانا ہے ۔ اس شق کے مطابق اس آرٹیکل کی دیگر شقوں سے قطع نظر صدر ایک پبلک نوٹی فی کیشن سے اعلان کرسکتا ہے کہ یہ آرٹیکل اب فعال نہیں رہے گا ۔بشرطیکہ دستور ساز اسمبلی کے سفارشات شق نمبر 2 کے حوالے سے ہو قبل اس کے کہ صدر ایسا کوئی نوٹی فی کیشن جاری کرے۔

یہ بات بھی قابل ِ غور ہے کہ یہ شق لفظ

’’Not withstanding‘‘

سے شروع ہوتی ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ شق آرٹیکل 370 کی تمام شقوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔

آرٹیکل 370 ظاہر کرتا ہےکہ مخصوص ایکٹس کے لیے ریاست کی حکومت سے مشاورت کی جائے گی ، اور کچھ دیگرایکٹس کے لیے اتفاق رائے اور کچھ مخصوص ایکٹس کے لیے قانون ساز اسمبلی کی سفارشات درکار ہوں گی۔ آرٹیکل 370 میں تین مختلف الفاظ ، ’’مشاورت‘‘، ’’اتفاق رائے ‘‘ اور ’’سفارشات ‘‘ کا انتخاب ظاہر کرتاہے کہ آئین بنانے والے کشمیری عوام اپنے نمائندوں کے ذریعے شمولیت کے سوال پر کس قدر حساس تھے ۔ اس لیے ’’ریاست کی حکومت ‘‘ اور ’’دستور ساز اسمبلی ‘‘ جیسی اصلاحات کے معانی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

دستور ساز اسمبلی ایک جمہوری ادارہ ہے جوعوام کی خواہشات کی نمائندگی کرتا ہے ۔ عوام کے منتخب نمائندے اسمبلی کے ذریعے کام کرتے اور حکومت تشکیل دیتے ہیں۔ اگر ایک منتخب شدہ حکومت کی نوعیت بطور ایک ادارہ تبدیل ہوکر غیر نمائندہ ہوجاتی ہے تو پھر حکومت کا تمام تصور معدوم ہوجاتا ہے۔ ترمیم کے وقت جموں اور کشمیر پر صدارتی نظام نافذ تھا۔ اس کی منتخب شدہ حکومت تحلیل ہوچکی تھی اور گورنر راج مسلط تھا ۔گورنر بھارتی صدر کا نامزد کردہ نمائندہ تھا ۔ صدارتی نظام میں یونین اسمبلی معطل شدہ ریاستی اسمبلی کے اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔ ریاست کے عوام کا کوئی نمائندہ ادارہ ، نہ ہی حکومت اور نہ ہی اسمبلی موجود نہ ہو تو ان حالات میں سرکاری اتفاق ِرائے بے معانی ہوجائے گا۔ یہ جموں اور کشمیر کے عوام کا اپنے نمائندوں کے ذریعے اتفاق رائے نہ ہوگا۔ اسی طرح آرٹیکل 370 کی شق نمبر 2 میں مذکورہ دستور ساز اسمبلی وہ تھی جس نے 1950 ء میں اس پر غور کرنا شروع کیا تھا۔ 17 نومبر 1956ء کو کشمیری آئین منظور ہوا اور26 جنوری 1957 ء کو اس کا نفاذ عمل میں آیا۔ اس کے بعد اسمبلی اپنا وجود کھو بیٹھی۔

آرٹیکل 370 کی مخصوص شقوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آرٹیکل 370 (1) کی ذیلی شق (b) پارلیمنٹ کے اختیار کو بیان کرتی ہے جو کہ ریاست جموں اور کشمیر کے بارے میں قانون سازی کے بارے میں ہے جس کے لیے مندرجہ بالا حدود کاخیال رکھنا ہوگا۔

ذیلی شق ((cکے مطابق: آرٹیکل 1 کے مندرجات اور اس آرٹیکل370 ریاست پر لاگو ہوںگے ۔ آرٹیکل 1 کے مطابق ریاست جموں اور کشمیر انڈین یونین کا حصہ تھیں۔ ذیلی شق (d)آئین سے متعلق ہے ، اور اس کا تعلق عام قانون سازی سے نہیں ہے جیسے ذیلی شق (b) کے مطابق:

جیسا کہ آئین کی دیگر شقوں پر اطلاق ہوتا ہے کہ صدر ان میں تبدیلیاں اور ترامیم کرسکتا ہے ، جیسا کہ حکم نامہ کہتا ہے:

i) یہ کہ کوئی حکم نامہ ریاست کے الحاق کاحکم نہ دے جس کا پیراگراف (i)کی ذیلی شق (b)میں حوالہ ہے ، سوائے اس کے کہ ریاست کی حکومت کی مشاورت سے جاری کیا جائے۔

(ii) یہ کہ ایسا کوئی حکم جس کا آخری کارروائی میں ذکر کیا گیا تھا، جاری کیا جائے گا سوائے اس کے جو حکومت کی اجازت سے ہو۔

