• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دس بارہ روز کراچی میں گزرے، کراچی جوکبھی عروس البلاد (شہروں کی دلہن) کہلاتا تھا، اب یہ دلہن یرغمال ہے، کبھی یہاں راتیں جاگتی تھیں، اب لوگ خوف کے مارے سوتے نہیں! مختلف گروپوں نے کراچی کو اپنے اپنے مفتوحہ علاقوں میں بانٹ دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے دباؤ پر اب قانون نافذ کرنے والے ادارے کچھ کچھ حرکت میں آئے ہیں، مگر کراچی والے کہتے ہیں، جب یہ دباؤ ہٹے گا تو سب کچھ پھر سے ویسے کا ویسا ہو جائے گا!!
ویسے صرف کراچی کا ہی ذکر کیوں… باقی ملک میں بھی صورتحال کچھ ”ایسی ویسی“ ہی ہے، کس کس کا رونا رویا جائے۔ چھوڑیں رونے کو، کچھ اور بات کرتے ہیں!
پاکستان کی ریاست، سیاست، حکومت اور جمہوریت میں ”ہم عوام“ کا کردار ایک لدّو جانور سے زیادہ کا نہیں، غصہ آ گیا تو ”جاوے ای جاوے“ خوش ہو گئے تو ”آوے ہی آوے“ ریاست کے وسائل پر اشرافیہ قابض ہے۔ سیاست بھی وہی کرتے ہیں، حکومتیں بھی وہی بناتے ہیں۔ ”عوام کے بہتر مستقبل“ کے تمام تر فیصلے بند کمروں میں ہوتے ہیں، عوام کو اس وقت پتہ چلتا ہے جب دیہاڑی لگ چکی ہوتی ہے اور مستقبل بک چکا ہوتا ہے۔ عوام زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ الیکشن کے روز، ڈاکو اور لٹیرے میں سے ”کم تر برائی“ کے اصول پر ایک کا انتخاب کرکے اس کے نام پر مہر لگا دیں۔
عوام کی زندگی خود قائم کردہ تصورات اور خوش فہمیوں کے تحت گزرتی ہے۔ موجودہ الیکشن کا اعلان ہونے سے قبل حکومتوں کی پانچ سالہ کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے تصورات بہت واضح اور کچھ یوں تھے!!
(i) جس نے بنکوں سے قرضے لے کر معاف کرائے، وہ قومی مجرم ہیں!
(ii) جس نے رشوت کھائی اور قومی خزانے کو لوٹا، وہ بھی قومی مجرم ہے!
(iii) جو ٹیکس چراتا ہے، وہ بھی مجرم ہے!
(iv) جنہوں نے سرکاری اداروں اور کارپوریشنوں کو برباد کیا، ان کا ٹھکانہ جیل ہے۔
وغیرہ وغیرہ، غرضیکہ ملزموں کی شناخت بہت واضح تھی، اور عوام اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ آئندہ انتخابات میں ”تخت گرائے جائیں گے، تاج اچھالے جائیں گے“ ملزم لوگ سزا پائیں گے اور اچھے لوگ اسمبلیوں میں جائیں گے۔ مگر ”سال خوردہ“ الیکشن کمیشن اور نگران حکومت نے عوام کو اسی صورتحال سے دو چار کر دیا ہے۔ جس سے ایک بس ڈرائیور نے اپنے ہرنام سنگھ کو کیا تھا۔
ہرنام سنگھ نے ایک روز دارو پی اور ٹن ہو کر ایک بس میں چڑھ گیا۔ بس چلی تو اس نے باآواز بلند کہا
”اس بس میں جتنے لوگ آگے بیٹھے ہیں، وہ بس ڈاکو ہیں، جو پیچھے بیٹھے ہیں، وہ چور ہیں، چند لوگ جو میرے ساتھ کھڑے ہو کر سفر کر رہے ہیں، صرف وہی شریف ہیں!“
ہرنام سنگھ کی اس تقریر کو سن کر بس ڈرائیور غصے میں آ گیا، اس نے زور دار طریقے سے بریک لگائی، سب لوگ ایک دوسرے کے اوپر گر پڑے، بس ڈرائیور نے ہرنام سنگھ کا گریبان پکڑا، دو جھانپڑ مارے اور کہا
”اب بتاؤ کون ڈاکو ہے اور کون چور؟“
یہ سن کر ہرنام سنگھ بولا
