• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گھنگھور گھٹائیں، کالے اُمنڈتے بادل، حبس آلود موسم میں بارش کی نوید لانے والی مرطوب ہوائیں، بادلوں کی گھن گرج، بجلی کی چمک، ٹین کی چھت پر بارش کے قطروں سے پیدا ہونے والی موسیقی کی جلترنگ، ساون کے جھولے، پکوان اور بارش میں نہاتے، چھینٹے اُڑاتے بچّوں کے قہقہے، یہ سب کچھ اب کتابوں، افسانوں، رومانی فلموں اور شعر و ادب ہی میں رہ گیا ہے۔ خُوب صُورت مناظر بھی کچرے اور تلچھٹ کی طرح بارشوں کے ریلے میں بہہ کر ماضی کا حصّہ بن گئے۔ 

خوش گوار موسم کا پیغام دینے والی مون سون کی بارشیں، آج پاکستان کی 90 فی صد آبادی کے لیے ایک ڈرائونا خواب ہیں۔ ساون اور برسات کی خُوب صُورت روایات قیامِ پاکستان کے بعد بہت عرصے تک ہماری سماجی زندگی کا حصّہ رہیں، لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے زمانہ بدل گیا۔ بارشوں اور سیلابوں نے جیسے ہمارے گھر کا رستہ دیکھ لیا۔ 1950 ء میں پہلی بار کسی بڑے سیلاب نے ہمارے دروازے پر دستک دی اور تب ہم نے دروازہ کیا کھولا، اب وہ دوبارہ بند ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔

آج حالت یہ ہے کہ بدمست سیلاب ہر سال، دو سال بعد زرعی اراضی، شہری املاک، انسانی جانوں اور مویشیوں کو تاراج کرتا اپنے پیچھے کئی الم ناک داستانیں چھوڑ جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں، یہ سیلابی پانی ہمارے حکم رانوں اور اداروں کی ناقص کارکردگی، حرص و ہوس اور خودغرضی کا بھانڈا بھی بیچ چوراہے پھوڑ دیتا ہے۔ پاکستان میں آنے والے ہر سیلاب نے صاحبانِ اختیار و اقتدار کے کئی راز ہائے درونِ خانہ افشا کیے ۔کم از کم 2020ء کے مون سون کی حالیہ طوفانی بارشوں نے تو ہماری غفلت، کوتاہی، نااہلی اور ناقص منصوبہ بندی کی ساری قلعی کھول کر رکھ دی۔

یہ قصّہ آج کا نہیں

مانا کہ ماضی کے قصّے دُہرانے کا کوئی فائدہ نہیں اور سانپ گزر جائے، تو لکیر پیٹنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، لیکن پاکستان میں آنے والے سیلابوں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے سے کم ازکم اِس سوال کا جواب تو تلاش کیا جاسکتا ہے کہ آخر ہم تباہی کے اِس سلسلے کے سامنے بند باندھنے میں کیوں ناکام رہے؟ اگر سیلابوں کی روک تھام اور شہروں میں بارش کے پانی کے نکاس کے میگا پراجیکٹس کے بعد بھی ہم 2020ء میں وہیں کھڑے ہیں، جہاں سے چلے تھے، تو اِس صُورتِ حال کے پسِ پردہ کون سے عوامل کارفرما ہیں؟ اگرچہ پاکستان میں سیلابوں کا سلسلہ 1950ء ہی میں شروع ہوگیا تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اِس میں تیزی آتی گئی۔ 1950ء میں پاکستان کو پہلی بار کسی بڑے اربن سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، جب مون سون کی بارشوں نے پورا پنجاب جَل تَھل کردیا۔ 

ان بارشوں میں 3000 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، جب کہ لاہور پانی میں ڈوب گیا اور راوی بے قابو ہو کر وسط شہر میں مال روڈ کو چُھونے لگا۔ اُس وقت پاکستان ابھی سنبھل رہا تھا، اِس لیے تباہ کاریاں بھی زیادہ ہوئیں، لیکن اُس کے بعد تو مون سون کی بارشوں اور سیلاب نے مستقل طور پر پاکستان کا رُخ کرلیا، جس کی تفصیل بلوچستان یونی ورسٹی کی محقّق، مصباح منظور نے اپنے ایک مقالے میں بیان کی ہے۔ اُن کے مطابق، مُلک میں 1950ء، 1955، 1956،1957،1958،1973،1975،1976، 1977، 1978، 1982، 1988، 1992، 1994، 1995،1997ء اور 2001ء میں بڑے سیلاب آئے۔

