• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیال تازہ … شہزاد علی


برطانیہ میں آئے روز کنزرویٹیو پارٹی کی حکومت کے امید افزا، جانفزا اور خوشنما اعلانات سنتے ہیں جن سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ کووڈ 19 سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ٹھوس اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ یہ اقدامات کتنے ٹھوس اور موثر ہیں وہ الگ بحث ہے لیکن یہ تسلیم کیا جانا چاہئے کہ اس سے حکومت کی موجودگی کا احساس ضرور ہوتا ہے جو تاریخ کے اس مشکل ترین دور میں بذات خود اہم بات ہے جبکہ حکومت کی مدد اور اعلانات اپنی جگہ بجا ان کی اہمیت سے انکار بھی ممکن نہیں لیکن ملک اس وبا کے باعث مختلف شعبوں میں کئی طرح کے ایسے چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے جن کی بعض صورتوں میں ماضی میں نظیر تلاش کرنا مشکل امر ہے۔ یہاں آگے چل کر حکومت کی ری کووری سٹریٹجی پر بھی روشنی ڈالی جائے گی اور حالیہ اہم اقدامات پر بھی طاہرانہ نظر، لیکن پہلے فناشل ٹائمز کا ایک آرٹیکل، جو ایک مختلف تصویر پیش کرتا ہے۔ اقتصادیات، مالیاتی اور معاشی حوالے سے یہ معتبر اخبار لکھتا ہے کہ برطانیہ کے چھوٹے کاروبار اپنے مستقبل سے خوفزدہ ہیں، لاک ڈاؤن شروع ہوئے چار ماہ سے زیادہ عرصے کے بعد بہت سی کمپنیاں نقد رقم سے محروم ہیں۔ ساؤتھ ایسٹ میں پھول فروخت کرنے کے ہول سیل کاروبار سے منسلک ایک خاتون کے خیالات شامل کیے گئے ہیں جن کا کہنا ہے کہ انہیں یہ یقین نہیں ہے کہ یہ سب کہاں جارہا ہے اور کیا ہم کاروبار بچانے میں کامیاب رہیں گے انہوں نے مختصر نوٹس پر منسوخ ہونے والی سیکڑوں شادیوں اور ایکواڈور سے لانے ک باعث راستے میں مرجھا جانے والے پھولوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ سال انہیں ایک مختلف طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا اس وقت پھول طلب کے مطابق تلاش کرنا مشکل امر تھا اور صرف ایک سال بعد پینڈیمک کے باعث موجود پھولوں کے لیے خریدار نہیں مل رہے ہیں۔ اس سال، یہ بھی مسئلہ ہے کہ آیا حکومت کے تعاون سے ہنگامی قرض لیا جائے یا کہ نہیں؟ کہ جو ان کی کمپنی کو چلتا رہنے میں تو مددگار ثابت ہو سکتا ہے لیکن اس قرض کی ادائیگی کرنا مشکل ہوگا جبکہ انہوں نے اس خدشہ کا اظہار بھی کیا ہے کہ وہ تو مشکل میں ہیں ہی لیکن بعض دیگر کمپنیوں کی صورت حال شاید ان سے بھی بدتر ہے۔ واضح کیا گیا ہے کہ بعض کمپنیاں اس بحران کا مرکز ہیں جس کا سامنا برطانوی معیشت کو کرنا پڑ رہا ہے _ اور اس وائرس کی دوسری لہر پر لاک ڈاؤن سے آہستہ آہستہ ابھرنے والے نئے خدشات کا احاطہ کیا گیا ہے _ ۔معاشی ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ برطانیہ 3 لاکھ سے زیادہ افراد کو بے روزگار دیکھ سکتا ہے۔ یہ سطح 1980 کی دہائی کی گہری کساد بازاری کے بعد سے نہیں دیکھی گئی ہے۔ ان میں سے کچھ ملازمتوں کو بڑی کمپنیوں کے ذریعہ ختم کر دیا جائے گا خاص طور پر جب حکومت نے وبائی امراض کے آغاز کے بعد رکھی ہوئی کچھ فرلو اسکیموں کا خاتمہ کرنا شروع کردیا ہے لیکن لاک ڈاؤن کے آغاز کے چار ماہ سے زیادہ کے بعد یہ چھوٹا کاروباری شعبہ ہے جو انتہائی سخت دباؤ میں ہے اور جہاں بہت سی کمپنیاں اپنے مستقبل پر غور کرنے پر مجبور ہو رہی ہیں۔ چھوٹے کاروباری افرادکا ملک کی معیشت میں کردار ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، 6 لاکھ کے قریب چھوٹے کاروبار برطانیہ میں 16 ملین سے زائد افراد کو ملازمت دیتے ہیں ان کی سروسز اکثر لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں اور اب ان میں بہت سارے لوگوں میں تیزی سے مایوسی پھیل رہی ہے کیونکہ وبائی بیماری کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک بھر میں اشیاء کی فروخت پر زبردست اثر رہا ہے اور لاک ڈاؤن میں بتدریج نرمی کے باوجود ان کے محدود نقد ذخائر خشک ہورہے ہیں ۔ یوکے فنانس جو برطانیہ کے بینکاری شعبے کی نمائندگی کرتی ہے کا تجزیہ ہے کہ چھوٹی کمپنیوں کے پانچواں حصہ کے پاس مئی میں ایک ماہ سے کم نقد رقم باقی بچی تھی اور ایک واضح تعداد کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ تجارت ختم کرنے کا امکانات رکھتے ہیں یا شاید ان کے کاروبار نہ چل سکیں۔ لندن کی ایک فرم کی مالک کہتی ہیں کہ اگر آپ کسی کیفے جیسے چھوٹے کاروبار کے مالک ہیں اور آپ کو چار مہینوں کے لئے بند کر دیا گیا ہے تو یہ آپ کی موت ہے۔ ہنگامی منصوبوں کے لئے بجٹ نہیں ہے۔ تاہم یہ درست ہے کہ چھوٹی کمپنیوں کو پیش کی جانے والی ایک گارنٹی لون ، گرانٹ اور بزنس ریٹ ریلیف کے ساتھ حکومت نے اس شعبے کو ترقی دینے کے لئے فیصلہ کن اقدام کیے اور فرلو اسکیم جیسے اقدامات نے ناکام کمپنیوں کی تعداد کو کم رکھا ہے لیکن بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ یہ سکیم قائم نہیں رہے گی، چھوٹی کمپنیوں میں برطانیہ کے سب سے بڑے سرمایہ کاروں میں سے ایک بزنس گروتھ فنڈ کے چیف ایگزیکٹو اسٹیفن ویلٹن کا کہنا ہے کہ 3 لاکھ بے روزگاروں کے تخمینے غیر حقیقی نہیں تھے چھوٹی کمپنیاں یہ ہمارے شہروں اور شہریوں کے لئے معیشت کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں جو انہیں معاشرتی اور معاشی طور پر اہم بنا دیتا ہے۔برطانیہ کے عوام کے لئے روزمرہ کے معمولات زندگی چلانے کے لیے اس امر کو سمجھنا ازحد ضروری ہے کہ مرکزی حکومت کی کووڈ 19 کے اس عرصے میں حکمت عملی کن خطوط پر استوار ہے۔حکومت کے ارباب اختیار ایک تسلسل کے ساتھ بریفنگ دیتے چلے آرہے ہیں مئی میں برطانوی حکومت کی کووڈ 19 ری کووری سٹریٹجی، ایک دستاویز سامن آئی تھی جو یہ واضح کرتی ہے کہ اس منصوبے کے مرکز میں حکومت کا مقصد یہ تھا کہ جہاں تک ممکن ہوسکے زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لئے زندگی معمول کے قریب کی طرف لوٹ آئے۔ اس طرح سے جو ایک نئی وبا سے بچتا ہے، صحت، معاشی اور معاشرتی نتائج کو زیادہ سے زیادہ کرتا ہے۔ حکومت: ہم نے اپنے منصوبے پر عمل کیا ہے اور وائرس پسپائی میں ہے۔ ہم نے معیشت اور معاشرے کو محتاط طریقے سے کھول دیا ہے، لوگوں اور کاروبار کو محفوظ رکھنے کے لئے کووڈ 19 محفوظ ہدایات متعارف کروائیں تاکہ وہ اپنے صارفین اور عملے کا خیرمقدم کریں۔ ہم نے قومی محکمہ صحت ٹیسٹ اور ٹریس کا آغاز کیا ہے جس میں مشترکہ بایوسکیور ٹی سنٹر بھی شامل ہےجو وائرس کی نگرانی اور ان کو دبانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور ہم نے قومی اہداف کو احتیاط سے مقامی اہداف کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ بہت سارے لوگوں کے لئے زندگی ابھی معمول پر نہیں آتی لیکن ہم نے اپنے آپ کو اور اپنی کمیونٹیز کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنے طرز زندگی کو ڈھال لیا ہے۔ حکومت شہریوں کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ ہمیں محتاط طریقے سے کام جاری رکھنے کی ضرورت ہوگی۔ ہم برطانوی عوام کی قربانیوں کی بدولت اس مقام پرپہنچ چکے ہیں اور ہمیں اس انداز میں دوبارہ کام جاری رکھنا چاہئے جو اس کوشش کو ناکام نہ بنائے۔ ہم احتیاط سے وائرس پر نظر رکھنا جاری رکھیں گے ہم اسکاٹ لینڈ ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ میں ڈیولوڈ انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کریں گے تاکہ وہ جہاں بھی برطانیہ میں رہیں خطرے میں پڑنے والوں کی مدد اور دیکھ بھال کرسکیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین