• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اُس وقت ندامت سے سر جھک گیا جب الجزیرہ کی نیوز ریڈر نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت نے اعلان کیا ہے کہ پورے بر اعظم افریقہ سے پولیو ختم ہو چکا ہے اور یہ کہ اب صرف دوملک رہ گئے ہیں جہاں بچوں کی ٹانگیں فالج کا شکار ہورہی ہیں۔ وہ دو ملک کون سے ہوں گے،قیاس کرنا مشکل نہیں۔ اس کرہ ارض پر افغانستان اور پاکستان سے آج بھی پولیوکے مریض سامنے آرہے ہیں۔افریقہ پر حیرت ہوتی ہے، ہم اسکول میں پڑھا کرتے تھے کہ افریقہ کو ’تاریک بر اعظم‘ بھی کہا جاتا ہے۔ واقعی دنیا کے نقشے پر دیکھیں تو ایک لق و دق خطہ دکھائی دیتا ہے جس میں ہر طرف مفلسی، بد حالی اور بدنظمی نظر آتی تھی ، آج یوں لگتا ہے کہ اُسی افریقہ کے کئی ملک پاکستان سے آگے نکل چکے ہیں۔ ذرا تصور کیجئے کہ افریقہ کے کئی ملک اپنے ہاں پلاسٹک کے تھیلوں کا مکمل صفایا کرنے میں کامیا ب ہوچکے ہیں۔افریقہ والوں نے اپنی سر زمین سے پولیو کا مکمل خاتمہ کرنے کے لئے ایسی تن من دھن کی بازی لگائی کہ آج دنیا کو یہ نوید سنائی جارہی ہے کہ بر اعظم افریقہ پولیو سے پاک ہو چکا ہے۔ہم مہینوں سے ٹیلی وژن پر وہاں کے رضا کاروں کو مشقت کرتے دیکھتے رہے کہ کس طرح جنگلوں بیابانوںمیں جا کر بچوں کو پولیو کے ٰقطرے پلا رہے ہیں۔یہاں ہم یہ اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ پاکستان میں بھی رضاکاروں نے بڑے بڑے دکھ جھیل کر گھر گھر جاکر بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے۔مگر افریقہ ایک معاملے میں ہم سے بازی لے گیا۔ ہم سمجھا کرتے تھے کہ تاریک بر اعظم ہے تو وہاں کے لوگ جہالت کی تاریکی میں ڈوبے ہوں گے۔ مگر وہ ہم سے زیادہ باشعور نکلے۔ وہاں کسی نے یہ نعرہ نہیں لگایا کہ قطر ے پینے سے بچے مرجاتے ہیں یا بڑے ہوکر وہ بچے پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجائیں گے۔جہاں تک ہمیں معلوم ہے ،افریقہ کی مسجدوں سے یہ اعلان نہیں ہوا کہ پولیو کی روک تھام کے قطر ے پلانا شریعت کے خلاف ہے۔ وہاں یہ بھی نہیں ہوا کہ مدرسے کے بچوں سے اداکاری کرائی گئی ہو کہ وہ درد سے تڑپنے کا منظر پیش کرکے کہیںکہ ہمیں قطرے پلائے گئے تھے۔ اور تو اور، وہاں جہالت کا ایک عمل بالکل نہیں کیا گیا، یعنی قطرے پلانے والوں پر گولی نہیں چلائی گئی۔ بے چارے پاکستانی رضاکاروں کے ساتھ باوردی محافظ بھیجے گئے، ان محافظوں کی جانیں بھی خطرے میں پڑیں۔ مگر شاباش ہے ان مردوں اور خواتین کو جو ہر طر ح کے خوف اور اندیشوں کے باوجود گلی گلی محلے محلے گئے ، ہر دروازے پر دستک دی، کہیں ان کی پذیرائی ہوئی تو کہیں توہین کی گئی۔

