• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی، پاکستان اور دنیا بھر کے خوش عقیدہ مسلمان ’’ارطغرل غازی‘‘ کے سحر میں سرتا پا جکڑے جا چکے ہیں اصل میں یہ ڈرامہ ہے ہی روح کو گرمانے اور جذبات کو تڑپانے والا ۔

کوئی کچھ بھی کہے، تاریخی حقیقتیں خواہ کیسی ہی سینہ کوبی کریں لیکن ہیرو متھ کی نہ تو کوئی حدود وقیود ہوتی ہے اور نہ ہی جانچ پڑتال کرنے والی کسی کسوٹی کو درخوراعتنا سمجھا جاتا ہے، چنانچہ ناقدین کیوں اس سیریل کو ایک تفریح یا ڈرامہ کے طور پر نہیں دیکھتے۔

کیوں اسے ’’اسلام کیخلاف ایک سازش‘‘ قرار دے کر ارطغرل غازی کیخلاف فتاویٰ دئیے جارہے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اسلامی تاریخ نہیں ہے، لیکن کچھ بھی ہو کیا ہمیں اس ترکی سیریل کو ڈرامے کی طرح دیکھ کر خوش ہونے کا بھی حق نہیں ہے ؟

ڈرامے کے آغاز پر ہر قسط میں ترکی زبان میں یہ بات واضح کر دی جاتی ہے کہ ’’اس ڈرامے میں بیان کردہ تمام واقعات تاریخ سے متاثر ہو کر ’’تخلیق‘‘ کئے گئے ہیں چنانچہ دراصل یہ ڈرامہ اپنی تفصیل میں ایک فکشن ہے‘‘ظاہر ہے اس قدر معلومات کے ساتھ جو ڈرامہ بنایا گیا ہے اس کا واقعاتی تفصیل کے لحاظ سے بیشتر حصہ فکشن پر مشتمل ہونا ایک قدرتی امر اور ناگزیر بھی تھا۔

ترکی کی تاریخ پر ایک بڑا عملی کام چار ضخیم جلدوں پر مشتمل CAMBRIDGE HISTORY OF TURKEYہے جس کی تدوین میں ترکوں اور عثمانی تاریخ پر اتھارٹی سمجھی جانے والی پروفیسر ثریا فاروقی مدیر معاون کے طور پر اور ان کے علاوہ بھی کئی دیگر ترک مورخین بھی شامل ہیں۔

اس کتاب کی پہلی جلد میں ارطغرل کا نام صرف ایک جگہ، صفحہ 118پر لکھا گیا ہے مصنّفین کے نزدیک ’’ارطغرل‘‘ کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے اور نہ ہی تاریخ میں اس کی کوئی تفصیل ملتی ہے،سلطنت عثمانیہ کی تاریخ پر سب سے معروف کتاب ڈاکٹر محمد عزیز کی ہے جسے دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی نے شائع کیا ہے اور اس کا دیباچہ سید سلیمان ندوی نے لکھا اس میں مصنف لکھتے ہیں کہ ارطغرل قبیلے کا پہلا شخص جس نے اسلام قبول کیا وہ ارطغرل کا بیٹا عثمان تھا ۔

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ سے وابستہ پروفیسر فراز انجم نے توجہ دلائی ہے جسے نیا دور ویب سائٹ نے بھی رقم کیا ہے ۔ڈاکٹر عزیز ایک مغربی مورخ ہربرٹ ایڈمز گبنز کی شہادت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس نے اپنی مستند ’’اساس سلطنت عثمانیہ ‘‘میں لکھا ہے کہ سغوت کے علاقہ میں بودوباش اختیار کرنے کے وقت ارطغرل اور اس کے قبیلہ کے لوگ بت پرست تھے لیکن عثمان اور اس کے قبیلے کے دیگر افراد کے اسلام قبول کرنے کے بعد عثمانی قوم پیدا ہوئی اور پھر 1290ء کے بعد عثمان کی فاتحانہ سرگرمیاں شروع ہوئیں۔

دوسری طرف ارطغرل کے حقیقی کردار ہونے سے متعلق بھی کوئی مستند حوالہ میسر نہیں ہے کیونکہ اس کے حقیقی کردار ہونے کی واحد شہادت عثمان کے نام کا ایک سکہ ہے جس میں اس کا نام ’’عثمان بن ارطغرل بن قندوز الپ‘‘ لکھا گیا ہے ۔تاہم پھر بھی یہ ڈرامہ تفریحی طور پر تو سراہے جانے کے قابل ہے۔

سلطنت عثمانیہ سے متعلق کسی تاریخ مغالطے یا حقائق کی بحث میں جائے بغیر اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ عثمانی سلطنت مسلمانوں کا ایک عظیم الشان دور حکومت تھا جس کی بنیاد 14ویں صدی کے اوائل میں رکھی گئی اور یہ 20ویں صدی میں ختم ہوئی اور یہ بھی ایک ریکارڈ ہے کہ اس دوران ایک ہی خاندان کے 37سلطان مسند اقتدار پر بیٹھے۔

جو یقیناً ایک کارنامے سے کم نہیں لیکن اس ضمن میں تاریخ کے طالب علموں کیلئے یہ سوال پھر بھی اہمیت کا حامل ہے بلکہ ’’مڈل اسٹرن رویو‘‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں امریکن یونیورسٹی آف بیروت کے ماہر بشریات جوش کارنی نے سوال اٹھایا ہے کہ ترک حکومت نے کئی مشہور کرداروں کو چھوڑ کر آخر ارطغرل کا انتخاب ہی کیوں کیا حالانکہ سلطان محمد فاتح اور 1520-1566میں سلطان سلیمان اور 1876-1907میں عبدالحمید دوم کی شہرت ارطغرل سے بہت زیادہ ہے ؟

کارنی کہتے ہیں کہ اس سیریز کے کئی پہلو ترکی میں ہونے والے آئینی ریفرنڈم کے اشتہارات میں واضح تھے جس سے کوئی شک نہیں رہتا کہ تاریخ اور پاپولر کلچر کو سیاسی فائدے کیلئے اکٹھا کر دیا گیا ہے کارنی کے خیال میں ایسے کردار کے بارے میں ٹی وی سیریز بنانے میں جسے لوگ نہیں جانتے آسانی یہ ہوتی ہے کہ اس کو کسی بھی رنگ میں پیش کیا جا سکتا ہے جبکہ مقبول شخصیات کی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں لوگوں کو آگاہی ہوتی ہے لہٰذا ارطغرل پر سیریز بنانا ایسا ہی ہے جیسے خالی سلیٹ پر مرضی کے رنگ بھرنا۔

پاکستان میں گزشتہ کئی سال سے ترکی کے ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں مگر جو مقبولیت ’’ارطغرل غازی ‘‘ کو ملی ہے اس کی مثال نہیں ملتی دنیا کے متعدد ممالک میں نشر ہونے کے بعد اب وزیراعظم پاکستان کی خواہش پر یہ ڈرامہ اردو زبان میں ڈبنگ کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے بلاشبہ یہ کہانی، تیاری اور اداکاری کے لحاظ سے ایک شاہکار ڈرامہ ہے ، اچھی کہانی اور اس کا اچھا ہیرو اس کے جنگی مناظر تینوں پہلو دیکھنے والے کو سحر میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

لیکن تاریخ کے طالب علموں کیلئے یہ جاننا ازحد ضروری ہے کہ اس ڈرامے کے منتظمین خودیہ بتاتے ہیں کہ یہ فقط ایک ڈرامہ ہے انہوں نے یہ فتویٰ بھی نہیں دیا کہ یہ مکمل طور پر اسلامی تاریخ ہے میرے خیال میں تو جس طرح ہالی ووڈ والے ہسٹری پر فلمیں بناتے وقت دلچسپی کے لئے بسااوقات کئی تاریخی حقیقتوں کو نظرانداز بھی کر دیتے ہیں اگر ارطغرل میں ایسا کیا گیا ہے تو کوئی مضائقہ نہیں ہونا چا ہئےمیں تو قارئین سے یہی التماس کر سکتا ہوں کہ بزبانِ اقبال

چمن میں تلخ نوائی میری گوارا کر

کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی

تازہ ترین