• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم جو اتنے مہذب نظر آتے ہیں،یہ نظر کا دھوکا ہے۔ہمارے اندر وہ وحشی چھپا ہوا ہے جو آگے چل کر دوٹانگوں پر کھڑا ہوا اور انسان کہلایا۔ہم جس بے رحمی سے گلی میں کھیلنے والی کسی نو خیز کلی جیسی بچی کو اٹھاتے ہیں، پھر اسے اپنے سفاک پیروں تلے روندتے ہیں، پھر اس کا سر پتھر سے پھوڑتے ہیں اور اس کی لاش کی اچھی طرح بے حرمتی کرنے کے لئے اسے کہیں اور نہیں، کچرے کے ڈھیر پر پھینکتے ہیں۔اس کے بعد خود کو تہذیب یافتہ بھی کہتے ہیں،جدید دنیا کی انتہائی ترقی یافتہ مخلوق قرار دیتے ہیں اور اپنے اوپر اشرف المخلوقات ہونے کا ٹھپہ تو ان ہی دنوںلگا لیا تھا جب غاروں میں رہتے تھے اور جانوروں کا گوشت بھون کر دانتوں سے نوچ نوچ کر کھا تے تھے۔

میں ڈارون کے نظریے سے پوری طرح متفق ہوں کہ ہماری نسل کبھی دونوں ٹانگوں اور دونوں ہاتھوں پر چلا کرتی ہوگی۔اسی کانتیجہ ہے کہ آج جب ہم سیدھے کھڑے ہوکر چلتے ہیں، اپنی ٹانگیں چلاتے ہیں جو سمجھ میں آتا ہے مگر ہم ہوا میں دونوں بازو کیوںچلاتے ہیں ۔ اس سے فاصلہ تو طے نہیں ہوتا۔ تو پھر ہو نہ ہو یہ ان ہی دنوں کی نشانی ہوئی جب ہمارے اسلاف ایک شاخ سے دوسری شاخ اور ایک ٹہنی سے دوسری ٹہنی پر جھولتے ہوئے چلا کرتے ہوں گے۔سب مانتے ہیں کہ پورے قد سے کھڑے ہونے سے پہلے ہم جھک کر چلا کرتے تھے۔ بعد میں ہم رفتہ فتہ ایستادہ ہوئے ، پھر پورے قد سے کھڑے تو ہوگئے لیکن آپ نے غور کیا ہے کہ ہم زیادہ دیر کھڑے ہونے سے گریز کرتے ہیں اور کہیں بھی جائیں، بیٹھنے کا ٹھکانا ڈھونڈتے ہیں۔ کھڑ ے رہیں تو کمر دکھنے لگتی ہے اورمنہ سے ہائے اور اُف کی آوازیں نکلتی ہیں۔میرا خیال ہے کہ اور لاکھ دو لاکھ سال بعد ہماری بار بار کرسی کی طلب ختم ہوجائے گی اور ہو سکتا ہے کہ ہم پورے طور پر انسان بن پائیں گے۔وہ کیسے اچھے دن ہوں گے جب بچے بے دھڑک گلیوںمیں کھیلیں گے اور محلے کی دکان سے بسکٹ لینے بلا خوف و خطر جا سکیں گے۔ جس رفتار سے ہم مہذب ہوتے جارہے ہیں، ممکن ہے لاکھ دو لاکھ سال بعد نہ صرف پھول جیسے بچے قتل نہیں ہوں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ بے دردی سے قتل کئے جانے والوں کی لاش پھینکنے کے لئے کچرے کےڈھیروں کاوجود ہی نہ ہو۔ایسےہی موقع پر کہا جاتا ہے: اے کاش۔

ہم انسان کی بے رحمی کی داستانیں کہنے پر آجائیں تو وہ کبھی ختم ہی نہ ہوں۔ اوپر سے یہ جو انٹر نیٹ اور موبائل فون میں لگے کیمرے کا عذا ب نازل ہوا ہے، انسان کی بے دردی اور بے رحمی کے منظر ہمارے گھروں کے اندر آگئے ہیں۔کہیں کسی کو سنگسار کیا جارہا ہے ،کہیں کسی کی گردن اتاری جارہی ہے،کہیں لوگ کٹے ہوئے سروں سے فٹ بال کھیل رہے ہیں۔ یہ اس زمانے کی بات نہیں جب مجرموں کو ہاتھی کے پاؤں تلے کچلا جاتا تھا، یہ ،آج کی ، ابھی کی، اسی وقت کی بات ہے۔ بربریت کی نمائش اور مظاہرے نہ صرف ہوتے ہیں بلکہ لوگ بیٹھ کر انہیں دیکھتے بھی ہیں۔ یہاں برطانیہ میں صرف ایک پاکستانی چینل ہے جس پر کوئی اذیت ناک منظر ہو تو چینل والے اس کو دھندلا کردیتے ہیں۔ میں دل ہی دل میں ان کی توصیف کرتا ہوں۔یہ بھی شاید برطانوی قانون اور دستور کی پاس داری کا نتیجہ ہے،ورنہ اپنی ہی بات دہراتا ہوں، اس کم بخت ڈیجیٹل نظام نے دنیا کو برہنہ کردیا ہے۔ لفظ برہنہ پر غور کیجئے ۔ یہ کوئی محاورہ نہیں ، یہ قواعد کی زبان میں روز مرہ ہے۔ دنیا برہنہ ہوگئی ہے جو پورنوگرافی کی شکل میں ہمارے خام ذہن کے لوگوں کے اعصاب کو وحشی بنا رہی ہے۔ ٹی وی پر، لیپ ٹاپ پر، اور سب سے بڑھ کر موبائل فون پر فحش فلموں اور تصویروں کا سیلاب سا چلا آتا ہے۔ رہی سہی کسر ہندوستان کی فلموں نے پوری کردی ہے۔ کسی زمانے میں ان کی چنری پر ایک داغ لگا کرتا تھا، اب یہ حال ہے کہ پوری چنری ہی آلودہ ہورہی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ کسی بڑی شاہراہ پر خرا ب ہوجانے والی کار سے خاتون کو اتار کر ان کے بچوں کے سامنے خاتون کی حرمت اور عفت کو تار تار کیا گیا اور اب کہیں آزاد گھوم رہے ہوں گے۔ ایسے میں جی تو بہت مچلتا ہے کہ مجرموں کے سرکچلنے والے ہاتھی کہیں سے لائے جائیں ورنہ توپیں تو کہیں گئی نہیں جن کے دہانے پرمجرم کو باندھ کر توپ دم کیا جاتا تھا۔ پورنو گرافی کا بند ہونا تو مشکل ہے، فحاشی کی نقالی کرنے والوں کو دھوپ میں تپتے ہوئے کنٹینروں میں یوں قید کیا جاسکتا ہے کہ ان کی سانسیں بند ہوجائیں اور ان بد بختوںکی لاشیں کچرے کے ڈھیر پر پھینکی جائیں جن کی خیر سے ملک میں کمی نہیں۔

پچھلے دنوں ایک سروے ہوا تھا جس سے پتہ چلا کہ دنیا کے جن ملکوں میں لوگ ذوق و شوق سے فحش فلمیں دیکھتے ہیں ان میں جو دس ملک سر فہرست ہیں ان میں نواسلامی ملک ہیں۔ اب یہ قیاس کرنا مشکل نہیں کہ جو اسلامی ملک آگے آگے ہیں ان میں ہم کس نمبر پر کھڑے ہیں اور دوسرے یہ کہ فحش فلمیں بڑھ چڑھ کر دیکھنے والا جو ایک ملک اسلامی نہیں، وہ خیر سے ایک لکیر پار واقع ہے، وہی چنری والا دیس۔

یہاں مغربی ملکوں میں زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب فحاشی ذریعہ روزگار بن گئی تھی؛ اس طرح کی فلمیں سینما گھروں میں بھی چلتی تھیں جنہیں دیکھنے ایک خلقت جایا کرتی تھی۔ اب اپنا احساسِ محرومی مٹانے کے دوسرے ڈھنگ نکل آئے ہیں اور کھلی نمائش کو لوگوں نے ڈھانپ لیا ہے۔

آخری بات کہتے ہوئے دل دکھتا ہے کہ انسانیت سوز مظالم کرنے والوں کو سرسری کارروائی کرکے دار پر لٹکایا گیا لیکن اس کا کسی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ایسی ہر واردات کے بعد کہا جاتا ہے کہ مجرم کو شہر کے چوک میں پھانسی دی جائے۔پھر خیال آتا ہے کہ جہاں لوگوں کی جِلد موٹی ہوجائے وہاں ایسے حربے کام نہیں آتے۔ ان لوگوں کو پھانسی کے تختے پر نہیں ، آپریشن کی ٹیبل پر چڑھایا جائے اور یوں کہ وہ عمر بھر معاشرے کو اپنا گھاؤ دکھاتا پھرے۔پھر دیکھتے ہیں کیسے بجتی ہے یہ بانسری، وہ بھی بے سُری۔

تازہ ترین