• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خبر جنگل کی آگ کی طرح شہر میں پھیل چُکی تھی۔ سب نوجوانوں کے رویّے پر حیران اور مشتعل تھے۔ مارنے مرنے کی باتیں ہو رہی تھیں کہ اِسی اثنا میں ایک درباری نے بادشاہ کو آکر بتایا’’ عالی جاہ! شہر کے چند نوجوان باغی ہو گئے ہیں۔ وہ بُتوں کے سامنے جُھکنے سے انکاری ہیں اور کہتے ہیں کہ’’ ہم ایک اللہ کے سِوا ہرگز کسی دوسرے کے سامنے پیشانی نہیں جُھکائیں گے۔‘‘یہ سُن کر بادشاہ نے فوری طور پر نوجوانوں کو دربار میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ بس پھر کیا تھا، درباری حکم سُنتے ہی دوڑ پڑے اور تھوڑی ہی دیر میں اُن’’ باغی نوجوانوں‘‘ کو گھیر کر بادشاہ کے سامنے لاکھڑا کیا۔اللہ تعالیٰ نے اِس واقعے کو سورۂ کہف کی آیت 9 سے 26 تک میں بیان فرمایا ہے۔ سوال، جواب شروع ہوئے، تو نوجوانوں کا نعرۂ توحید دربار میں گونج اُٹھا۔اُن کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور نہ ہی زبان میں لڑکھڑاہٹ تھی۔ اُنھوں نے کمال بہادری اور پوری بے باکی سے اپنا عقیدہ بیان کیا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ یہ کچھ نوجوان تھے، جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ہم نے اُن کو ہدایت میں خُوب ترقّی دی تھی۔اور ہم نے اُن کے دِل خُوب مضبوط کردیے تھے۔ یہ اُس وقت کا ذکر ہے، جب وہ اُٹھے اور اُنھوں نے کہا ’’ہمارا پروردگار وہ ہے، جو تمام آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔ ہم اُس کے سِوا کسی کو معبود بنا کر ہرگز نہیں پکاریں گے۔اگر ہم ایسا کریں گے، تو ہم یقیناً انتہائی لغو بات کہیں گے۔یہ ہماری قوم کے لوگ ہیں، جنھوں نے اس پروردگار کو چھوڑ کر دوسرے معبود بنا رکھے ہیں۔( اگر ان کا عقیدہ صحیح ہے تو) وہ اپنے معبودوں کے ثبوت میں کوئی واضح دلیل کیوں پیش نہیں کرتے؟ بھلا اُس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا، جو اللہ پر جھوٹ باندھے؟‘‘

غار میں پناہ

بادشاہ نے نوجوانوں کی بات سُن کر اُنھیں سوچنے کے لیے کچھ دنوں کی مہلت دے دی اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی کہ اگر وہ اپنے مؤقف سے پیچھے نہ ہٹے، تو اُنھیں سولی پر لٹکا دیا جائے گا۔ نوجوان، بادشاہ کے ظلم و جبر سے واقف تھے، پھر بستی کے حالات بھی اُن کے سامنے تھے، ایسے میں اُن میں سے ایک نے مشورہ دیا ’’(ساتھیو) جب تم نے اِن لوگوں سے بھی علیٰحدگی اختیار کرلی ہے اور اُن سے بھی، جن کی یہ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں، تو چلو، اب تم اس غار میں پناہ لے لو۔ تمہارا پروردگار تمہارے لیے اپنا دامنِ رحمت پھیلا دے گا اور تمھارے کام میں آسانی کے اسباب مہیا فرمائے گا۔‘‘(آیت 16) باقی نوجوانوں کو بھی مشورہ پسند آیا اور وہ چُپکے سے شہر سے دُور پہاڑوں میں واقع ایک گہرے غار میں جا چُھپے اور دُعا کی’’ اے ہمارے پروردگار! ہم پر خاص اپنے پاس سے رحمت نازل فرمائیے اور ہماری اس صُورتِ حال میں ہمارے لیے بھلائی کا راستہ مہیا فرما دیجیے۔‘‘

کتنے نوجوان تھے؟

غار میں پناہ لینے والے نوجوانوں کی تعداد کیا تھی؟ اِس ضمن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین آدمی تھے اور چوتھا اُن کا کتّا تھا۔ اور کچھ کہیں گے وہ پانچ تھے اور چھٹا اُن کا کتّا تھا۔ یہ سب اٹکل کے تیر چلانے کی باتیں ہیں۔ اور کچھ کہیں گے وہ سات تھے اور آٹھواں اُن کا کتا تھا۔ کہہ دو کہ’’ میرا ربّ ہی ان کی صحیح تعداد کو جانتا ہے۔ 