میں اس جوان لڑکی کو عمر بھر نہیں بھول سکتا جس کا ذکر میں نے کئی برس پہلے ان ہی کالموں میں کیا تھا۔ وہ نہا دھوکر اجلا لباس پہن کر ، پیروں کے ناخنوں پربہت سلیقے سے نیل پالش لگا کر قطرے پلانے گھر سے نکلی ،ماں نے اسے کتنی دعائیں دے کر رخصت کیا ہوگا مگر کسی بدبخت نے اسے گولی ماردی۔ خبروں میں لڑکی کی میت دکھائی گئی۔اس کے اوپر چادر پڑی ہوئی تھی جس میں سے اس کے صاف ستھرے پاؤں باہر نکلے ہوئے تھے ۔ مجھے اس پر ٹوٹ کر پیار آیا۔ اس روز میرے کالم کا عنوان تھا: بچی کے پاؤں چومنے کی خواہش۔

کچھ روز ہوئے ایک انٹرویو میں مجھ سے سوال کیا گیا کہ آپ پاکستان کے ساتھ بڑے ہوئے ہیں، آپ نے یہ پورا دور دیکھا ہے، آپ کیا محسوس کرتے ہیں حالات بہتری کی طرف جا رہے ہیں؟۔ میں نے کہا کہ جس معاشرے میں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والوں کو ماردیا جاتا ہو،میں کیسے مان لوں کہ اس کے تابناک زمانے آنے والے ہیں۔

ہمیں کثر ت سے ایسے لوگ نظر آتے ہیں جنہیں بچپن میں پولیو نے ڈسا ہوگا اور وہ بے چارے آج تک معذور اور لاچار ہیں۔ لوگوں کو نہیں معلوم کہ دنیا میں پولیو کی کوئی دوا نہیں تھی۔لوگ اس مرض کے آگے بے بس تھے۔ کسی کو پولیو لگ جائے تو لوگ صرف دعا کرکے رہ جاتے تھے۔ پھر رات دن ایک کرکے سائنس دانوں کو کامیابی نصیب ہوئی اور ویکسین بھی ایسی ایجاد ہوئی جس کے انجکشن لگانے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے قطرے منہ میں ٹپکا دینا ہی کافی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انسان کو سائنس کا یہ بہت بڑا تحفہ تھا۔ایک بار جب طے ہوگیا کہ منہ سے پلائی جانے والی یہ ویکسین بلا کی تاثیر رکھتی ہے اور اس کے مضر اثرات بھی نہیں ہیں تو باشعورقوموں نے اپنی سر زمین سے پولیو کا یکسر صفایا کردیا ۔ او رایک ہم ہیں کہ ہمیںکیسے کیسے واہموں نے گھیر رکھا ہے ۔لوگوں نے دل سے گھڑ کر اس ویکسین میں سو برائیاں نکال لیں، اوپر سے غضب یہ کہ انہیں ان کی بات سننے والا ایسا مجمع مل گیا جو ان کے لغو نظریات کا قائل بھی ہوگیا۔اسی کا نتیجہ ہے کہ آج بھی پاکستان میں پولیو زدہ کتنے ہی لوگ نظر آتے ہیں۔ اس پر وہ خاتون یاد آئیں جو اپنے علاقے میں قطرے پلانے کی مہم کی نگراں ہیں اور خود بھی پولیو کی مریضہ رہ چکی ہیں مگر اپنی معذوری کے باوجود بے حد ہمت اور لگن سے اپنی ٹیم کو ساتھ لے کر مسلسل آگے بڑھ رہی ہیں ۔

بس اب دنیاکی نگاہیں ان لیبارٹریز پر لگی ہیں جہاں کورونا وائرس کا ٹیکہ تیار کرنے والے سائنس داں اپنے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔اس وائرس کی زد میں آئی ہوئی پوری دنیا بڑی بے چینی سے اس دن کی منتظر ہے جب کورونا کی دوا ساری کڑی آزمائشوں سے گزر کر اس شان سے نمودار ہوگی کہ ایک عالم سکھ کا سانس لے گا۔کورونا کی ویکسین بن جائے گی تو اور کچھ ہو نہ ہو، ہم اپنے چاہنے والوں کو گلے سے تو لگا سکیں گے، وہ بھی کسی نقاب کے بغیر۔

تازہ ترین