• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موٹروے سے زیادتی

وزیراعلیٰ پنجاب بزدار نے کہا ہے: موٹروے کیس خود دیکھ رہا ہوں، انصاف ہوتا نظر آئے گا جبکہ وزیراعظم کہتے ہیں: مجرموں کو سخت سزائیں دلوائیں گے۔ ہمارے ملک میں انصاف کے بجائے عبرت نظر آنی چاہئے، کیا یہ ممکن نہیں کہ مجرموں کو موٹروے پر ادھ موا لٹکا دیا جائے اور انہیں گھونٹ گھونٹ اذیت پلائی جائے، آج تک بڑے بڑے روح فرسا جرائم ہوئے مگر روح افزا سزائیں ملتی رہیں، اگر سزا بقدرِ جرم دی جاتی تو یہاں اس طرح کا ایک سے دوسرا جرم نہ ہوتا۔ سی سی پی او نے کہا خاتون آدھی رات کو موٹر وے سے کیوں گئی؟ اگر یہ صاحب دورِ فاروقی میں ہوتے تو کیا یہ ریمارکس دے پاتے؟ بزدار صاحب نے بھی سچ کہا کہ کیس خود دیکھ رہا ہوں مگر ہم کیا اگر مگر کریں کہ حکومت کی کارکردگی تارِ عنکبوت ہے، شاید دنیا کی کسی موٹر وے پر ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا، یہ ریکارڈ بھی ہماری موٹر وے کے ذمہ داران نے قائم کر دیا۔ اس واقعے کو پولیس اہلکار بھی واقعے کے بعد دیکھنے کی برداشت نہ رکھ سکے، وقوعہ ہو جاتا ہے اور بعد میں کفِ افسوس ملنا چہ معنی دارد؟ یہی کہ موٹر وے پولیس نے موٹر وے کو ویرانہ بنا دیا، پٹرولنگ ہوتی تو مجرم ایسی جرأت نہ کر پاتے، اس نوعیت کے جرم کیلئے پولیس کی عدم موجودگی لازم ہے، اگر موٹر وے پر زیادتی ممکن ہے تو پورے ملک سے زیادتی خارج از امکان نہیں۔ اس کیس کو وزیراعظم اپنے لئے، اپنی حکومت کے ہر پرزے کیلئے چیلنج سمجھ کر تاریخ رقم نہیں کرتے تو تاریخ پی ٹی آئی کا مدفن ہو گی۔ یہ کیس خون کھولا دینے والا اور غیرت و حمیتِ پاکستان کا کیس ہے۔ یہ متاثرہ خاتون اب باقی زندگی کیسے گزارے گی اور اس کے بچے جو اپنی ماں سے زیادتی کا منظر دیکھتے رہے، کیسے بھلا پائیں گے۔ یہ سوال، یہ درد، یہ المیہ ہم سب کا ہے اس پر خاموشی جرم ہو گی۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

بےجوڑ سپر پاور

سپر پاور کا جوڑا جب سے ٹوٹا سب کچھ ٹوٹتا جا رہا ہے کیونکہ کوئی روکنے والا نہیں اور اگر ہے تو کمزور ہے۔ ایک اکلوتی سپرپاور پر دوستی کی بھیک مانگنے والوں کا رش لگ گیا اور اسی ایک نے سب کو گلے لگا لگا کر مار دیا۔ کہئے آج عراق، شام، لیبیا، فلسطین، کشمیر اور دیگر اسی قامت کے کئی ممالک کس طرف سے آئے تھے کدھر چلے، شاعروں کی ہر بات کو زمینی حقیقت مت سمجھیں، کوئی بھی آسمانی کتاب اسی لئے منظوم نہیں، دل پشوری کرنے کو شاعری جیسی کوئی جنس نہیں اور بعض اشعار تو دل چھین لیتے ہیں، بھلائے بھولتے نہیں، پھولتے ہی جاتے ہیں۔ دانائی پر مبنی شعر بھی ہوتے ہیں مگر دانائی نہ ہونے کے باعث ہم ان سے مستفید نہیں ہو پاتے، شکر ہے کہ اب پھر سے یہ دنیا باجوڑ ہونے لگی ہے، گنجے کے سر پر بال اگنے لگے ہیں، چین تیزی سے سپرپاور کا روپ دھارنے کے قریب ہے، خدا دو ہوتے تو نظام درہم برہم ہو جاتا، سپر پاورز دو ہوں تو نظام میں توازن آ جاتا ہے۔ چین کے لوگ جو تعداد میں ہر ملک سے بڑھ کر ہیں خوشحال ترین ہیں، ہر شہری، شہر یار ہے، بہار ہی بہار ہے۔ صرف اس لئے کہ کرپشن سے پاک محنت، مشقت عام ہے۔ سنا ہے چین میں بجلی مفت ہے، ہمارے ہاں اس کی قدر و قیمت بڑھانے کی پھر سے تیاری ہے، کھانے کی چیزیں اتنی مہنگی کہ انسان سستے ہو گئے، البتہ پینا وینا عام ہے، پیسے والوں کے ہاتھ میں مفلس کے خون کا جام ہے، پیار محبت کا بھی بڑا نام ہے مگر یہ بھی سرعام فروختنی ہے۔ موجودہ حکومت گزری حکومت کے سہارے چل رہی ہے بس اس کا نام لیتی ہے اور مدت پوری کرتی جاتی ہے۔ ابھی تک دعووں کے درختوں پر پھل نہیں آیا، حاکم کے ہاتھ کی تسبیح کے دانے ہیں اس لئے ہر کملے کے گھر دانے بھی ہیں سیانے بھی۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