سب سے اہم چیز صدر کا اختیار ہے جو کہ آرٹیکل 370(1) کی ذیلی شق (d) اور آئین کی دیگر شقوں کے حوالے سے ہے ۔ جب لفظ ’’دوسرا‘‘ پڑھا جائے گا جس کے فوراً بعد ذیلی شق (c) ہوگی جو آرٹیکل 1 اور آرٹیکل 370 کی شقوں کا حوالہ دے گی، تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ دیگر مندرجات آرٹیکل 1 اور آرٹیکل 370 میں شامل نہیں ہوں گے۔جہاں تک آرٹیکل 1 اور آرٹیکل 370 کا تعلق ہے تو ریاست کی حکومت کی منظوری اور مشاورت سے اس میں تبدیلی کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ آرٹیکل 370 کا دائرہ کار جموں اور کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کی سفارشات میں ترمیم کرسکتا ہے ۔ موجود ہ کیس میں پانچ اگست 2019 ء کو تیار کیا گیا صدراتی فرمان آرٹیکل 370 کی زبان کو تبدیل کرسکتا ہے ۔ آرٹیکل 370 کی شق 1(c) کے مطابق صرف آرٹیکلز 1اور 3ہی ریاست پر لاگو ہوں گے ۔ نئے صدارتی فرمان کے مطابق آئین کے تمام مندرجات لاگو ہوں گے۔

موجودہ کیس میں آئین کے آرٹیکل 367 میں ترمیم کی گئی جو کہ تشریحی شق ہے ۔ تھیوری کے اعتبار سے آرٹیکل 367 دیگر شقوں کے ساتھ ملایا جاتاہے ، تاہم ایسی ترامیم سے تشریحی شق تبدیل نہیں ہوگی اور نئی تشریحات متعارف کرانے سے آرٹیکل 370 کی پیچیدگی بھی تبدیل ہوجائے گی۔ آرٹیکل 367 میں صدارتی فرمان کے تحت کیے گئے اضافے کا مطلب آرٹیکل 370 کو تبدیل کرنا ہی تھا۔ ایسا دستور ساز اسمبلی کی ’’سفارش ‘‘ کے بغیر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ایسی قانون سازی کو اعلیٰ عدلیہ ’’اختیارات کا فراڈ‘‘ قرار دے چکی ہے۔ یہ قانون کا اصول ہے کہ جو کام براہ ِراست نہیں کیا جاسکتاوہ بلواسطہ طور پر بھی نہیں کیا جاسکتا۔

یہ بات اہم ہےکہ الحاق کے وقت فریقین ، انڈیا اور ریاست جموں اور کشمیر کی قانونی حیثیت کیا تھی ۔ انڈیا تاج ِبرطانیہ کے تحت ایک ریاست تھی جبکہ ریاست جموں اور کشمیر مکمل طور پر آزاد ۔ انڈیا کو برطانوی سرکار سے کوئی خصوصی حیثیت نہیں ملی تھی ۔ دونوں ریاستوں کے درمیان تعلقات باہمی رضامندی سے تھے ۔ الحاق کے معاہدے کے تحت یونین کو کچھ اختیارات ریاست دے رہی تھی اور اس کے برعکس یونین سے کچھ مانگ نہیں رہی تھی ۔ آرٹیکل 370 کی ساخت میں انڈیا کی ترمیم اور جموں اور کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ 2019 ء کو ملا کر پڑھیں تو ریاست جموں اور کشمیر کی بطور ریاست حیثیت ختم ہوجاتی ہے ۔ یونین کے تین علاقوں میں تقسیم ہوتے ہوئے جموں اور کشمیر کے ریاستی آئین کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ 

کشمیر کے آئین کے سیکشن 3کے مطابق ’’ریاست جموں کشمیر یونین کا اٹوٹ انگ ہے اور رہے گا۔ ‘‘ بھارتی آئین کا آرٹیکل 1،جو ریاستوںکے متعلق ہے ، کے مطابق ’’انڈیا ریاستوں کی یونین‘‘ ہے ۔ جموں اور کشمیر چونکہ ریاست نہیں رہے، اس لیے وہ انڈین یونین کا حصہ بھی نہیں رہے ۔ اس وقت آرٹیکل 1کی شق نمبر 3کے تحت یہ ’’علاقے‘‘ بھارت کا حصہ قرار دیے گئے ہیں۔ بھارت نے ریاست کے اُن بنیادی حقوق کو معطل کردیا ہے جن کی یقین دہانی پر اس نے 1947 ء میں الحاق کے وقت دستخط کیے تھے۔ جموں اور کشمیر کے عوام اب بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ جموں اور کشمیر اور یونین کے درمیان الحاق کا معاہدہ ختم ہوچکا ، چنانچہ اب جموں او ر کشمیر کے علاقے میں بھارت کی موجودگی آئینی حکومت کی نہیں بلکہ ایک قابض فورس کی ہے۔

کشمیر کا تنازع ایک بہت بڑا المیہ ہے ؛ صرف جموں اور کشمیر ہی نہیں بلکہ بھارت اور پاکستان کے عوام کے لیے بھی ۔ اس تنازع کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بے حد تلخی آچکی ہے ۔ اس مسلسل سانحے کے خاتمے کے لیے سیاسی سوجھ بوجھ کی ضرورت ہے ۔

……٭٭……٭٭……

نوٹ : مضمون نگار،آئین، کارپوریٹ اور کمرشل قوانین کے وکیل ہیں ۔وہ ان شعبوں میں 40 سال سے زائد عرصے سے کام کررہے ہیں ۔لاء اسکول آف فیکلٹی آف لمز کے ممبر بھی ہیں۔

تازہ ترین