تھوڑے سے لوگوں کے سِوا کسی کو ان کا پورا علم نہیں۔ لہٰذا اُن کے بارے میں سرسری گفتگو سے آگے بڑھ کر کوئی بحث نہ کرو اور نہ اُن کے بارے میں کسی سے پوچھ گچھ کرو۔‘‘حضرت ابنِ عبّاسؓ کا قول ہے کہ’’ اُن تھوڑے آدمیوں میں سے ایک مَیں بھی ہوں، جنھیں’’ اصحابِ کہف‘‘ کے بارے میں علم دیا گیا ہے۔ اُن کی تعداد سات تھی اور آٹھواں اُن کا کتّا تھا۔‘‘بیش تر مفسّرین کا یہی خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین اور پانچ کی تو تردید کی، لیکن سات کا ذکر فرما کر تردید نہیں کی۔ تاہم، اس کے باوجود اللہ پاک کا حکم یہی ہے کہ اِس طرح کے معاملات کی کھوج اور بحث مباحثے میں وقت ضایع کرنے کی بجائے واقعے کے اصل سبق ہی پر توجّہ مرکوز رکھنی چاہیے۔

صدیوں طویل نیند

نوجوان غار میں پہنچے، تو کچھ دیر بعد اُن پر غنودگی طاری ہونے لگی، جو دیکھتے ہی دیکھتے گہری نیند میں بدل گئی۔’’ ہم نے اُن کے کانوں کو تھپکی دے کر کئی سال تک اُن کو غار میں سُلائے رکھا۔‘‘ مولانا ابو الکلام آزاد نے’’ کانوں کو تھپکی دینے‘‘ کا مطلب نیند کی بجائے باہر کی آوازوں کا نہ آنا بیان کیا ہے۔تاہم باقی تمام مفسّرین کے مطابق، کانوں کو تھپکی دینے کا مطلب یہی ہے کہ اُنھیں آہستہ آہستہ باہر کی آوازیں سُنائی دینا بند ہوگئیں اور وہ گہری نیند میں چلے گئے۔یہ نیند کتنے برسوں پر محیط تھی؟ اِس حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ اور وہ( اصحابِ کہف) اپنے غار میں تین سو سال اور مزید نو سال(سوتے) رہے۔‘‘یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے یا لوگوں کی رائے بیان کی گئی ہے؟ اِس ضمن میں کئی مفسّرین کا کہنا ہے کہ تین سو ، نو سال کی نیند کی بات اللہ تعالیٰ کا قول نہیں ہے، اِسی لیے وہ بادشاہوں کے دورِ حکم رانی کی بنیاد پر اصحابِ کہف کی نیند کے دورانیے کا تعیّن کرتے ہیں، جو اُن کی تحقیق کے مطابق 196 سال بنتا ہے۔ 

تاہم، بیش تر مفسّرین 309 سال کو اللہ تعالیٰ ہی کا قول قرار دیتے ہیں۔ جس طرح نوجوانوں کی تعداد کے بارے میں لایعنی بحث مباحثے سے گریز کی ہدایت کی گئی ہے، اِسی طرح نیند کے معاملے پر بھی خیالات کے گھوڑے دوڑانے سے منع کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ (اگر کوئی اِس پر بحث کرے تو) کہہ دو کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنی مدّت(سوتے) رہے۔آسمانوں اور زمین کے سارے بھید اُسی کے علم میں ہیں۔ وہ کتنا دیکھنے والا اور کتنا سننے والا ہے۔ اس کے سوا ان کا کوئی رکھوالا نہیں ہے اور وہ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔‘‘