اُس کے بعد 2003ء سے 2007ء تک، پھر 2010ء اور 2011ء میں مُلک کو بڑے سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بعدازاں، 2018ء تک موسمی بارشوں نے عوام کو پریشان کیے رکھا۔ 2010ء کا سیلاب مُلکی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا، جس میں 2000 افراد جاں بحق اور ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اگرچہ اُس وقت تک مُلک میں 38 چھوٹے بڑے سیلاب آچُکے تھے، لیکن 2010ء کے سیلاب نے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ اُن دنوں آصف علی زرداری مُلک کے صدر اور یوسف رضا گیلانی وزیرِ اعظم تھے۔ سندھ، کے پی کے، بلوچستان اور پنجاب میں کپاس، گندم، چاول، گنے اور مکئی کی فصلیں تباہ ہوگئیں۔ماہرین نے بحالی کے لیے 15 ارب ڈالرز کا تخمینہ لگایا۔ 

صدر زرداری سیلاب کے دنوں میں غیر مُلکی دورے پر تھے، جس نے عوامی اشتعال کی آگ پر تیل کا کام کیا۔گو کہ اپوزیشن لیڈر، میاں نوازشریف نے حالات پر قابو پانے کے لیے حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا، لیکن یہ سب کچھ صرف بیانات کی حد تھا۔ اس سیلاب کے اثرات نے عوام کو برسوں اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ 2003ء میں صرف چند دنوں میں کراچی میں 284 اور ٹھٹھہ میں 400 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ ان طوفانی بارشوں میں 484 افراد جاں بحق ہوئے۔ 2007ء میں سندھ اور کے پی کے میں بارشوں سے 150 افراد جاں بحق ہوئے۔ 2011ء میں سندھ میں بارشوں سے 361 افراد جاں بحق اور 50 لاکھ بے گھر ہوگئے۔نیز، 17 لاکھ ایکڑ اراضی زیرِ آب آگئی۔ 2012ء میں کے پی کے، جنوبی پنجاب اور بالائی سندھ میں بارشوں کے باعث 1000 افراد جان کی بازی ہار گئے۔

پاکستان… سیلابوں کی سرزمین

پاکستان میں ہر سال، دو سال بعد مون سون بارشوں کے ہاتھوں ہونے والی تباہی کچھ عرصے بعد ماضی کی بھولی بسری کہانی بن جاتی ہے۔ حکومت ان سیلابوں سے کوئی سبق سیکھے بغیر، صرف چند دریائی یا نہری پُشتوں کو پختہ کروا کے سو جاتی ہے اور اُن میں بھی کرپشن کی داستانیں گونجتی رہتی ہیں۔ یہ نیند محکمۂ موسمیات کی اس وارننگ تک جاری رہتی ہے کہ’’ خلیجِ بنگال، بحیرۂ عرب اور بحرِ ہند میں بننے والا طوفانی سسٹم مُلک کے فلاں فلاں حصّوں کا رُخ کرسکتا ہے‘‘۔ حکم ران اس پر ہڑبڑا کر اُٹھتے ہیں، کچھ لیپا پوتی کرتے ہیں اور پھر لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ 

یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ آخر مون سون کی بارشیں پاکستان کا رُخ کیوں کرتی ہیں؟ اور کیا سخت موسم کے ہاتھوں تباہ کاریاں پاکستانی عوام کا مقدر بن چُکی ہیں؟ ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ میں اِس سوال کا جواب کچھ یوں دیا گیا ہے’’ پاکستان دنیا کے اُن 10ممالک میں شامل ہے، جنہیں ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ خلیجِ بنگال اور بحیرۂ عرب کی فضائوں میں موسمی تغیّرات کے نتیجے میں بننے والا سسٹم، پاکستان اور بھارت میں80 فی صد بارشوں کا سبب بنتا ہے۔ 

