• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے شک غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔انسان کسی خاص علم اور معلومات کی بنیاد پر امکانات اخذ کر سکتا ہے۔علم الاعدادکے ایک معمولی طالب علم کی حیثیت سے امکان ظاہر کیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدارتی انتخابات جیت کر صدر بن سکتے ہیں۔اسی طرح کورونا وبا کے آنے سے کئی ماہ قبل کسی خطرناک وبا کا امکان ظاہر کیا تھا۔اسی طرح اور بھی کئی معاملات میں پہلے ہی ان کے بارے میں امکانات کا اظہار کیا تھا۔جو اللہ پاک کے فضل و کرم سے درست ثابت ہوئے۔اب امریکہ میں آنیوالے صدارتی انتخابات میں اس علم کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے امکانات فی الحال نظر نہیں آرہے ہیں۔ان کی ناکامی میں مد مقابل کی مقبولیت کے بجائے کسی خاتون کا کردار زیاد اہم ہو سکتا ہے۔صدر ٹرمپ کے مد مقابل کی کامیابی سے امریکی پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کا امکان تو نظر نہیں آتا البتہ پینٹا گون کا کردار مزید سخت ہو سکتا ہے۔نئے آنے والے امریکی صدر بھی اسرائیل کی پشت پناہی جاری رکھیں گے۔بلکہ اس میں مزید اضافہ کا امکان ہے۔امریکہ اور چین کے تعلقات میں کوئی خاص بہتری نظر نہیں آرہی ۔یہی صورت حال روس کے ساتھ نظر آرہی ہے۔امریکہ بالواسطہ یا بلا واسطہ کسی ملک یا خطے میں کسی بڑی جنگ کا اہم کردار بن سکتا ہے۔اسرائیل اور بعض عرب ممالک کے درمیان معاہدوں کا عرب ممالک کو بہت نقصان نظر آرہا ہے۔یہ معاہدے مشرق وسطیٰ میں کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔اسرائیل فلسطین کے ساتھ ساتھ دیگر عرب ممالک کے علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔اس بارے میں تازہ معلومات بھی یہی ہیں کہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر کام ہو رہا ہے اور آئندہ کسی مناسب وقت پر اس پر عمل درآمد شروع کیا جائے گا۔عرب ممالک نے اگر وقتی فائدہ کو سامنے رکھا تو ان کو بہت نقصان اور پچھتاوا ہو گا۔اس خطہ کے ایک بڑی جنگ کی لپیٹ میں آنے کے اشارے نظر آرہے ہیںجس میں ایران اور ترکی بھی شامل ہیں۔لیکن یہ جنگ صرف اسرائیل،عرب ممالک، ایران اور ترکی تک محدود نہیں ہوگی۔اس سے شام اور اردن بھی بری طرح متاثر ہونگے ۔اس سے پاکستان،بھارت ،افغانستان کے علاوہ یورپی ممالک بھی شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔اس جنگ کے اہم کرداروں میں امریکہ کے علاوہ چین،روس اور فرانس بھی شامل ہو سکتے ہیں۔افغانستان میں امن کوششوں کی کامیابی تو نظر آرہی ہے لیکن قیام امن کے بارے میں یقینی طور پر ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔بلکہ آنیوالے وقت میں مزید ابتری نظر آرہی ہے۔مودی حکومت کا خاتمہ،ہندوتوا کی ناکامی، بھارت کے ٹکڑے،خالصتان اور دیگر علیحدگی پسند تحریکوں اور کشمیریوں کی کامیابی کے واضح امکانات نظر آہے ہیں۔بھارت کسی بھی وقت پاکستان کے خلاف کوئی بڑا جارحانہ قدم اٹھا سکتا ہے۔جبکہ کورونا میں ایک بار پھر تیزی یا کسی اور وبا کے پھیلنے کے امکانات بھی ہیں۔افغانستان کے ساتھ سرحد پر حالات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔پاکستان میں معاشی صورتحال کچھ زیادہ تسلی بخش نظر نہیں آرہی ۔آنیوالے مہینوں میں صحافتی اور سیاسی طور پر حکومتی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔حکومت کو فوری طور پر انتقامی کارروائیاں ترک کر دینی چاہئیں۔ورنہ حالات انتہائی ناساز گار ہو سکتے ہیں۔حکومت کے آج کے بعض دوست کل کے مخالف نظر آرہے ہیں۔آنیوالے مہینوں میں لوگ بہت سی تبدیلیاں دیکھ سکتے ہیں۔وفاقی اور صوبائی سطح پر تبدیلیاں نظر آرہی ہیں۔کے پی کے میں وزیراعلیٰ محمود خان کی کرسی بھی ہل سکتی ہےاور بعض زیر عتاب افراد سرخرو ہو سکتے ہیں۔پنجاب میں بزدار حکومت کی بھرپور حمایت کے باوجود وزیراعلیٰ کا برقرار رہنا مشکل نظر آرہا ہے۔آنیوالے وقت میں حکومت میں شامل بعض دوست علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔میاں نواز شریف کی وطن واپسی فی الحال نظر نہیں آرہی۔وہ کسی مناسب وقت پر خود اچانک آسکتے ہیں۔مسلم لیگ (ن) پر شہباز شریف کی گرفت کمزور ہو سکتی ہے۔پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت تو برقرار رہ سکتی ہے لیکن مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔آنیوالے وقت میں صحافتی مشکلات میں خاطر خواہ کمی ہو سکتی ہے۔کئی قدغنیں ختم ہو سکتی ہیں لیکن مقررہ دائرہ اختیار میں رہنا لازمی ہوگا۔آنیوالے وقت میںملک کے سیاسی اور حکومتی نظام میں تبدیلیاں ہو سکتی ہیں،جن کو عوامی پذیرائی حاصل ہوگی اور ان تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کو داخلی طور پر امن،ترقی اور خارجی طور پر نمایاں کامیابیاں اور اہمیت حاصل ہو سکتی ہے۔ آنیوالے دنوں اور مہینوں میں کراچی سمیت دیگر شہروںمیں بیرونی دشمنوں کی کارروائیوں کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔اس لئے بیرونی کے ساتھ ساتھ اندرونی خطرات پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین