• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

بعض اوقات معمولی واقعات بھی دل و دماغ میں اس طرح نقش ہوجاتے ہیں کہ بُھلائے نہیں بُھولتے۔ اپنے ساتھ پیش آنے والے معمولی نوعیت کے یہ دو واقعات آپ کے نذر کررہی ہوں، جو کم از کم میرے لیے بے حد اہمیت کا حامل ہیں۔

1986ء کی بات ہے، والد صاحب سیمنٹ فیکٹری دائود خیل میں سپروائزر ہوگئے، تو فیکٹری کی طرف سے ہائوسنگ کالونی میں انہیں مکان الاٹ ہوا، تو ہم ماڑی انڈس سے اس مکان میں شفٹ ہوگئے۔ جاڑے کا موسم تھا اور اُن دنوں سخت سردی پڑ رہی تھی۔ والدہ صحن میں کپڑے دھو رہی تھیں کہ اتنے میں پڑوس سے ایک لڑکی ہمارے گھر آگئی۔ والدہ کو ٹھنڈے پانی سے کپڑے دھوتے دیکھ کر کہنے لگی۔ ’’خالہ جی! آپ کے گھر میں گیزر نہیں ہے؟‘‘ امّی نے مُسکرا کر اُس کی طرف دیکھ کر نفی میں سر ہلادیا، تو وہ بنا کچھ کہے واپس چلی گئی۔ اگلے روز صبح صبح ہمارے گھر کی مشترکہ دیوارسے ’’ٹھک ٹھک‘‘ کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ 

ہم حیران تھے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ معلوم کیا تو پتا چلا کہ پڑوس کے انکل علم دین اپنے دیسی ٹائپ گیزر سے ہمیں گرم پانی کا کنیکشن دینے کے لیے دیوار میں سوراخ کررہے ہیں۔ ایک روز قبل ہمارے گھرآنے والی لڑکی نے شاید اپنے والد صاحب سے اس بات کا ذکر کیا ہوگا کہ پڑوس میں نئے آنے والوں کے گھر میں گیزر نہیں ہے، تو انہوں نے ہمارے لیے ازراہِ ہم دردی گرم پانی مہیّا کرنے کا انتظام کردیا اور گرم پانی کا پائپ اپنے صحن سے نکال کر ہمارے صحن تک پہنچاکر اس سخت ترین سردی میں ہمارے لیے راحت کا سامان کردیا۔ اُن کے اس حُسن سلوک پر ہم سب خصوصاً میری والدہ بہت خوش ہوئیں اور انہیں دُعائوں میں ہمیشہ یاد رکھتیں۔

80ء کی دہائی سے لے کر آج 2020ء تک بحیثیت پڑوسی انہوں نے ہمیں بہت متاثر کیا، اُن کے خلوص، محبت، ایثار اور جذبہ ہم دردی کو ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ اگرچہ انکل علم دین، اُن کی اہلیہ اور میری والدہ یکے بعد دیگرے راہئ ملک عدم ہوچکے، مگر آج بھی ہم اُن کی نیکیوں کو یاد کرتے ہیں۔ والدہ بھی جب تک حیات رہیں، ملنے جلنے والوں کو پڑوسیوں کے صلہ رحمی کے مختلف قصّے سناتی رہیں۔ ان شاء اللہ میں بھی جب تک زندہ ہوں، اُن کی نیکیوں کی داستانیں سناتی رہوں گی۔

دوسرا واقعہ بھی اُن ہی دنوں کا ہے، جب ہم نئے نئے اس مکان میں شفٹ ہوئے تھے۔ مجھے بہت کم عمری سے رسائل و جرائد کے مطالعے کی عادت پڑگئی تھی۔ والدہ اس شوق کو ایک حد تک رکھنے کا کہتی تھیں، لیکن میں اُن سے چُھپ کر الگ کمرے میں بیٹھ کر رسالے پڑھا کرتی تھی۔ ایک روز حسبِ معمول چھوٹے کمرے میں چُھپ کر رسالہ پڑھنے میں منہمک تھی۔ امّی اور بہن بھائی دوسرے کمرے میں تھے۔ مَیں جس کمرے میں بیٹھی رسالہ پڑھ رہی تھی، اُس کی کھڑکی باغیچے کی طرف کُھلتی تھی اور کمرے کا ایک دروازہ باہر گلی میں۔ دروازے کے فرش سے قدرے اونچا ہونے کی وجہ سے اس میں تھوڑا سا خلا تھا۔ 

اس وقت میں دنیا و مافہیا سے بے خبر مطالعے میں منہمک تھی کہ اچانک ایک پُھنکار کی آواز سنائی دی۔ پہلے تو میں نے توجّہ نہ دی، لیکن چند ہی لمحے بعد دوبارہ آواز آئی، اور غیر اختیاری طور پر نظر دروازے کی طرف گئی، تو دہشت کے مارے بُرا حال ہوگیا۔ دروازے کے ساتھ ہی ایک سانپ کنڈلی مارے، پھن اٹھائے پھنکار رہا تھا۔ اُف خدایا! اس خوف ناک منظر کو دیکھتے ہی خوف و دہشت کے مارے پھنسی پھنسی آواز میں بُری طرح چیختے چلّاتے دوسرے کمرے کی طرف بھاگی اور گھر والوں کو ہانپتے کانپتے بتایا کہ دوسرے کمرے میں سانپ ہے۔ 

سب دوڑتے ہوئے میری بتائی ہوئی جگہ پر پہنچے، تو اس وقت تک سانپ فرار ہوچکا تھا۔ شاید میرے چیخنے چلّانے سے خوف زدہ ہوگیا تھا اور بھاگ کر اینٹوں کی جالی میں گھس گیا تھا۔ شُکر ہے کہ کچھ دیر کی تگ و دو کے بعد اُس کا ٹھکانہ نظر آگیا، تو پڑوسیوں کی مدد سے اُس کا کام تمام کردیا گیا۔ گھر والے آج بھی میری وہ حالت یاد کرکے خوب ہنستے ہیں اور سچّی بات تو یہ ہے کہ آج بھی مجھے جب وہ واقعہ یاد آتا ہے، تو خوف سے جھرجھری سی آجاتی ہے۔ (مصباح طیّب، سرگودھا)

سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے،جو کسی کردار کی انفرادیت،پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اُٹھایئے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں،صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔

ایڈیٹر،’’سنڈے میگزین‘‘ صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔

تازہ ترین