دل چلتا ہے تو چلنے دے

کیا بات کرتے ہو دل جلانے کی بات کرتے ہو، غم پسندی کے پسندے بدمزہ ہوتے ہیں، لمحہ ٔ موجود کو مقصود سمجھو، گھر بھی کامیاب چلے گا تم بھی نہیں رکو گے۔ شیخ سعدی نے کیا مزے کی بات کی تھی ’’مترس از بلائے کہ شب درمیاں‘‘ (اس بلا سے مت ڈرو جس کے آنے میں ایک رات باقی ہے) جب بھی حوصلے پست ہوئے تو منفی سوچ کے سبب۔ دنیا بڑی حسین ہے بشرطیکہ اگلا نشانہ نظر میں ہو۔ چین، جو کبھی افیون کے نشے میں گراں خواب تھا اب اس نے نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں، اس لئے کہ وہ پروا کئے بغیر ہر سمت چل پڑتے ہیں۔ ہم مرتے ہیں مگر کہیں اور جینے کیلئے، اسی لئے تو نئی کائناتیں پائپ لائن میں ہیں، ارتقاء کی کوئی منزل نہیں ہوتی یہ چلتی رہتی ہے کہ چلنے کا لطف ہی دراصل منزل ہے۔ ہم نے کسی آخری مقام کو غلطی سے منزل سمجھ لیا حالانکہ ہمیں فنا سے بقا کی جانب نکالا گیا۔ عقل ہو یا دل اختتام کو نہیں مانتا، ہم میں اور خدا میں یہی فرق کہ اسے کسی نے بنایا نہیں اور ہم اس کے کمال فن کا معجزہ ہیں، خود کو پہچاننے والے ناقابلِ تسخیر ہوتے ہیں۔ انسان جب بھی تنہا کوئی جنگ لڑتے ہیں ہار جاتے ہیں، جب بھی کوئی چیز مہنگی ہو جائے سب مل کر اس کی خریداری ترک کر دیں، زمین پر آ رہے گی۔ شکست کھانے کی چیز نہیں دینے کی چیز ہے یہ وہ راز ہے کہ اس کے جاننے استعمال کرنے سے ہر مصیبت ٹل جاتی ہے۔ وعظ و نصیحت سے کچھ حاصل نہیں برائی کا کلچر ہی ترک کر دیں، اکیلا گناہگار شرمندہ ہو کر نیک ہو جائے گا۔ ایسی بات کرو کہ دل کی چال رقص میں آجائے۔ وہ حرکت نہ کرو کہ چلتا ہوا دل رک رک کر چلنے لگے۔ اچھی سوچ کی ایک معمولی سی لہر لمحوں میں صدیوں کی خوشیاں دے جاتی ہے۔ ٹکرانے کے بجائے بچ نکلنے میں الگ ہی لطف ہے۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

غیرمنطقی ادب پارے

٭ فروغ نسیم۔ ملکی مفاد پہلی ترجیح، اپنی پارٹی کے بانی کو نکال باہر کیا۔

بانی کے فرار کو اگر ملکی مفاد کہتے ہیں تو ملکی نقصان کسے کہیں گے؟

٭ گورنر پنجاب۔ خاتون سے زیادتی کے ملزم نشان عبرت بنائے جائیں گے۔

قوم کو کبھی کسی نشان عبرت کی وڈیو بھی دکھا دیں کہ یہ کیسا ہوتا ہے۔

٭ جاوید لطیف۔ سرکاری ٹی وی کا ایم ڈی وزیراعظم کی مانتا نہ سیکرٹری کی سنتا ہے۔

یہ آپ سرکار کی تعریف کر رہے ہیں یا سرکاری ٹی وی کی تنقیص؟

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

تازہ ترین