• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گریجویشن کا ایسا اختتام میں نے سوچا نہیں تھا، ملالہ یوسف زئی

نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کا عالمی وبا کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے دوران اپنی گریجویشن کے اختتام سے متعلق کہنا ہے کہ انہوں نے ایسا سوچا بھی نہیں تھا کہ اُن کی گریجویشن کا اختتام ایسا ہوگا۔

ملالہ سوسفزئی نے اپنے ایک انٹرویو کے دوران بتایا ہے کہ انہوں نے گزشتہ سال 2019ء کی آخری مہینے میں ایسٹر کی چھٹیوں کے لیے اپنی آکسفورڈ یونیورسٹی ہاسٹل کے کمرے میں سے ضروری سامان چند ہفتوں کے لیے پیک کیا تھا مگر وہ اُس وقت سے لے کر ابھی تک اپنے گھر میں ہیں۔

ملالہ یوسفزئی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنے فائنل سمسٹر کی کلاسز بھی زوم ایپلیکیشن کے ذریعے گھر بیٹھے ہی لیں اور اپنے کمرے میں بیٹھ کر فائنل امتحان دیا، انہوں نےرواں سال جون کے مہینے میں اپنا گریجویشن مکمل کیا، وہ اپنے فائنل سمسٹر کے دوران اپنی یونیورسٹی صرف دو گھنٹے کے لیے گئیں وہ بھی اپنے ہاسٹل کے کمرے سے اپنی بقیہ سامان وغیرہ لینے ۔

ملالہ کا کہنا تھا کہ  انہوں نے دیکھا کہ یونیورسٹی کے باغیچوں میں گھاس بہت بڑا ہو چکا تھا اور بینچز خالی تھے، اُنہیں کہیں بھی کوئی نظر نہیں آیا ۔

انہوں نے مزید کہا کہ’ 2020 میں گریجویٹ کرنے والے دوسرے طالبوں علموں کی طرح انہوں نے نی بھی اپنے گریجویشن کا اختتام ایسا نہیں سوچا تھا ۔

ملالہ کا کہنا تھا کہ تعلیمی سال کے آغاز میں انہوں نے سوچا تھا کہ وہ اپنی یونیورسٹی کی ایک ایک گلی سے گزریں گی، ہر گارڈن میں تصویریں بنائیں گ گی اور ہر کیفے کی چائے پئیں گی اور ہر ڈائننگ حال میں بیٹھ کر کھانا کھائیں گی، خصوصاً کرسٹ چرچ کے ہیری پوٹر حال کا دورہ کریں گی، وہ ان سب کو بہت یاد کر رہی ہیں ۔

ملالہ نے آن لائن ورچوئیل کلاسز سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ مضمون کو پڑھنا اور سمجھنے میں فرق ہوتا ہے، پڑھنا اور اس ہی مضمون کا تجربہ کرنے میں بہت فرق ہے، آن لائن کلاسز کے دوران انہیں یونیورسٹی میں گزارے گئے قیمتی وقت اور قیمتی سرگرمیوں کی بہت یاد آتی ہے، وہ بہت متحرک طالب علم تھیں اور ایک وقت میں کئی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں ۔

اُن کا دنیا کو درپیش صحت اور ماحولیات سے متعلق مسائل پر بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ نئی نسل ان سب مسائل سے لڑنے کے لیے تیار ہے ۔

ملالہ کا کہنا تھا کہ ہم سمجھ چکے ہیں کہ دنیا اس وقت مسائل سے گزر رہی ہے اور سارا بوجھ ہمارے کندھوں پر آنے والا ہے، ہم نے تارکین وطن ، ریفیوجیز پر کام کرنا ہے، تعصبانہ رویئے کے خلاف لڑنا ہے اور اقلیتوں کے حقوق پر بات کرنی ہے، جنسی مساوات پر کام کرنے کی بھی ضرورت ہے وغیر وغیرہ ۔

اُن کا کہنا تھا کہ وہ ان سب کرائسز سے لڑنے کے لیے تیار ہیں کیوں کہ وہ ایک لمبے عرصے سے تبدیلی کے لیے لڑتی آ رہی ہیں، جب وہ گیارہ سال کی تھیں پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کی بات کی اور اُن کے حقوق کے لیے آواز بلند کی اور جب وہ 15 سال کی تھیں تو طالبان نے انہیں تعلیم سے متعلق آواز بلند کرنے پر مارنے کی کوشش کی تھی۔

تازہ ترین