جب ساحلی علاقے( مکران اور کراچی وغیرہ) گرمیوں میں شدید گرم ہو جاتے ہیں، تو اُنہیں ہوا کے دبائو میں کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جسے پورا کرنے کے لیے سمندر کی مرطوب اور بارشی قطروں سے لبریز ہوائیں ساحلی شہروں کا رُخ کرتی ہیں اور بارش برساتے ہوئے مزید آگے نکل جاتی ہیں، لیکن پہاڑ اُن کا راستہ روک لیتے ہیں۔ یہ موسمی تغیّرات صرف جولائی سے ستمبر تک وجود میں آتے ہیں، جو مون سون کے مہینے کہلاتے ہیں۔‘‘ جاپان انٹرنیشنل کوآپریٹو ایجینسی کے چیف نمائندے نے 2017ء میں پاکستان میں اپنی نوعیت کے جدید ترین فلڈ وارننگ سسٹم کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ پاکستان دنیا کے اُن 10 ممالک میں شامل ہے، جہاں 1995ء سے 2014ء تک موسمی تبدیلیوں نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔‘‘ 

اُنہوں نے’’ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ’’2010ء، 2011ء، 2012ء اور 2014ء کے سیلابوں نے پاکستان میں 3 کروڑ افراد کو متاثر کیا۔ جب کہ 14 بلین ڈالرز کا نقصان ہوا۔‘‘ عالمی ادارے کی ایک اور رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ہر سال بارشوں اور سیلاب سے 7 لاکھ افراد کسی نہ کسی طرح متاثر ہوتے ہیں اور اگر حکومت نے روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے، تو 2030ء میں یہ تعداد 27 لاکھ ہو جائے گی۔‘‘

مون سون بارشیں، انسانوں کی قدیم ساتھی

درجۂ حرارت کے نتیجے میں سمندروں کے اوپر جنم لینے والے موسمی تغیّرات اور اس کے نتیجے میں سمندری ہوائوں کی ساحلی مقامات پر طوفانی بارشیں، ایک ایسا موسمیاتی سلسلہ ہے، جو لاکھوں برسوں سے انسانوں کا ہم رکاب ہے۔ یہ موسمیاتی تغیّرات دنیا کے مختلف خطّوں میں کبھی سونامی اور کبھی قطرینہ کے نام سے تباہی مچاتے ہیں۔ 

ماہرینِ موسمیات کے مطابق، برّصغیر پاک وہند اور جنوب مشرقی ایشیا میں کم از کم 50لاکھ سال سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ برّصغیر میں مون سون کی اصطلاح سب سے پہلے برطانوی راج میں مقبول ہوئی۔مون سون کے لفظ کا ماخذ ایک ولندیزی لفظ’’ MONCAO ‘‘ہے۔ جولائی سے ستمبر تک رہنے والا مون سون اپنے ساتھ بارش کا ایک سسٹم لاتا ہے، جو بالعموم حبس اور گرمی کے مارے لوگوں کے لیے راحت اور آرام کا باعث بنتا ہے۔ 

کاشت کاروں اور زمین داروں کے چہرے کالی گھٹائیں دیکھ کر کِھل اُٹھتے ہیں۔ صحرائے تھر اور چولستان پر جب بارش کے چھینٹے پڑتے ہیں، تو ریگستان بھی گل و گلزار ہو جاتے ہیں۔ خریف کی فصلوں کا انحصار اِنہی بارشوں پر ہوتا ہے، جن میں چاول، مکئی، باجرہ، گنّا اور کپاس جیسی فصلیں شامل ہیں۔ بارش نہ ہو تو خشک سالی کے شکار کسانوں کی نگاہیں بار بار آسمان کی طرف اُٹھتی ہیں۔ بہرحال، یہ قدرت کا ایک پیچیدہ نظام ہے، اگر معمول سے زیادہ بارشیں ہوں، تو یہ سیلاب کی صُورت اختیار کر لیتی ہیں۔ 

