• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نصیر احمد ناصر نے ایک جگہ لکھا ہے ’’ آج جب میں اس وقت کی عمر کے نواسے کو دیکھتا ہوں۔ وہ میری طرح ٹاٹ پر نہیں بیٹھتا، وہ کارٹون والے پروگرام دیکھتا ہے اس نے بارش کے بعد کیچوے اور مینڈک کے بچے نہیں دیکھے۔ اُسے اُردوکا ایک فقرہ بھی صحیح طرح لکھنا نہیں آتا ہے‘‘

یہ پیرا گراف پڑھتے اور لکھتے ہوئے مجھے شفقت محمود بہت یاد آئے وہ اگر ٹاٹ پر نہیں پڑھتے رہے تو آج کے 60 فیصد ٹاٹ پر ہی بیٹھتے ہیں۔ مجھے شاہ عالی کا وہ اسکول یاد ہے جہاں نہ کوئی اسٹول تھانہ میز، کرسی ہر بچہ اپنی اینٹ لے کر آتا تھا۔ وہ اینٹ ساتھ واپس لے جاتا تھا اور یوں سارے بچے یا تو چھت پر یا کھلے صحن میں بیٹھ کر پڑھتے ۔ آج بھی پیڑ کے نیچے دیہات میں اسکول کے بچے سردی ہو یا گرمی، زمین پر بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔ میرے جتنے پرانے بڑے لکھنے والے ہیں۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں میں دو باتیں لکھی ہیں۔ ایک تو پیدل کئی کئی کوس پر اسکول جانا پڑتا تھا۔ دوسرے انگریزوں کے زمانے کے اسکولوں میں بھی بینچ ہوتے تھے جن پر دو یا تین بچے بیٹھا کرتے تھے۔ تختی لکھنا تو ہمارے زمانے تک قائم تھا۔ چار لائنوں کے کاغذ پر انگریزی کے حروف لکھنا سیکھتے تھے۔

اب آئیے دینی مدرسوں کے بچوں کا آنکھوں دیکھا احوال بھی سن لیں۔ شمالی علاقے میں باجوڑ سے لیکر مٹھی یا کرک کے مدرسوں میں بچے، سر ہلا ہلا کر اسٹول پہ رکھا قرآن حفظ کر رہے ہوتے ہیں یا پھر بغیر معانی کے پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اب نئے نصاب کے تحت سارے ملک کے سارے بچے، یکساں نصاب میں کیا اپنے شہر کی تاریخ اور جغرافیہ پڑھیں گے عربی پڑھانے کا بخار تو ضیاء الحق کے زمانے میں چڑھا تھا۔ نوکری کے لئے مزدوروں اور نوجوانوں کو سعودی عرب جانا تھا۔ خدا کرے ان کی نوکریاں سلامت رہیں۔ رہے بچے وہ تو پہلے ہی بھاری بستوں، ایک مضمون کی چار چار کاپیوں کو سنبھالتے، ویگنوں میں جاتے ہیں۔ لازمی مضامین میں اُردو، انگریزی کے علاوہ، عربی یا فارسی یا کوئی اور مغربی زبان نہیں تو چینی سیکھنے کی چوائس دی جاتی کہ نوکری کے ذرائع سی پیک کے ذریعہ پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔ اس وقت جو میڈیا کے ذریعہ بچوں کو تعلیم دی جا رہی ہے وہ نامکمل اس لئے رہتی ہے کہ آدھے اسکولوں میں بجلی نہیں۔ اگر بجلی ہے تو کمپیوٹر نہیں۔ اس وقت آن لائن پڑھانے کے تجربات کالجوں میں بھی، بہت اچھے نتائج اس لئے نہیں دے رہے کہ تمام بچے توجہ نہیں دیتے۔ پھر وہ جو اسکول یاکالج میں سوال جواب کا سیشن ہوتا تھا تو وہ مزا بھی نہیں۔

