• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’باگڑی‘ سندھ کے 5ہزار سال پرانے باسی، جو آج بھی شناخت کی تلاش میں ہیں

باگڑی، باوری یا باغڑی ایک ہی قوم کے نام ہیں، جو دراوڑ نسل سے تعلق رکھتی ہے۔ سندھ میں اِس قوم کی آمد کوئی پانچ ہزار برس قبل ہوئی، یوں اِس کا شمار کولہی اور بھیل کی طرح سندھ کی قدیم ترین اقوام میں ہوتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایک خانہ بدوش قبیلہ ہے۔گو کہ گزشتہ پندرہ بیس سال میں ان میں مستقل آباد کاری کا رجحان پیدا ہوا ہے، مگر اب بھی غالب اکثریت بڑی شاہ راہوں کے کنارے، قصبات اور شہروں کے خالی پلاٹس میں جھگیاں ڈال کر رہتی ہے۔ جہاں اُنھیں جو سہولتیں حاصل ہوتی ہیں، اُن کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کراچی میں لیاری اور ملیر ندی کے کنارے، انڈر پاسز کے نیچے اور مختلف خالی پلاٹس میں جھگیوں پر مشتمل ان کی آبادیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔بالائی سندھ ،یعنی حیدرآباد سے اوپر کے علاقوں میں کشمور تک ان کی آبادیاں دیکھنے کو ملتی ہیں، جب کہ زیریں سندھ میں ان کی تعداد بہت کم ہے۔ وہاں صرف آم کے موسم ہی میں یہ نظر آتے ہیں۔ 

سکھر سے ڈہرکی تک کے علاقے میں آباد باگڑیوں کا لہجہ اور رہن سہن باقی علاقوں سے قدرے مختلف ہے۔ پنجاب میں بھی خود کو باگڑی کہلوانے والوں کی خاصی تعداد ہے، مگر وہ مسلمان ہیں۔ نیز، بلوچستان میں کوئٹہ، چمن، خاران اور خضدار میں بھی ان کی چھوٹی چھوٹی بستیاں ہیں، جب کہ یہ افغانستان اور ایران بھی جاتے رہتے ہیں۔ باگڑی کون ہیں؟ ہم نے اِس سوال کا جواب جاننے کے لیے اِس قبیلے کے مختلف افراد سے بات چیت کی، تو اُن کی باتوں میں خاصا اختلاف پایا۔ کئی ایک کا کہنا تھا کہ’’اُن کی بنیادیں بھارت کے علاقوں کاٹھیاواڑ اور مارواڑ میں ہیں اور وہ وہیں سے سندھ آئے۔‘‘ بعض اپنا تعلق بھارتی پنجاب کے علاقے’’ باگڑ‘‘ سے جوڑتے ہیں۔

آج بھی مدھیہ پردیش، راجستھان اور ہریانہ میں ان کی بڑی بڑی آبادیاں ہیں۔پاکستان میں سرکاری طور پر باگڑی’’ شیڈول کاسٹ‘‘ کا حصّہ ہیں۔ہندوؤں میں ہزاروں برس سے ذات پات کی اونچ نیچ کا نظام رائج ہے، جس میں کئی ذاتوں کو بلند اور باقی کو کم تر حیثیت دی جاتی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب آئین سازی کا مرحلہ آیا، تو نومبر 1957 ء میں ایک صدارتی آرڈی نینس کے ذریعے کولہی، بھیل، میگھواڑ، جوگی، اوڈھ، بھنگی، چمار، ڈیڑھ، شکاری اور باگڑی سمیت 40 کم تر تصوّر کی جانے والی ذاتوں کو باقی ہندو اقوام سے الگ کرکے شیڈول کاسٹ قرار دیا گیا۔اِس اقدام کا مقصد یہ بتایا گیا کہ کم تر سمجھی جانے والی اقوام سماجی اور معاشی طور پر انتہائی پس ماندہ ہیں، اِس لیے اس اقدام کے ذریعے اُنھیں باقی اقوام کے برابر لایا جائے گا۔