کراچی میں ہونے والی حالیہ ریکارڈ بارشوں کی یہی توجیہہ پیش کی گئی۔دنیا کے کئی ممالک میں بارشوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والے فاضل پانی کو محفوظ کرکے مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے،لیکن پاکستان میں اِس طرح کے منصوبوں کے فقدان کی وجہ سے بارشیں رحمت کی بجائے زحمت اور عوام کے لیے وبالِ جان بن گئی ہیں۔

’’خودکردہ را علاج نیست‘‘

’’ خود کردہ را علاج نیست‘‘ یعنی’’ جو نقصان اپنے ہاتھوں سے کیا ہو، اُس کا کوئی علاج نہیں‘‘ یہ کہاوت مون سون کی بارشوں پر بھی صادق آتی ہے۔ پاکستان میں دریائی سیلاب اور مون سون بارشوں کے نتیجے میں تباہی کے بارے میں کی گئی تحقیق میں اِس کی درجنوں وجوہ بیان کی گئی ہیں، جن میں سے ایک بڑی وجہ پاکستان کے بڑے شہروں کا بے ہنگم اور بغیر کسی منصوبہ بندی پھیلاؤ ہے۔ 

نیز، ڈیمز کی عدم موجودی کو بھی سیلاب کا ایک بڑا سبب قرار دیا گیا ہے۔بارشوں سے تباہی کے اور بھی کئی عوامل ہیں، جنہوں نے عوام کو نفسیاتی طور پر یہاں تک متاثر کیا ہے کہ گھٹائیں دیکھتے ہی بڑے شہروں کے مکین خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ محقّق، مصباح منظور کے مطابق ’’دریا کے کناروں اور پہاڑوں کے ڈھلوانوں پر درختوں کی بے دریغ کٹائی بھی سیلابوں کی ایک اہم وجہ ہے۔‘‘ 2010ء کے سیلاب کی تباہ کاریوں پر تبصرہ کرتے ہوئے برطانوی اخبار، گارجین نے اپنی 12اگست 2010ء کی اشاعت میں کے پی کے کی ٹمبر مافیا کو اس کی ایک بڑی وجہ قرار دیا تھا، جس نے درختوں کو غیر قانونی طور پر کاٹ کر دریاؤں کو قدرتی اور حفاظتی پُشتوں سے محروم کیا۔ 

درخت ساحلی کٹائو کو روکنے میں بھی مددگار ہوتے ہیں۔ یہ مافیا درخت کاٹ کر دریائوں ہی کے ذریعے اُنہیں اسمگل کرتا ہے، جس سے پانی کے بہائو میں رکاوٹیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، اِس غیر قانونی کاروبار کو سندھ کے بعض وڈیروں کی بھی سرپرستی حاصل ہے۔ سندھ کے مجموعی رقبے کے صرف2,3 فی صد حصّے پر درخت ہیں۔ درخت کٹنے کی وجہ سے اِس علاقے کا قدرتی نظام (ECO SYSTEM) متاثر ہوا ہے۔علاوہ ازیں، نہروں اور دریاؤں میں مٹّی کی مقدار بڑھنے کی وجہ سے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم ہوتی جا رہی ہے۔ تربیلا اور منگلا پانی کی گنجائش کی کمی کے نقصان سے گزر چُکے ہیں، جن کی پانی کی گنجائش تقریباً 20 فی صد کم ہو چُکی ہے۔ 

جنگلات میں کمی کا یہ سلسلہ پورے پاکستان پر محیط ہے۔ رپورٹ کے مطابق، قیامِ پاکستان کے وقت اِس سرزمین کے 33 فی صد حصّے پر جنگلات تھے، جو اب کم ہو کر صرف چار پانچ فی صد رہ گئے ہیں۔ ٹمبر مافیا کے علاوہ نئی شہری آبادیوں کا قیام، فارمنگ، مویشیوں کی چراگاہیں اور ایندھن کے لیے درختوں کا استعمال اور بڑھتی سیّاحت سے بھی کئی مسائل نے جنم لیا ہے۔ یہ تمام عوامل ماحولیاتی نظام کو متاثر کرتے ہیں، جس کا بالواسطہ اثر بے قابو ہو جانے والی بارشوں اور دریائوں پر پڑتا ہے۔ بارش کا پانی سرکش ہو جائے، تو فصلیں، مویشی، کچّے گھر اور کاشت کار تو تباہ ہوتے ہی ہیں، راستے میں آنے والے بڑے بڑے شہر بھی تباہی کی زد میں آجاتے ہیں۔

