قرۃالعین
ایک دفعہ شیخ چلی بازارگئے،وہاں کسی سپاہی نے تیل کا کپا خریدا اور انھیں بلاکر کہا ’’ارے میاں! یہ کپا اٹھا کر میرے گھر تک لے چلو۔ دو آنے مزدوری دوں گا‘‘۔ شیخ چلی نے بہت اچھا کہہ کر کپا سر پر اٹھا لیا اور دل ہی دل میں خیالی پلاؤ پکانا شروع کیا کہ دو آنے ملیں گے تو ایک مرغی خریدوں گا اور پھر اس کے انڈوں میں سے بہت سے بچے نکلیں گے۔ پھر انہیں بیچ کر ایک بکری لے لوں گا۔ اس کے بچے بڑے ہو جائیں گے تو انہیں بیچ کر ایک بھینس لے لوںگااُسے بیچ کر کچھ زمین خرید لوں گا۔
پھر اپنی شادی کر لوں گا تو بال بچے بھی ہو جائیں گے۔ میں جب کھیت پر سے بھینس کے لئے چارہ کا گٹھا سر پر اٹھا کر گھر میں آؤں گا تو بچے میری ٹانگوں سے چمٹ جائیں گے اور کہیں گے کہ ابا آئے، ابا آئے۔ میں انہیں جھڑک کر ہٹو ہٹو کہتا ہوا کٹھا زمین پر پٹک دوں گا۔ یہ خیال آتے ہی شیخ نے تیل کے کپے کو چارے کا گٹھا سمجھ کر زمین پر دے مارا اور تیل سارے کا سارا زمین پر بہہ گیا۔ تیل کے مالک نے کہا۔ ارے نالائق کیا تو نشے میں ہے کہ دس روپئے کا تیل گرا کر سب خاک میں ملا دیا۔ شیخ چلی نے جواب دیا ’’تم تو دس روپئے کو روتے ہو، میرا سارا کنبے کا کنبہ غارت ہو گیا۔