دنیا ہی بدل گئی

نوجوان طویل عرصے تک سوتے رہے۔ موسم کی تبدیلی نے اُن کے وجود کو کوئی نقصان پہنچایا اور نہ ہی لباس کو۔ ’’ (وہ غار ایسا تھا کہ) تم سورج کو نکلتے دیکھتے،تو وہ اُن کے غار سے دائیں طرف ہٹ کر نکل جاتا اور جب غروب ہوتا، تو اُن سے بائیں طرف کترا کر چلا جاتا اور وہ اُس غار کے ایک کشادہ حصّے میں(سوئے ہوئے) تھے۔ یہ سب کچھ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔‘‘ یوں وہ دھوپ وغیرہ سے محفوظ رہے۔ اُن کے سونے کی کیفیت بھی عجیب تھی۔اُنھیں فرشتے کروٹ دیتے رہتے۔’’ تم اُنھیں ( دیکھ کر) یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں، حالاں کہ وہ سوئے ہوئے تھے اور ہم اُن کو دائیں اور بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے اور اُن کا کتّا دہلیز پر اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے( بیٹھا) تھا۔

اگر تم اُنھیں جھانک کر دیکھتے، تو اُن سے پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتے اور تمھارے اندر اُن کی دہشت سما جاتی۔‘‘اُدھر اُن کی نیند جاری تھی اور دوسری طرف باہر کی دنیا بدل چُکی تھی۔ بُت پرست حکومت کی جگہ عیسائی حکومت نے لے لی تھی اور عوام نے بھی عیسائیت قبول کرلی تھی۔ پھر ایک روز وہ جیسے سوئے تھے، ویسے ہی اُٹھ کر بیٹھ گئے اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ’’ کتنی دیر سوئے ہیں؟‘‘ کسی نے کہا ’’ایک دن‘‘ اور کسی نے کہا’’ نہیں، اس سے بھی کم۔‘‘ باقیوں نے کہا ’’اِس بحث کو چھوڑو، بس اللہ ہی جانتا ہے کہ ہم کتنی دیر اِس حالت میں رہے ہیں۔‘‘وہ ابھی تک یہی سمجھ رہے تھے کہ مُلک پر اُسی ظالم بادشاہ کی حکومت ہے، جس سے بچنے کے لیے وہ غار میں پناہ گزیں ہوئے تھے۔ جب اُنھیں بھوک نے ستایا، تو مشورہ کیا’’ اب اپنے میں سے کسی کو چاندی کا سکہ دے کر شہر کی طرف بھیجو، وہ جاکر دیکھ بھال کرے کہ اس کے کون سے علاقے میں زیادہ پاکیزہ کھانا( مل سکتا) ہے۔ پھر تمہارے پاس وہاں سے کچھ کھانے کو لے آئے اور اسے چاہیے کہ ہوشیاری سے کام لے اور کسی کو تمھاری خبر نہ ہونےدے۔ کیوں کہ اگر ان( شہر کے) لوگوں کو تمھاری خبر مل گئی، تو یہ تمھیں پتھراؤ کرکے ہلاک کر ڈالیں گے یا تمھیں اپنے دین میں واپس آنے پر مجبور کریں گے اور ایسا ہوا تو تمھیں کبھی فلاح نہیں مل سکے گی۔‘‘اُن کا ساتھی بازار پہنچا اور ایک جگہ سے کھانا خریدنے کے بعد سکّہ دیا، تو دُکان دار اتنا پرانا سکّہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ 

وہ سمجھا، شاید کوئی پرانا خزانہ اس نوجوان کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ یہ بات لمحوں میں پھیل گئی، یہاں تک کہ اُس نوجوان کو بادشاہ تک پہنچا دیا گیا۔ بادشاہ کو اس واقعے کا علم تھا کہ ایک زمانے میں چند نوجوان اپنا دین بچانے اور بادشاہ کے ظلم و ستم سے محفوظ رہنے کے لیے کہیں رُوپوش ہوگئے تھے، کیوں کہ سرکاری ریکارڈ میں موجود ایک تختی پر یہ سب کچھ لکھا ہوا تھا۔ جب تحقیق کی گئی، تو سب کچھ سامنے آگیا۔ اب کیا بادشاہ اور کیا عوام، سب ہی اُن نوجوانوں کے گرویدہ ہوگئے اور ان کی خُوب آؤ بھگت کی گئی۔لوگ جُوق در جُوق اُن کی زیارت اور ملاقات کے لیے غار پہنچ گئے۔

نوجوانوں کا انتقال اور شہریوں میں اختلاف

وہ نوجوان ،بادشاہ اور عوام کی جانب سے درخواست کے باوجود شہر میں رہنے کی بجائے دوبارہ غار میں چلے گئے اور وہیں اُن کا انتقال ہوا۔ جب شہر تک خبر پہنچی، تو لوگ جمع ہوگئے اور اُن کی تدفین وغیرہ کے حوالے سے مختلف منصوبے بنانے لگے۔’’ (پھر وہ وقت بھی آیا) جب لوگ اُن کے بارے میں آپس میں لڑ جھگڑ رہے تھے۔ چناں چہ کچھ لوگوں نے کہا کہ’’ اُن پر ایک عمارت بنادو۔ اُن کا ربّ ہی اُن کے معاملے کو بہتر جانتا ہے۔‘‘(آخرکار) جن لوگوں کو اُن کے معاملات پر غلبہ حاصل تھا، اُنھوں نے کہا’’ ہم تو اُن کے اوپر ایک مسجد ضرور بنائیں گے۔‘‘یوں غار کا دہانہ بند کرکے اُس کے اوپر ایک عبادت گاہ بنادی گئی۔

رقیم کا مطلب

قرآنِ پاک میں اِس واقعے کا آغاز اِن الفاظ سے ہوتا ہے’’ کیا تم سمجھتے ہو کہ غار اور رقیم والے ہماری بڑی نشانیوں میں سے تھے؟‘‘ غار کے معنی تو واضح ہیں، مگر رقیم کا کیا مطلب ہے؟ اِس ضمن میں مفسّرین نے مختلف آراء کا ذکر کیا ہے، جن کے مطابق’’ رقیم اُس وادی کا نام تھا، جس کے پہاڑ میں غار واقع تھا۔ رقیم پہاڑ کا نام تھا، اُس شہر کا نام رقیم تھا اور یہ کہ رقیم سے مُراد وہ کتبہ ہے، جو اُس غار پر اصحابِ کہف کی یادگار کے طور پر لگایا گیا تھا۔‘‘

واقعہ کب اور کہاں پیش آیا؟

چوں کہ تاریخ میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں، جب نیک و صالح افراد، بادشاہوں کے خوف یا عبادات کے لیے غاروں میں جابسے تھے، اِسی لیے مؤرخین کے درمیان اصحابِ کہف کے زمانے اور اُن کے غار کے تعیّن میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ تُرکی، اُردن، شام، یمن، اسپین، آذربائیجان، اندلس، تیونس اور الجیریا سمیت کئی مقامات پر اصحابِ کہف سے منسوب غار موجود ہیں، تاہم اِن میں سے تین مقام زیادہ معروف ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ایلہ یعنی عقبہ کے قریب واقع، رقیم نامی شہر میں پیش آیا، جہاں بُت پرست نبطی حکم ران تھے۔ رومیوں کے قبضے کے بعد اُس شہر کا نام بدل گیا اور اب اُسے رقیم کی بجائے پیٹرا (بطرا) کہا جاتا ہے۔ 

یہ اُردن کا ایک معروف تاریخی مقام ہے۔ سیّد سلیمان ندوی نے بھی اپنے سفرنامہ ارض القرآن میں پیٹرا ہی کو رقیم لکھا ہے۔ تاہم، بیش تر قدیم اور جدید مفسّرین کا خیال ہے کہ اصحابِ کہف کا واقعہ تُرکی کے قدیم شہر، افسس(Ephesus) میں پیش آیا تھا، جو ازمیر سے 20، 25 میل کی مسافت پر ہے۔ عیسائی لٹریچر میں بھی یہ واقعہ’’ Seven Sleepers‘‘ یعنی’’ سات سونے والوں‘‘ کے عنوان سے مشہور ہے۔ اس واقعے کا پہلی بار ایک شامی پادری یعقوب(جیمس) سروجی نے 521ء میں ذکر کیا تھا، جب کہ معروف مؤرخ، ایڈورڈ گبن نے اپنی کتاب’’ The decline and fall of Roman Empire‘‘ میں اِس واقعے کی جو تفصیلات بیان کی ہیں، وہ اسلامی مؤرخین کی روایات کے قریب تر ہیں۔ عیسائیوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ واقعہ تُرک شہر، افسس میں پیش آیا۔ 

تاہم، 1953 ء میں اُردن کے دارالحکومت، عمان سے آٹھ میل کی دُوری پر’’ رجیب‘‘ نامی بستی کے پہاڑوں میں ایک غار دریافت ہوا، جہاں سے 1961ء میں کھدائی کے دَوران قبریں، مسجد کی عمارت، کتّے کی ہڈیاں اور قدیم دَور کے سکّے برآمد ہوئے۔ اس غار کا دہانہ جنوب کی جانب ہے، جس کی وجہ سے اس میں دھوپ داخل نہیں ہوپاتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ’’ رجیب‘‘ دراصل’’ رقیم‘‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ کتابوں میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہدِ خلافت میں ایک قافلے اور صلاح الدّین ایوبی کے ایک کمانڈر کے یہاں آنے کا تذکرہ ملتا ہے، مگر پھر یہ غار ایک عرصے تک نظروں سے اوجھل رہا اور تقریباً ساٹھ سال قبل دوبارہ دنیا کے سامنے آیا۔مفتی محمّد تقی عثمانی نے اپنے سفرنامے’’ جہانِ دیدہ ‘‘ میں عمان میں واقع اِس غار سے متعلق تفصیلی تحقیقی معلومات فراہم کی ہیں۔جدید تحقیقات کے بعد اب عمان کے اِس غار ہی کو اصحابِ کہف کا اصل غار قرار دیا جاتا ہے۔ایک تو یہ کہ یہ غار قرآنِ پاک میں بیان کردہ علامات کے قریب تر ہے، پھر کھدائی کے دَوران برآمد ہونے والی اشیاء بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہیں، نیز، حضرت ابنِ عبّاسؓ کی بیش تر روایات اِسی علاقے میں اصحابِ کہف کے غار سے متعلق ہیں۔ 

اسلامی اور عیسائی مؤرخین کا اِس بات پر اتفاق رہا ہے کہ اصحابِ کہف کا واقعہ ڈیسس(Decivs) یا ’’ دقیانوس‘‘ کے دور میں پیش آیا، جو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے پیروکاروں پر بے حد مظالم ڈھاتا تھا، جب کہ اصحاب کہف تھیوڈوسیس(Theodosious) یا’’ تیدوسیس‘‘ کے عہد میں بیدار ہوئے۔ تاہم، جدید تحقیق کے مطابق یہ واقعہ دقیانوس کے دورِ حکومت 251 ء کی بجائے ٹروجان(Trajan) کے دور میں پیش آیا، جس نے 98ء سے 117ء تک حکومت کی تھی، البتہ بیداری کا واقعہ تھیوڈوسیس کے عہد ہی میں ہوا، جس کی حکومت 408ء سے 450ء تک قائم رہی۔

اصحابِ کہف کے نام اور عملیات

مختلف روایات کی بنیاد پر اصحابِ کہف کے نام بیان کیے جاتے ہیں، جن کے اِملا اور تلفّط میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔ مفتی محمّد شفیع نے’’ معارف القرآن‘‘ میں ایک روایت کی بنیاد پر اُن کے یہ نام تحریر کیے ہیں: مکسلمینا، تملیخا(جو کھانا لینے گئے تھے)، مرطونس، سنونس، سارینونس، ذونواس اور کعسططکیونس۔نیز، بزرگانِ دین سے اصحابِ کہف کے ناموں کے حوالے سے کئی وظائف اور عملیات بھی بیان کیے گئے ہیں، مگر اِس طرح کا کوئی بھی عمل کرنے سے قبل کسی عالمِ دین سے ضرور معلوم کرلینا چاہیے، کیوں کہ بہت سے لوگوں نے نہ جانے کیا کچھ اس میں شامل کر لیا ہے، جن کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔

اصحابِ کہف کا کتّا

اِس واقعے میں کتّے کا بھی کئی بار ذکر آیا ہے، جو اُن نوجوانوں کے ساتھ تھا اور اُن کی حفاظت کے لیے غار کے دہانے پر بیٹھا رہا، یہاں تک کہ اپنی جان دے دی، مگر وہاں سے نہیں ہلا۔ اس کی ہڈیاں دورانِ کھدائی عمان کے غار کے دہانے سے ملی ہیں۔عوام میں اس کتّے کے حوالے سے بہت سی باتیں مشہور ہیں، مگر صحیح احادیث میں اُن کا کوئی ذکر نہیں۔ البتہ، بزرگ فرماتے ہیں کہ جو شخص نیک لوگوں سے محبّت کرتا ہے اور اُن کی صحبت میں رہتا ہے، تو اُسے بھی اُن کی نیکی میں حصّہ ملتا ہے۔ کتّے نے اصحابِ کہف سے محبّت کی اور اُن کے ساتھ لگ گیا، تو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اُس کا بھی اُن کے ساتھ ذکر کیا۔

تازہ ترین