• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غزالہ رشید

آج ہم آپ کو ایک ڈھیٹ بکرے کی کہانی سناتے ہیں۔ جو کسی کی بات سنے کو تیار نہیں تھا۔اسے اگر کوئی کہتا کہ آجاؤ میاں دھوپ میں کیوں کھڑے ہو تو وہ اور آگے بڑھ کر سورج کے نیچے کھڑا ہوجاتا تھا۔ اور اگر اسے کوئی کہے کہ بارش تیز ہے چھت کے نیچے آ جاؤ تو وہ چھت کے نیچے آنے کی بجائے، آسمان کے نیچے کھڑا ہوجاتا اور پھر چھینکیں اور بخار میں ساری رات گزاردیتا۔

ایک دن اسی طرح ڈھیٹ بکرے میاں مرغیوں کے دڑبے کے پاس ایسے کھڑے ہوگئے کہ ان کا آنے جانے کا راستہ بند ہوگیا۔ وہ تو بے چاری پریشان ہوگئیں کیونکہ بکرے میاں کو لاکھ آوازیں دی جائیں، سمجھایا جائے وہ ہر بات کا جواب نہایت خاموش ڈھیٹ پن سے دیتا، ایسا لگتا کہ یا تو ان کے کان نہیں ہیں یا پھر انہیں کسی کی کوئی بات سمجھ ہی نہیں آتی۔مرغی خاصی پریشان تھی۔ بچے بھی خاصا شور کررہے تھے۔ ان کو بھی اپنے کمروں میں آرام کرنے کی عادت تھی ۔ مرغی کے بچوں نے چوں چوں کرکے شور مچارکھا تھا لیکن ڈھیٹ بکرے نے جیسے دل میں ٹھان رکھی تھی کہ ،جہاں کھڑا ہے بس وہیں کھڑا رہے گا۔

چاروں طرف سے چوںچوں کرتے چوزے اس کے پاؤں پر ٹھونگے مار رہے تھے۔سارا دن کی محنت کے بعد کسان علی احمد تھک کر اپنی چارپائی اٹھائے درخت کے سائے میں آرام کرنے کی نیت سے چلا جا رہا تھا لیکن چوزوں کی چوں چوں کی آواز کی سمت قدم بڑھا دیئے۔قریب جا کر منظر دیکھا تو اسے حیرت بھی ہوئی اور ہنسی بھی آئی کہ ایک مرغی ایک کونے میں افسردہ سی کھڑی ہے اور سات آٹھ چوزے اپنے دڑبے کے سامنے کھڑے بکرے ،کے قدموں میں جھکے کھڑے ہیں۔ بندر میاں اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھامے درخت پر افسردہ سے بیٹھے ہیں۔ ایک لمحے کھڑے ہوکر ان سب کو دیکھا پھر بندر میاں سے پوچھا کہ،’’ کیا پریشانی ہے‘‘؟

بندر نے ڈھیٹ بکرے کے بارے میں بتایا ،معصوم چوزوں کو بے گھر کرکے نہ جانے اسے کیا مزا آ رہا ہے۔

کسان نے کہا’’کیوں بکرے میاں ، مرغی کے دروازے پر کھڑے ہو‘‘، انہوں نے تعارف کے لیے بات شروع کی لیکن ڈھیٹ بکرے نے بے نیازی دکھائی ۔

آخر وہ کچھ دیر تو کھڑاسوچتا رہا، پھر اس نے پہلے تو بکرے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا،’’تم اچھے بکرے لگتے ہو دوسروں کی مدد کرنے والے ،تم یقینا ان بچوں کا خیال رکھنا چاہتے ہو، اب تم یہیں کھڑے رہنا ،تاکہ بلی ان چوزوں کو ڈرا دھمکا کے خود اپنی دعوت نہ کرلے ، تم ہو گے تو وہ اس طرف نہیں آئے گی۔‘‘

اور پھر سب ہی اپنی اپنی جگہ حیران تھے۔ ڈھیٹ بکرے نے ان سنی کرنے کی عادت سے مجبور ہوکر ایک نظر سب کی طرف دیکھا اور چوزوں کے گھر کا دروازہ چھوڑ کر بڑے مزے میں منہ اٹھائے چل دیا۔

تازہ ترین