• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر آپ 1972 میں بارہ تیرہ برس کے تھے اور ماہنامہ ’’دھنک‘‘ آپ کی نظروں سے گزرتا تھا تو مجھے یقین ہے کہ آپ اسی عمر میں ’’بالغ‘‘ ہوگئے ہوں گے۔ اللہ جانے آپ میں سے کس کس نے سرور سکھیرا کا ماہنامہ ’’دھنک‘‘ ان دنوں میں دیکھا جس کا پہلا شمارہ مئی 1972ء میں اور آخری شمارہ جنوری 1980ء میں شائع ہوا تھا، تو آپ بہت جلد سنِ بلوغت تک پہنچنے والی میری بات سمجھ گئے ہوں گے، یہ بلوغت ذہنی نوعیت کی تھی، اس قدامت پسندی کے دور میں جو ماشاء اللہ آج بھی اپنے عروج پر ہے۔ ’’دھنک‘‘ پہلا میگزین تھا جس نے اپنی پالیسیوں سے تعریف و توصیف بھی خاصی تعداد میں وصول کی اور بحمدللہ گالی گلوچ سے بھی اپنا دامن بھرا۔ اس کے آرٹ ایڈیٹر، اس میں لکھنے والے سارے ٹیبوژ کی دھجیاں اڑانے میں لگے رہتے تھے۔ آرٹ ایڈیٹر اور اسکیچ بنانے والوں کی بھی سن لیں، میں نے ایک ہلکا پھلکا مضمون ’’دوپائن کے بیج‘‘ لکھا تو اس کے ساتھ جو اسکیچ بنایا گیا، اس پر عموماً معاذ اللہ، استغفر اللہ کہا جاتا ہے اور میں نے بھی یہ کلمات بآواز بلند ادا کئے تاکہ جو دوست اس وقت میرے پاس بیٹھے یہ میگزین دیکھ رہے تھے، وہ مجھ سے پوچھیں کیا ہوا، چنانچہ میں نے انہیں اپنا مضمون اور اس کے ساتھ بنایا گیا اسکیچ دکھایا تو وہ بدبخت ہنستے ہنستے دہرے ہوگئے اور انکی یہ ہنسی بےجا نہ تھی کیونکہ اسکیچ مضمون کے عنوان کے مطابق تھا!

’’دھنک‘‘ صرف فیشن میگزین نہیں بلکہ ایک اعلیٰ درجے کا علمی، ادبی مواد بھی اپنے دامن میں رکھتا تھا، اس میں منیر نیازی کا کالم بھی شائع ہوتا تھا، ظفر اقبال کی غزلیں اور پھر بعد میں کالم بھی چھپنا شروع ہوگیا، فیض صاحب کی غزلیں بھی شائع ہوتی رہیں اور ان ناموں کے علاوہ کوئی اور بڑا نام بھی سوچیں، ان میں سے بھی کئی ایک کی نگارشات دھنک کی زینت بنتی تھیں اور میرا یارِ طرحدار حسن نثار بھی اسی دھنک میں زیادہ سج دھج کے ساتھ سامنے آیا تھا اور صف اول کے کارٹونسٹ جاوید اقبال کے کارٹون بھی دھنک میں شائع ہوتے تھے۔ ایک ضیاءساجد مرحوم بھی تھا، جو سمرن چودھری کے نام سے کہانی نما کوئی چیز لکھتا تھا اور زنانہ نام کی وجہ سے اسے روزانہ عشقیہ خطوط موصول ہوتے تھے، چند ایک نے تو ’’سمرن چودھری‘‘کو دھمکی بھی دی تھی کہ اگر وہ ان کے حجلۂ عروسی کی زینت نہ ’’بنیں‘‘ تو وہ خود کشی کرلیں گے، سرور سکھیرا کے بارے میں بتانے کی بات یہ ہے کہ موصوف کھرے سچے جاٹ فیملی سے تعلق رکھتے ہیں، مگر تعلیم باہر کی یونیورسٹیوں سے حاصل کی ہے چنانچہ انگریزی اور پنجابی دونوں ’’مادری‘‘ زبانوں کی طرح فرفر بولتے ہیں۔ موصوف کو ادب، صحافت اور سیاست کا ٹھرک تو ’’رج‘‘ کے تھا مگر ان علوم سے ان کا کوئی بہت زیادہ گہرا تعلق نہیں تھا۔ اپنے وقت کے ایک بہت بڑے نقاد، محقق، شاعر، انشائیہ نگار اور مشہور زمانہ ادبی مجلہ ’’اوراق‘‘ کے مدیر ڈاکٹر وزیر آغا نے ’’دھنک‘‘ کی شہرت سن کر انہیں اپنا ایک انشائیہ برائے اشاعت ارسال کیا۔ سرور سکھیرا کے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں تھا کہ یہ وزیر آغا کون ہے؟ چنانچہ اس نے آغا صاحب کو لکھا ’’آپ کا مقالہ اچھا ہے، مگر آپ کو ابھی مزید پریکٹس کی ضرورت ہے۔ آپ حوصلہ نہ ہاریں، لکھتے رہیں، ان شاء اللہ ایک دن ضرور آپ رائٹر بنیں گے‘‘!

