• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر خیال امروہوی نے1985 میں ایک مقالہ لکھا تھا’’38سالہ تلخ تجزیہــ‘‘اُس وقت پاکستان بنے 38سال ہوچکے تھے،جس کے بعد ہم مزید 35سال کا سفر طے کرچکے ہیں،حیران کن امر مگر یہ ہے کہ تجزیے میں جن مسائل کا ذکر کیا گیا وہ نہ صرف جوں کے توں موجود ہیں بلکہ ہم مزید تنزلی کا شکار ہوچکےہیں۔بنابریں اس سے بھی قابل افسوس وہ ویڈیو ہے جو بارشوں کے بعد سوشل میڈیا سمیت قومی میڈیا پر بار بار دکھائی گئی ،یہ ایوب خان کے دور کی تھی جس میں کراچی میں شدید بارش کے بعد گھٹنوں گھٹنوں کھڑے پانی میں لوگ سڑکوں پر گاڑیوں کو دھکا دے رہے تھے۔یعنی جو صورتحال 60کی دہائی میں اس شہر اور ملک کی تھی چھ عشرے گزرنے کے باوجود ہم ترقی تو کیا کرتے کہ مزید انحطاط کا شکار نظر آتے ہیںجبکہ ہمارے بعد آزادی حاصل کرنے والے ممالک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوچکے ہیں ۔ اور تو اور ہم سے آزادی حاصل کرنے والے بنگلہ دیش سے متعلق ماہرین معاشیات کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان کو بنگلہ دیش کی موجودہ ترقی تک پہنچنے کیلئے مزید 10سال درکار ہیں،مگروہ یہ سوال بھی اُٹھاتے ہیں کہ ان دس سالوںمیں پھر بنگلہ دیش ترقی کے سفر میں کتنا آگے پہنچ گیا ہوگا۔آئیے خیال امروہوی کے مقالے کی کچھ سطور میں ماضی وحال میں مطابقت تلاش کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں ’’ہمارے ملک کی38سالہ تاریخ کے اوراق انسانی استحصا ل کے ایسے بھیانک واقعات سے بھرے ہوئے ہیں کہ غالباً سابقہ اقوا م کے تین ہزار سال بھی اس کی برابری نہ کرسکیں، 38سال سے بے مقصد معاشی نظام نے یہاں کے تمدن کو وہ کوڑھ دیا جو کسی بقراط کے نسخے سے بھی دور نہیں ہوسکتا،لوٹ کھسوٹ، جابرانہ ہتھکنڈوںنے افرادی قوت کو اس طرح منتشر مفلس وقلاش بنادیا ہے کہ یہاں انسان کا سانس لینا حرام ہے۔یہاں دین اسلام’’جمہوریت‘‘ سوشلزم ،ملکی سلامتی کے نام پر کیا کچھ کارنامے انجام نہیں دئیے گئے، اربوں روپیہ کس طرح مفلس آبادی کی جیبوں سے نکال کر غیر ملکی بینکوںمیں جمع کردیا گیا۔ پاکستانی عوام اسی طرح (بالادست طبقات)کے غلام ہیں جس طرح یونان،کارتھیج اور روما کی حکومتوںمیں ہوتے تھے۔ آج بھی پاکستان کا مسلمان ،مہاجن اور یہودی کی طرح سرمائے پر اژدھا بنا بیٹھا ہے۔ آج بھی لاکھوں بے روزگار مفلس اور سیلاب زدہ مخلوق خدا ہی کو پکار رہی ہے لیکن ’’خدا والے‘‘آج بھی انہیں یہی تسلی دے رہے ہیں کہ تمہارے مقدر میں جو لکھ دیا گیا اس پر صابر و شاکر رہو،38سال کی افسر شاہی نے پاکستانی تمدن کو اس طرح روند ڈالا ہے جس طرح ابرہہ کے خونخوار ہاتھی اپنی فوج کو کچلتے ہوئے نکل گئے تھے۔ہمارے پلاننگ ڈویژن اور محنت کے محکموں نے افرادی قوت کو اس طرح برباد مفلس اور بے روزگارکردیا ہے کہ قوم عاد، ثمود، عمالقہ اور قوم لوط کی بربادی بھی اس بربادی کے مقابلےمیں صفر کادرجہ رکھتی ہے۔تحفظ خویش ،ذاتی منفعت اور لاقانونیت کے اس طوفان میں پاکستانی ’’آئیڈیالوجی ‘‘چیونٹی کی طرح رینگتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ کس قسم کی اطاعت ہے جو انسان کو چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پیسے چلی جارہی ہے اور اس کا کوئی حل نظر نہیں آرہا،اس میں کوئی شک نہیں کہ قوموں کے بنتے سنورتے دیر لگتی ہے لیکن بننا اور سنورنا تو اس وقت ہی ممکن ہےجب بگاڑ کم اور بنائو کا رحجان زیادہ ہو، 38سال سے یہ ملک قرضوں وخیرات پر پل رہا ہے،اس دوران ہم اس قابل نہ ہوسکے کہ اپنی زندگی کو کسی مثبت نظام کے تحت تشکیل دے سکیں،یہاں عوام کے اختیار میںکچھ بھی نہیں، سب کچھ دولت مندوں اور بااختیار لوگوں کے قبضے میں ہے۔ذرائع ابلاغ سے روزانہ قوالیوں (ترانوں) سے کیا ہم اپنے معاشی نظم کو بدل دینگے،یا اس کیلئے انقلابی جہاد کی ضرورت ہے؟یہ نہیں ہوسکتا کہ بارشوں میں سیلاب بدوش دریا مخلوق کو بہا بھی لے جائیں اور نالائق انجینئراور خو د غرض افسران و منافع خور ٹھیکیداروں کا وجود بھی قائم رہے،چنانچہ اس مضحکہ خیز صورت حال میں اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ ہم ایک فلاحی ریاست کے مالک ہیں،توکیا یہ دعویٰ قابل قبول ہوگا؟‘‘

اس تجزئیےسے یہ واضح کرنا مقصود ہےکہ ہم قیام پاکستان کے 38سال بعد جہاں تھے اب 73سال بعد بھی وہی کے وہی ہیں ،بلکہ مزیدتباہیوں سے دوچارہیں۔ کیا سوال کیا جاسکتاہے کہ اس تباہی کے ذمہ دار کون ہیں ۔جب بڑے بڑے محلات ،سیم وزر رکھنے والوں سے پوچھا جاتاہے کہ یہ رقم کیسے کمائی تو جواب ملتاہے کہ یہ حق حلال کی ہے،تو اگرپاکستان کے سب اختیارمند پارساہی ہیں تو پھر یہ کون ہیں جنہوں نے ملک وعوام کو اس حالت تک پہنچادیا ہے!!

تازہ ترین