• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوری نظام میں سیاسی جماعتیں اپنے منشور کی بنیاد میں انتخابات میں شریک ہوتی ہیں اور اگر حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں تو اپنے پروگرام پر عملدرآمد کے ذریعے عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کی جاتی ہے۔ ایک خاص مدت کے بعد حکومت کی اہلیت اور کارکردگی کا تجزیہ کرنا اور اسے جانچنا ایک جمہوری روایت ہے تاکہ اس کی سمت اہلیت کامیابیوں اور ناکامیوں کو پرکھا جاسکے۔ بالخصوص حزب اختلاف کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت وقت کی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لے کر اُسے راہ راست پر لائے۔ حکومت میں آنے سے قبل عمران خان تمام حکومتوں پر ہر لحاظ تنقید کو گویا اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے اور دعویٰ کرتے تھے کہ جب اُنھیں حکومت ملے گی تو وہ صرف 100دن میں ملک کو مسائل کی دلدل سے نکال دیں گے۔ جب اُنہیں حکومت مل گئی تو انھوں نے باقاعدہ 100"دن کا ایجنڈا’’بنا کر بڑے فخریہ انداز میں پیش کیا۔‘‘ایک کروڑ نوکریاں پچاس لاکھ گھر، احتساب کا مضبوط نظام، معاشرہ میں ہر سطح پرتبدیلی، حکومتی نظام میں بہتری، صرف 18وزراء کی کابینہ، بجلی گیس کے بلوں میں کمی، غیر ملکی قرضوں کا خاتمہ،غریبوں کی حالت میں فوری بہتری، صحت اور تعلیم کے نظام میں ایمرجنسی ، کسی سے ڈکٹیشن نہ لینے کا وعدہ ، ٹیکس کے نظام میں اصلاحات وزیر اعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانا، گورنر ہائوسز اور وزرائے اعلیٰ کی رہائش گاہوں کا خاتمہ صدر کا پارلیمنٹ لاجز میں رہنے کا اعلان، کرپشن کا خاتمہ، سینکڑوں چھوٹے ڈیمز کی تعمیر، کرپشن کے 200ارب ڈالر ملک واپس لانا، جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانا، بلوچوں کو قومی دھارے میں لانا، پٹرول پر جگا ٹیکس ختم کرنا، عدل کے نظام ، پولیس، نوکر شاہی میں فوری اصلاحات ملکی اداروں کو بہترین ٹیم دے کر اُنھیں منافع بخش بنانا سبز پاسپورٹ کو عزت دینا وغیرہ وغیرہ ۔تدبر کا تقاضاہے کہ پہلے تو لو بعد میں بولو اور اگر آپ کے وعدے سراب ثابت ہوں تو پھر کوئی جواز نہیں رہتاہے کہ آپ اقتدار کے ساتھ چیکے رہیں جو کام آپ نے پہلے 100دن میں کرنا تھے وہ 730د ن گزرنے کے باوجود شروع تک نہ کئے جاسکے بلکہ حالات پہلے سے زیادہ ابتر ہوچکے ہیں ۔ وہ حکومت جو کرپشن کو ختم کرنے کے نعرے پر آئی تھی آج ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان کی سب سے کرپٹ حکومت قرار دی جاچکی ہے ،اس سے قبل یہ اعزاز مشر ف حکومت کو حاصل تھا۔ آدیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق حکومتی وزراء کے محکموں میں 270ارب کے گھپلے کئے گئے۔

آٹا اور چینی میں کھربوں روپے کی کرپشن ان کے اپنے بنائے گئے کمیشن میں ثابت ہوچکی اور کسی کا نام ECLمیں آیا نہ کوئی وزیر گرفتار ہوا اور امیر ترین ATMملک سے فرار ہونے میں کامیاب اور نیب کی آنکھیں بند ۔ بی آرٹی کی لاگت میں کئی گنا اضافہ کرپشن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بلین ٹری سونا می میں 462 ملین کی کرپشن کی سونامی کا بھانڈا خود نیب نے پھوڑا مگر کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ اب کرونا جیسی وباءمیں1200ارب روپیہ کہاں گیا؟ ترینوں خسروئوں کی کرپشن حلال علیم وعلیمہ خانوں کو استثناء لیکن نیب اپوزیشن کے لئے ہر وقت تیار و مستعد ۔ مخالف سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ سب سے بڑے میڈیا گروپ جنگ و جیو کے سربراہ میر شکیل الرحمان کو بے جرم و خطا ء مہینوں سے پابند سلاسل ہیں تاکہ آزادی اظہار رائے کو سلب کیا جا سکے۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ کو کہنا پڑا، ’’نیب کو سیاسی وفاداریاں تبدیل کروانے کے لئے آلہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ سیاسی جماعتوں کو توڑ کر مصنوعی قیادتیں تیار کی جا سکیں۔ سلیکٹڈ بونوں کی نشوونما کرکے انھیں پروان چڑھایا جاتا ہے اور اُنھیں اقتدار میں لایا جاتا ہے۔ حقیقی قیادتوں کو نیب کے ذریعے بد نام کیا جاتا ہے۔ نیب کے اقدامات کے اور حکومتی نظام میں بدعنوانی مزید بڑھ چکی ہے اور آج کوئی بھی ادارہ اس سے پاک نہیں ہے۔‘‘

معیشت کی تباہی ان دو سالوں میں نقطئہ عروج پر ہے اور معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف کے کنٹرول میں ہیں اور ملک پر حقیقتاًپی ٹی آئی ایم ایف کی حکومت مسلط ہے۔ ملکی تاریخ میں شرح نمو منفی ہوچکی ہے ۔ کوئی بھی معاشی ہدف حاصل نہیں کیا جاسکا۔ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمارنے عام آدمی کو نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر کےحکومت ایک لیٹر پر 45روپے جگا ٹیکس لے رہی ہے۔ مہنگائی کا سونامی عوام کا جینا محال کرچکا ہے آٹا اور چینی مافیاز کا حکومتی گٹھ جوڑ آتا کی قیمت کو 38سے 74روپے کلو تک اور چینی کو 53سے 100روپے کلو تک لے جاچکا ہے، اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ ’’گھبرانا نہیں‘‘ جن کے لئے قرضہ لینا حرام تھا وہ آج پاکستان میں سب سے زیادہ قرض لینے والی حکومت بن چکی ہے ۔ پارلیمان کو بے وقار کردیا گیا ہے۔ حکومت کو اگر بنیادی اصولوں پر ہی رکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ قانون سازی، ادارہ جاتی اصلاحات ترقی کے منصوبوں، عوام کی بنیادی سہولتوں (تعلیم و صحت) اور سمت کے تعین میں یہ حکومت کامیابی حاصل نہیں کر پائی بلکہ ملک کو بہت پیچھے لے جاچکی ہے۔ یہ تبدیلی ہے یا سراب؟

تازہ ترین