”بھاجی… آپ نے بریک ہی ایسی ماری ہے کہ سب لوگ آپس میں مل جل گئے ہیں، اب میں کیسے بتاؤں کہ کون چور ہے اور کون ڈاکو!“
یہی کام نگرانوں اور الیکشن کمیشن نے کیا ہے! ایسی زوردار ”بریک“ والی سکروٹنی کی ہے کہ کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا کہ کون چور تھا، کون ڈاکو، کون اہل تھا، کون نااہل! سٹیٹ بینک، FBR اور نیب کی تیار کردہ چوروں اور لٹیروں کی فہرستیں ہوا میں اڑ گئیں۔ ٹیکس چور بھی پار لگ گئے اور جعلی ڈگریوں والے بھی! عوام کو نماز جنازہ کی ادائی، اور دعائے قنوت کی تلاوت میں الجھا کر، سب کو انتخابی اکھاڑے میں یوں دھکیل دیا کہ
من تو شدم، تو من شدی
من تن شدم، تو جاں شدی
اس انتخابی عمل نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ پاکستانی ریاست نیم مردہ اور نیم جان ہو چکی ہے، افراد اور مافیا تگڑے ہیں۔ ریاستی ادارے یرغمال بن چکے ہیں۔ عمال حکومت مفادات کے تابع ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو ملک کا
نگران وزیراعظم اپنے بیٹے کو NHA میں ایک پرکشش عہدے پر لگوانے سے پہلے دس بار سوچتا! ریاست کمزور اور افراد طاقتور نہ ہوتے تو چیئرمین NAB کا بیٹا سندھ کی نگران حکومت میں صوبائی وزیر کے برابر ایڈوائزر کا عہدہ قبول نہ کرتا! ریاست طاقتور ہوتی تو سندھ کی نگران کابینہ میں زرداری خاندان کے 8 اور مقربین وزیر نہ بن جاتے، ٹھٹھہ میں جہاں صدر کا بھائی اویس پنی الیکشن لڑ رہا ہے، یوں اندھا دھند انتخابی مہم نہ چلتی کہ کوئی کہہ رہا ہے درجنوں گاڑیاں بانٹ دی گئیں، کوئی کہہ رہا ہے کہ سینکڑوں موٹر سائیکل بٹ گئے، ریاست طاقتور ہوتی تو پنجاب میں شریف برادران ایک مبہم عدالتی فیصلے کی بنیاد پر اہل قرار نہ پاتے!!پاکستان کی ریاست لمحہ بہ لمحہ دم توڑ رہی ہے۔ افراد اداروں سے برتر ہو چکے ہیں۔ عوام کے وسائل چند ہزار لوگ ہڑپ کر رہے ہیں، سیاست دان اور تاجر مافیا کھل کھیل رہا ہے، بیورو کریسی اس کی رکھیل بنی ہوئی ہے۔ عدالتیں چیخ رہی ہیں، کوئی ان کی پرواہ نہیں کرتا۔ مصر کے اس بازار میں ہر چیز بکاؤ ہے اور عوام منہ اٹھائے سوچ رہے ہیں کہ جائیں تو کہاں جائیں!کچھ لوگ آج بھی کہتے ہیں کہ ”ریاست کو کوئی خطرہ نہیں“ شائد انہیں اپنے تقویٰ کا زعم ہو کہ ”مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی“ یا پھر انہیں یہ خوش فہمی ہے کہ وہ خواب دیکھ رہے ہیں، آنکھ کھلے گی تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا!! ان خوش فہموں سے ایک گزارش ہے کہ وہ نیو یارک ٹائمز کے 9اپریل کے شمارے میں شائع ہونے والی ایک خبر پڑھ لیں جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں CIA کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو کیسے رہا کرایا گیا! اس قاتل کی رہائی میں کس ادارے کے کس فرد نے ”قابل فخر“ کردار ادا کیا تھا! امریکی CIA اور اس کے ٹھیکیداروں کو پاکستان میں گھسانے والے کردار کون تھے!یہ سب پڑھنے کے بعد اگر آپ یہ کہیں کہ پاکستان میں عوام کی ذلتوں کا سفر اب اپنی آخری حدود کو چھو رہا ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہو گا۔
تازہ ترین