اب بتائیں بچے اچانک نئے نصاب میں بھی رٹا لگائیں گے۔ صحت اور بدن کی صفائی کیسے قائم رکھیں گے کہ بہت سے سرکاری اسکولوں میں بھی باتھ رومز نہیں ہیں۔ کئی جگہ خاص کر بلوچستان، تھرپارکر میں بھی ابھی پانی کے پمپس لگائے جا رہے ہیں۔ اسکولوں میں صحیح باتھ رومز نہ ہونے کے باعث، خاص طور پر لڑکیاں پانی ہی نہیں پیتی ہیں یوں صحت کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ ہائی جین کے علاوہ شہری حقوق، بچوں کے حقوق اور خواتین کے حقوق کے کیا علیحدہ باب ہوں گے تو کیا یونان سے لے کر اسپین میں جو قبل از مسیح بھی ہیں۔ کیا ان فلاسفر کا اور خواتین کا ہلکا سا تعارف بھی کرایا جائے گا کہ بچوں کے ذہنی اُفق روشن ہوں۔ پھر اسماعیل میرٹھی اور صوفی تبسم کی نظموں کے علاوہ کیا سعدی کی حکایات بھی پڑھائی جائیں گی۔ ابھی تک موجود نصاب کی کتابیں غلطیوں کے باعث واپس لی جا رہی ہیں۔ دُنیا بھر میں مذہبی نصاب آپشنل ہوتا ہے کہ آپ راغب ہوں تو ضرور پڑھیں۔ اب تو یہ حال ہے کہ عدالت کو کہا جا رہا ہے کہ دوسری شادی کی مرد کو اجازت ہونی چاہئے لڑکی کو بس یہ کہہ کر بڑا کیا جاتا ہے کہ تمہاری شادی ہونی ہے۔ شادی میں ازدواجی ذمہ داری اور جسمانی تبدیلیوں کا ذکر اب تک تو نصاب کا حصہ نہیں ہے۔ والدین بتاتے ہوئے شرماتے ہیں۔ اپنی مدد آپ کے تحت منصوبے بھی بچوں کو اپنے گھر اور اپنے علاقے کے لئے کام کی ذمہ داری کا احساس، اس کا یہ مطلب نہیں کہ جیسے بہت سے استاد، بچوں سے اسکول کی صفائی کرواتے ہیں۔ یہ رویہ بھی غلط ہے مگر نصاب یکساں ہے تو پھر یہ سارے مضامین کون حوصلے والے استاد پڑھا سکیں گے۔ جبکہ ہمارے اساتذہ کا بھی خیال کرنا ہے ان کے Refresher کورسز اور پھر تنخواہوں میں اضافے اور ادائیگی میں باقاعدگی پیدا کرنا، تعلیم کے شعبے کی ذمہ داری ہے۔

سیلابی بارشوں کے دورمیںاس وقت کون مستعد ہے! ہماری فوج کے جوان، وہ ٹائیگر فورس کہاں ہے۔ وہ منتخب نمائندے جو روز ٹی وی پر بول رہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے علاقے میں جا کر کیا کر رہے ہیں۔ ایدھی، چھیپا کے رضاکاروں کو کام کرتے، لوگوں کے گھروں میں کھانا تک پہنچاتے دیکھ رہے ہیں۔کہاں ہیں سار ے رفاہی ادارے جو رمضان میں زکوٰۃ مانگتے ہیں۔ میرے بچے بجلی کی ننگی تاروں کا شکار نہ ہوتےاگر انتظامیہ کام کرتی تو بقول امر جلیل کے کراچی دنیا کے بہترین شہروں میں شمار ہوتا۔ اگر ہم نے موسمی تبدیلیوں کو کہ جو بڑھتی جا رہی ہیں ان کو انفرادی، ملکی اور نصابی سطح پر ذہن میں نہیں رکھا تو نقصان کسی اور کا نہیں، ہمارا اپنا ہو گا۔کراچی کے بارش کے بعد کے حالات دیکھ کر، ایک بات ہر شہری لازمی بنائے کہ کچرا گھر سے باہر نہیں پھینکنا۔ حکومت ہر گلی کے نکڑ پر ایک ڈبہ رکھے جس میں لوگ کچرا ڈالا کریں۔ یہ روزمرہ کی باتیں ہیں پر کیا آپ کو یاد ہیں؟

تازہ ترین