شہروں کا بے ہنگم پھیلاؤ

گو کہ سیلاب سے چھوٹے شہر اور دیہات بھی متاثر ہوتے ہیں، لیکن بڑے شہروں میں تباہی بھی بڑی ہوتی ہے اور پھر یہ تباہی میڈیا کے ذریعے کچھ زیادہ ہی نمایاں ہوجاتی ہے۔ اِس ضمن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ آفات ارضی و سماوی کی تباہ کاریاں اپنی جگہ، لیکن اِن نقصانات میں انسان کا اپنا عمل دخل بھی کچھ کم نہیں۔یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہور میں شعبہ سٹی اینڈ ریجنل ٹائون پلاننگ کے اسسٹنٹ پروفیسر، ڈاکٹر محمّد عاصم نے اس مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان کے 90فی صد شہر بے ہنگم طور پر وجود میں آئے ہیں، سوائے لاہور کا قدیمی والڈ سٹی، انگریزوں کی قائم کی ہوئی جدید آبادیاں (سِول لائنز اور کنٹونمنٹ کے علاقے) یا پھر اسلام آباد۔ 

دنیا کے بیش تر ترقّی پذیر ممالک کے شہروں میں بھی یہ قانون ہے کہ مقامی کاؤنسل یا بلدیہ کی اجازت کے بغیر مکان تو کیا، ایک دیوار بھی نہیں بنا سکتے، لیکن ہمارا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ لاہور ہو یا کراچی، فیصل آباد ہو یا راول پنڈی، متعلقہ عملے کی مُٹھی گرم کرکے جو چاہے مرضی کروالیں۔ کراچی اور لاہور کے رہائشی علاقوں میں فیکٹریز، مارکیٹس، شادی ہالز اور نہ جانے کیسی کیسی عمارتیں قوانین کا منہ چِڑا رہی ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ ان عمارتوں میں نکاسیٔ آب کا مناسب انتظام نہیں۔رہائشی آبادیوں میں قائم کارخانوں کا زہریلا پانی زیرِ زمین جذب ہوکر یا پانی کے پائپوں میں شامل ہو کر اُسے زہر آلود کر رہا ہے۔ 

سو، بے ہنگم اور منصوبہ بندی کے بغیر شہروں کی توسیع کا جو نتیجہ نکلنا تھا، وہی کراچی، لاہور، پنڈی اور دوسرے شہروں میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کراچی کا تو حال یہ ہے کہ شہر کے اندر کئی شہر آباد ہو گئے ہیں اور نیا شہر بنانے کی بجائے اُسی میں نئے اضلاع بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، حالاں کہ شہری پلاننگ کا اصول یہ ہے کہ شہر کے اندر شہر بسانے کی بجائے اس کے ساتھ باغات پر مشتمل بفر زون قائم کیے جائیں تاکہ یہ اس میں گڈ مڈ نہ ہونے پائیں۔‘‘ ڈاکٹر محمّد عاصم کے خیال میں’’ پاکستان میں مون سون کی بارشیں شہروں کا جو حشر کرتی ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم نے ان کے ممکنہ نقصانات کے سدّباب کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا۔ اِس لیے بارشوں کو موردِ الزام ٹھہرانے کی بجائے ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔ دنیا میں ہر بڑا شہر ایک ماسٹر پلان کے تحت ترقّی کرتا ہے۔

ہمارے یہاں لاہور، کراچی دونوں اس پلان سے محروم ہیں یا اگر پلان ہیں، تو ان پر بھی عمل نہیں کیا جاتا۔ لاہور میں ماضی میں سمن آباد کے ساتھ ایک ڈونگی گرائونڈ بنایا گیا تھا، جہاں بارش کے دَوران نواحی علاقوں کا پانی جمع ہوتا تھا۔ بارش اور سیلابی پانی کو شہر کے مختلف علاقوں میں زیرِ زمین جمع کرنے کا سادہ سا اصول ہے، جس پر اب دنیا بھر میں عمل ہو رہا ہے۔ ٹوکیو میں زیرِ زمین ایک بہت بڑا ٹینک بنایا گیا ہے، جہاں بارشوں کے دوران پانی جمع ہوتا ہے۔ بعد ازاں، اس پانی کو چینلز کے ذریعے مختلف مقاصد، حتیٰ کہ ٹریٹ منٹ کے بعد پینے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک اور مُلک نے ایک بہت بڑی ٹنل بنائی ہے، جو عام دنوں میں ٹریفک کے لیے استعمال ہوتی ہے، لیکن بارش کے دنوں میں یہاں پانی اسٹور ہوتا ہے۔

لاہور میں چند ماہ قبل’’واسا‘‘ نے 14لاکھ گیلن پانی اسٹور کرنے کے لیے زیرِ زمین ٹینک بنایا، جو حالیہ بارش کے دوران بہت کارآمد ثابت ہوا۔ اس طرح کی دو مزید ذخیرہ گاہیں تاج پورہ اور شیرانوالہ گیٹ میں تعمیر کی جائیں گی، جہاں بارش کا پانی ہنگامی طور پر اسٹور کیا جاسکے گا۔ کراچی میں بھی اسی فارمولے پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح اُن ممالک نے جہاں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں یا مون سون سسٹم کے راستے میں پڑتے ہیں، مون سون کو زحمت کی بجائے رحمت میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس سسٹم کو’’ STORM WATER DRAIN‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے اور یہ پینے کے پانی کے دوسرے سسٹم سے بالکل الگ ہوتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے مزید کہا کہ’’اصل میں کراچی ہو یا لاہور،ہم مختلف مافیاز کے سامنے بے بس ہیں۔ ہمارے یہاں نئی بننے والی رہائشی کالونیوں اور پہلے سے موجود غیر قانونی کچّی آبادیوں نے مسئلہ زیادہ خراب کیا ہے، کیوں کہ اُن میں سیوریج اور نکاسی آب کا نظام سِرے سے موجود ہی نہیں۔ 

یہ گھروں کا آلودہ اور غلیظ پانی گلی، محلّوں میں یونہی بہنے دیتے ہیں، جس سے زیرِ زمین پانی بھی زہر آلود ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ لاہوریوں کی اکثریت گندے اور غلیظ پانی سے سیراب ہونے والی سبزیاں کھا رہی ہے۔ کراچی میں بھی صورتِ حال مختلف نہیں۔ جہاں پہلے کسی ایک عمارت میں چار لوگ رہتے تھے، اب وہاں 15افراد مقیم ہیں، لیکن ڈرینج سسٹم وہی پرانا اور ناقص ہے۔ یہی سبب ہے کہ اب مون سون کو انجوائے کرنے کی بجائے طرح طرح کے رُوح فرسا مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بارش کا پانی گھروں میں داخل ہونا معمول کی بات ہے۔یہ بِپھرا پانی بیش تر اوقات گھروں کا قیمتی سامان باہر بہتے پانی میں لے جاتا ہے۔دنیا کے بیش تر ممالک نے موسمی آفات کا حل تلاش کر لیا ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ان پر قابو پانے اور ان سے کام لینے کا ملکہ عطا کیا ہے۔ پاکستانی ماہرین بھی صلاحیتوں میں کسی سے کم نہیں، ہمارے یہی بھائی غیر ممالک میں کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔ 

چناں چہ پاکستان میں بھی موسمی بارشوں اور سیلابوں پر قابو پانا مشکل نہیں ہے۔ صرف نیک نیّتی، عزم و ہمّت، مُلک و قوم سے محبّت اور اخلاص کا ہونا شرط ہے۔ اگر حالیہ بارشوں کی تباہ کاریاں بھی ہمیں اور حکم رانوں کو بیدار نہ کر سکیں، تو پھر ہر شخص(چاہے وہ پوش آبادیوں کا مکین ہو یا پس ماندہ علاقوں میں رہتا ہو) بہتے پانیوں میں اپنا ڈوبتا سامان دیکھ کر آیندہ بھی یہی گنگناتا رہے گا؎’’اِک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو …مَیں ایک دریا کے پار اُترا تو مَیں نے دیکھا ۔‘‘

تازہ ترین