سرور سکھیرا دیکھنے میں خاموش طبع اور انتہائی بھلے مانس دکھائی دیتا ہے مگر انتہائی خوش طبع، جملے بازہے، بلکہ کئی دفعہ تو اپنا مذاق اڑانے سے بھی باز نہیں آتا۔ بھٹو صاحب ایک دفعہ کسی بات پر اس سے ناراض ہوگئے اور ان کے کارندوں نے انہیں شاہی قلعہ میں بند کر دیا، شاہی قلعہ بدترین تشدد کے لئے مشہور تھا۔ باقی کہانی اس کی زبانی سنیں ’’مجھے ایک تنگ و تاریک سیل میں پھینک دیا گیا جہاں سے لوگوں کی چیخیں اور آہ و بکا سنائی دیتی تھی۔ خوف سے میرا برا حال تھا، اتنے میں ایک سات فٹ قد کا جانگلی نما شخص ، کالا سیاہ رنگ، سفید کرتا اور سفید دھوتی میں ملبوس ہاتھ میں حقہ تھامے میرے سیل کے قریب آیا اور کہا ’’بائو‘‘ اس کے بعد اس نے ایک نازیبا فرمائش کی، جس پر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اس نے حقے کا ایک لمبا کش لیا اور کہا ’’میں ابھی آتا ہوں، تم تیار رہو‘‘جب سرور سکھیرا یہاں تک اپنی داستانِ غم سنا چکا تو میں نے شدید پریشانی کے عالم میں پوچھا ’’پھر کیا ہوا؟‘‘ سرور سکھیرا نے جواب دیا ’’یار میں نے اس کی فرمائش کے مطابق پوری تیار کرلی اور خود کو آنے والے شرمناک واقعہ کے لئے ذہنی طور پر تیار کرلیا۔ مگر یار ، وہ پھر آیا ہی نہیں، میں اس کا انتظار ہی کرتا رہا‘‘۔

تواس کا دھنک بھی اس کے ایڈیٹر کی طرح ہنس مکھ، شرارتی اور خطرات کا سامنا کرنے والا تھا۔ ان دنوں ممکن ہے آپ نے سرور کو کسی تقریب میں کسی جاننے والے سے خوبصورت انگریزی میں خوبصورت باتیں کرتے دیکھا ہو، مگر جان لیں کہ آج اگر لوگ ’’دھنک‘‘ کو بھول گئے ہیں تو اردو صحافت میں یہ چمکتا ستارہ صحافت کے طالب علموں کو نظر آتا رہے گا اور ایم اے ابلاغیات کے امتحانی پرچوں میں اس حوالے سے سوالات بھی پوچھے جاتے ہوںگے۔ مگر مجھے اس سے کیا، سرور مجھے بہت پیارا تھا اور بہت پیارا ہے، ایسے دوست اور ایسے عالی دماغ ہمارے درمیان بہت کم ہیں۔ آخر میں ایک بات جو میں بھول گیا تھا، سرور اردو اور انگریزی کا بہت خوبصورت کالم نگار بھی ہے۔ مگر لکھنا چھوڑ گیا ہے، انگریزی کالم سے مجھے غرض نہیں، البتہ اردو کالم نہ لکھنے پر میں ذاتی طور پر اس کا شکر گزار ہوں، اس حوالے سے میری اچھی خاص عزت بنی ہوئی ہے، یہ خواہ مخواہ میرے رنگ میں بھنگ ڈالتا!

تازہ ترین