• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج جو آپ چھوٹی موٹی باتیں سنیں گے، وہ باتیں تشویش کی باتیں نہیں ہیں، وہ سوچنے کی باتیں ہیں۔ آپ خواہ مخواہ حیران نہ ہوں، ہم فقیر بھی فارغ اوقات میں سوچنے کے شغل سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ نہ جانے کس کا قول ہے کہ سوچنا دانشوروں اور حاکموں کے مشیروں کی میراث نہیں ہے، بونگے اور فقیر بھی کبھی کبھار سوچ سکتے ہیں۔ آپ لکھنے اور بولنے پر پہرا لگا سکتے ہیں مگر سوچنے پر آپ پہرا نہیں لگا سکتے۔ باغ میں ایک بنچ پر تنہا، چپ چاپ بیٹھے ہوئے شخص پر آپ سوچنے کی تہمت لگا سکتے ہیں۔ سوچنے کے الزام میں آپ اسے گرفتار بھی کرسکتے ہیں، سوچنے کے جرم میں اسے کیفرکردار تک پہنچا سکتے ہیں مگر آپ ہم بونگوں کا کیا کریں گے؟ ہم بونگے زیادہ تر باتھ روم میں سوچتے ہیں۔ سوچنے کیلئے باتھ روم جیسی پرسکون جگہ آپ کو کہیں نہیں مل سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ انگریز نے باتھ روم یا ٹائلٹ کو ریسٹ روم Rest Roomکا نام دیا ہے اور پھر انگریز تو انگریز ہوتا ہے۔

تو پھر آپ تیار ہو جائیں ایسی باتیں سننے کیلئے جو بظاہر آپ کو تشویش میں ڈالنے جیسی باتیں محسوس ہوں گی مگر اصل میں وہ باتیں سوچنے کیلئے ہیں۔ سوچ بچار کے بعد ہم بونگوں نے فیصلہ کیا ہے کہ سب سے پہلے اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بارے میں سوچیں گے۔ سنا تھا کہ روزمرہ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ کورونا کے ڈر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے گھر سے باہر نکل کر ہم نے آسمان کی طرف دیکھا، آسمان ہمیں اتنا ہی دور دکھائی دیا جتنا دورہمارے آبائواجداد کو اور ہمیں دکھائی دیتا ہے بلکہ مجھے تو آسمان کچھ زیادہ ہی دور دکھائی دیا۔ پندرہ مرتبہ فیل ہونے کے بعد سولہویں مرتبہ امتحان میں دبا کر کاپی کرنے کے نتیجے میں مجھے اقتصادیات میں ایم اے کی ڈگری نصیب ہوئی تھی، یہ پچھلی صدی کی بات ہے۔ گو کہ میں نے کھلم کھلا کاپی کی تھی پھر بھی مجھے اقتصادیات کے کچھ بنیادی اصول یاد ہیں۔ پروفیسر صاحبان ہمیں بتاتے تھے کہ اشیاء کی قیمتیں بڑھ جانے کے سبب خریدار کی قوت خرید کم ہوجاتی ہے اور نتیجتاً مہنگی اشیاء کی کھپت Consumptionکم ہوجاتی ہے مثلاً قیمتیں بڑھتے بڑھتے جب نہ جانے کس آسمان کو چھونے لگتی ہیں، تب لوگ چینی ملا کر چائے میٹھی نہیں کرتے، وہ گڑ سے چائے میٹھی کرتے ہیں۔ اسی طرح مانگ Demandبڑھ جانے کی وجہ سے گڑ کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔

ہم نے بازار کا رخ کیا، اعدادوشمار جمع کئے۔ پتا چلا کہ پچھلے تین چار برسوں میں جون، جولائی کے مہینوں میں لوگوں نے اتنی مقدار میں چینی استعمال نہیں کی تھی جتنی چینی پبلک نے اس سال مہنگی قیمت کے باوجود استعمال کی ہے۔ مہنگی قیمتوں کے باوجود پبلک نے اس سال جون، جولائی کے مہینوں تک پچھلے برسوں کے مقابلے میں زیادہ آٹا کھایا ہے یعنی آٹے کے نان، پراٹھے، پوریاں اور روٹیاں کھائی ہیں۔ یہ سچ مچ سوچنے کی بات ہے۔ علم اقتصادیات کا لوگوں نے برا حال کردیا ہے۔ ہمارے یہاں اقتصادیات کے اصولوں کی دال نہیں گلتی۔ ہمارے یہاں ٹماٹر کی قیمت جب بیس روپے کلو ہوتی ہے، تب ٹماٹر اتنا نہیں بکتا جتنا ایک سو بیس روپے کلو قیمت ہوجانے کے بعد بکتا ہے۔ یہ بات مرحوم و مغفور مارشل میک لوہان کیلئے تشویش کا باعث ہوسکتی ہے مگر ہمارے لئے نہیں۔ اقتصادیات کے بارے میں کتابیں مارشل میک لوہان نے لکھی ہیں، ہم نے نہیں۔ مارشل میک لوہان اگر آج زندہ ہوتے تو پاکستان میں اقتصادی مارشل لا لگا چکے ہوتے۔ جیسے جیسے ڈالر مہنگا ہوتا جارہا ہے، ویسے ویسے لوگوں میں بیرون ملک سیر و تفریح کا شوق بڑھتا جارہا ہے۔ جب سونا سستا ہوتا تھا تب جہیز میں دلہن کو تولوں کی مد میں زیورات دیئے جاتے تھے۔ اب جبکہ سونے کی قیمتوں نے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں، تب جہیز میں دلہن کو کلو کی مد میں زیورات دیئے جاتے ہیں۔ یہ صورتحال تشویش کی بات نہیں ہے، یہ سوچنے کی بات ہے۔ ہمارے یہاں گنگا الٹی کیوں بہتی ہے؟ لولی لنگڑی جمہوریت میں ہم خرمستیاں کرتے ہیں اور مارشل لا میں سیدھے ہوجاتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے تشویش کی بات نہیں ہے۔

لاکھ چھپانے کے باوجود ہماری کئی ایک مخفی منصوبہ بندیاں ایک دوسرے پر عیاں ہوجاتی ہیں۔ حاکم وقت نے کپڑا بنانے، سرجیکل اور کٹلری بنانے، کھیلوں کا سامان بنانے والی صنعتوں کو پس پشت ڈال دیا ہے حاکم وقت کی تمام تر توجہ تعمیراتی صنعت پر مرکوز ہے۔ کراچی اور حیدرآباد کے درمیان ہائی وے کے دونوں اطراف چھوٹے بڑے مکانات کے شہر کے شہر تیار ہورہے ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں ہزاروں لاکھوں مکانوں میں کون آکر بسنے والا ہے؟ کہاں سے آئیں گے اتنے لوگ؟ یہ تشویش کی بات نہیں ہے، سوچنے کی بات ہے۔ سنا ہے کہ تعمیراتی صنعت کے منصوبوں سے حکومت کا خالی خزانہ زرمبادلہ (Foreign Exchange)سے بھر جائے گا۔ تعمیراتی صنعت میں سرمایہ کاری بیرون ملک آباد پاکستانی کررہے ہیں۔ فلیٹ اور کوٹھیاں ترجیحاً ڈالر اور پائونڈ کے عوض بیچی جائیں گی۔ کسی سے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ یہ تشویش کی بات نہیں ہے، سوچنے کی بات ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین