• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے جمہوریت کا استحکام اور آئین کی بالا دستی ضروری ہے۔ ملک وقوم کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ گزشتہ 74 برسوں میں کوئی بھی ایسی حکومت برسراقتدارنہیں آئی جس میں جاگیرداروں سرمایہ داروں اوروڈیروں کی شمولیت نہ ہو۔المیہ یہ ہے کہ ملک میں چہرے بدلتے رہےمگرآج تک نظام نہیں بدلا۔عوامی ووٹ لے کر آنے والوں نے ظالمانہ نظام کے خاتمے کی بجائے اسے مضبوط کیا۔چیف جسٹس سپریم کورٹ گلزار احمد نے درست کہا ہے کہ حکومت کے پاس اہلیت ہی نہیں ہے ایک طرف پاکستان میں پرائیوٹ اداروں کی اجارہ داری جبکہ دوسری طرف حکومت سرکاری اداروں کو اپنے پاؤں پر کھڑے کرنے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہے۔ 2020-2019کے مالی سال کے دوران پاکستان پر قرضوں کے بوجھ میں 4340ارب روپے کا اضافہ ہو ا ہے۔ مجموعی قرضوں اورواجبات کی کل مالیت 44ہزار 563ارب کی بلندترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے یومیہ 11ارب 89کروڑ روپے کے قرضے حاصل کئے ہیں۔ حکومت نے دوسال میں مجموعی طورپر 14ہزار 684ارب کا قرض حاصل کیا ہے۔جس احتساب کا نعرہ حکومت نے بلند کیا تھا وہ متنازعہ ہوچکا ہے۔ محکمے تباہ حال ہیں اور کرپٹ عناصر نے اپنے ریٹ مقرر کررکھے ہیں۔ جب تک ہم اس استحصالی نظام سے چھٹکارا حاصل نہیں کریں گے اس وقت تک ملک میں حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ کسی بھی ملک اوراس کے عوام کی ترقی وخوشحالی کا دارومدار جمہوری طرزحکمرانی پر ہوتاہے۔موجودہ نظام پر عوام کاکھویا ہوااعتماددوبارہ بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں آپس کے تمام اختلافات بھلاکر وسیع ترقومی مفاد میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا تاکہ ملک خوشحالی اور ترقی کی جانب گامزن ہوسکے۔ حکمرانوں کے احتساب کے ساتھ ساتھ جمہوری سسٹم کا مسلسل چلتے رہنا بھی از حدضروری ہے۔ماورائے قانون اقدامات سے نہ کبھی مثبت تبدیلی آئی ہے اور نہ کبھی آئے گی۔ ملک میں آئین وقانون اور جمہوریت کی بالادستی ترقی کی ضامن ہے۔ پیچیدہ حالات کوسلجھانے کے لئے تمام سیاسی جماعتیں اپنامثبت کردار اداکریں۔ ماضی میں بھی حکومت اور اپوزیشن کے مابین محاذ آرائی نے غیر جمہوری قوتوں کواقتدار کی راہ دکھائی تھی۔اب بھی حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ایسے حالات پیدانہیں کرنے چاہئیں کہ جس کے نتیجے میں جمہوریت کونقصان پہنچے۔ اداروں کے خلاف محاذ آرائی ملک کو عدم استحکام کی طرف لے جائے گی۔حکومت کی جانب سے گیس کی قیمتوں کو کم کرنے کے فیصلے کو موخر کرنا عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے مترادف ہے۔جون اور جولائی کے بل تین تین ہزار بھجوانا ناقابل فہم ہے۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پہلے ہی سے پس رہے ہیں، رہی سہی کسر گیس کے بلوں نے پوری کردی ہے۔ سرکاری دفاتر پر ٹائیگر فورس کی نگرانی سے مسائل جنم لیں گے جب تک اقتدار میں عوام کے حقیقی نمائندوں کو شریک نہیں کیا جائے گا اس وقت تک بہتر ی کے اثرات نظر نہیں آسکتے۔

حکومتی بد انتظامی سندھ سمیت ہر جگہ دکھائی دے رہی ہے۔کراچی،لاہور، خیبرپختونخوا اور بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں مسلسل بارشوں نے تباہی مچا دی ہے۔ملک بھر میں حالیہ بارشوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ گئی ہے جبکہ 49افراد زخمی ہوئے ہیں۔ابھی آئندہ مون سون کے سیزن کی آخری بارشوں میں کراچی سمیت ملک کے دیگر حصوں میں مزید نقصانات کا خطرہ ہے۔حکومتی اقدامات بھی محض دعوئوں تک ہی محدود ہو چکے ہیں، عوام پریشان حال ہیں۔ پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 30دن کی ہے۔پاکستان میں ڈیم نہ بننے کی وجہ سے سالانہ 21ارب ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں شامل ہو جاتا ہے۔پاکستان میں پانی ذخیرے کرنے کے لئے دو بڑے ڈیم تربیلا اور منگلا میں بھی مٹی بھرنے کی وجہ سے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہو رہی ہے۔ نئے آبی ذخائر کی تعمیر کیلئے بھی تمام جماعتوں کے مدبرین، آبی ماہرین اور انجینئرز کی مشاورت سے ، علاقائیت سے بالاتر ہو کر فیصلے کریں۔کراچی میں بھی بارشوں نے صوبائی حکومت کی نااہلی کا پول کھول دیا ہے۔، پورا شہر ہی سیلاب کا منظر پیش کررہا تھا۔ لوگوں کی کروڑوں روپے کی املاک کو نقصان اور وہ خود نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے۔ بدقسمتی سے صوبائی اور وفاقی حکومت مشکل کی اس گھڑی میں بھی سیاست میں مصروف رہے۔ ہر سال مون سون آتا ہے اور ہر دفعہ ہی حکومت بلند و بانگ دعوے کرتی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ ہر مرتبہ انفراسٹرکچر کو بہتر کرنے کی بجائے محض زبانی کلامی اقدامات سے کام چلایا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ سیلاب اور تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔ محکمہ موسمیات کی وارننگ کے باوجود کراچی کی ضلعی انتظامیہ صوبائی حکومت، مئیر کراچی وسیم اختر اور وفاق نے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیںکئے اوراب بارشوں سے ہونے والے نقصانات اور تباہی کا سارا ملبہ ایک دوسرے پر ڈال کر بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں۔ کراچی میں بارشوں کا نوے سالہ ریکارڈ ٹوٹا ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور اتنے ہی بڑے مسائل کاشکا ر بھی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکمران ہی عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

تازہ ترین