اِس مقصد کے لیے ان کا سرکاری ملازمتوں میں چھے فی صد کوٹا مختص کرنے کے علاوہ عُمر میں تین سال کی رعایت بھی دی گئی۔تاہم، 1998 ء میں میاں نواز شریف کی حکومت نے شیڈول کاسٹ کوٹا، اقلیتی کوٹے میں تبدیل کر دیا اور اسے چھے سے کم کر کے پانچ فی صد کر دیا گیا۔بعدازاں، رانا بھگوان داس کی سربراہی میں عدالتِ عظمٰی کے ایک بینچ نے شیڈول کاسٹ کوٹا بحال کرنے کا حکم دیا، مگر ابھی تک فیصلے پر اُس کی رُوح کے مطابق عمل درآمد نہیں ہوسکا۔یوں باگڑیوں سمیت شیڈول کاسٹ ذاتوں کو اِس اقدام سے کوئی زیادہ فائدہ نہیں پہنچا۔

پاکستان میں اب تک چھے بار مردم شماری ہو چُکی ہے۔ پہلی مردم شماری 1951ء میں ہوئی، جس کے مغربی پاکستان کے نتائج کے مطابق، مُلک میں 4 لاکھ، 34 ہزار عیسائی، 3 لاکھ، 69 ہزار شیڈول کاسٹ سے وابستہ افراد اور ایک لاکھ، 62 ہزار اونچی ذات کے ہندو تھے۔شیڈول کاسٹ کی آبادی کے تعیّن کے لیے کوئی الگ سے فارم یا خانہ نہیں تھا، بلکہ ماہرین نے اس کا اندازہ مختلف اعداد وشمار کی بنیاد پر لگایا۔ 1961ء کی مردم شماری میں پاکستان میں5 لاکھ، 884 عیسائی، 4 لاکھ، 18 ہزار، 11 افراد کا تعلق شیڈول کاسٹ سے تھا، جب کہ اونچی ذات کے ہندو 2 لاکھ، 3 ہزار، 794 تھے۔ 1972ء میں ہونے والی مردم شماری میں عیسائیوں کی تعداد 9 لاکھ، 7 ہزار، 861 تھی، شیڈول کاسٹ 6 لاکھ، 3 ہزار، 369 اور اونچی ذات کے ہندو 2 لاکھ، 96 ہزار، 837 تھے۔1981ء کی مردم شماری کے فارم میں شیڈول کاسٹ کا خانہ ختم کرکے اُنہیں بھی ہندو ڈکلئیر کردیا گیا، جس کے مطابق مُلک میں 13 لاکھ، 10 ہزار 426 عیسائی اور 12 لاکھ، 76 ہزار، 116 ہندو موجود تھے۔1998ء میں ہونے والی مردم شماری کے فارم میں شیڈول کاسٹ کا خانہ بحال ہوا۔نتائج کے مطابق، 20 لاکھ، 92 ہزار 902 عیسائی، 21 لاکھ، 11 ہزار، 217 ہندو اور 3 لاکھ 32 ہزار 343 شیڈول کاسٹ سے تعلق رکھنے والے تھے۔جب کہ 2017ء کی مردم شماری کے مذہب کی بنیاد پر اکٹھے کیے گئے نتائج اب تک سامنے نہیں آئے۔

پاکستان میں بڑی اقلیتوں کی آبادی کی تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کی بنیاد پر ان کے سیاسی اور سماجی کردار کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔اونچی ذات کے ہندوؤں اور شیڈول کاسٹ کی آبادی میں کمی بیشی حیران کُن ہے، اس کی وجہ شیڈول کاسٹ سے وابستہ افراد کا خود کو ہندو آبادی کے طور پر رجسٹر کروانا ہے۔ شیڈول کاسٹ اقوام میں باگڑیوں کی کیا تعداد ہے؟ اِس حوالے سے بہت سے دعوے کیے جاتے ہیں۔برادری کے سماجی طور پر فعال افراد کا اصرار ہے کہ اُن کی آبادی پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہے، مگر اس سوال پر کہ’’ آخری مردم شماری میں تمام شیڈول کاسٹ اقوام کی مجموعی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی، تو صرف باگڑی پانچ لاکھ کیسے ہوسکتے ہیں؟‘‘ اُن کا کہنا ہے کہ’’ باگڑی چوں کہ خانہ بدوش ہیں اور اُن میں سے ایک بڑی تعداد کے پاس ضروری شناختی دستاویز بھی نہیں، اِس لیے اُن کا اندراج نہیں ہوپاتا۔اِسی طرح باقی شیڈول کاسٹ قبائل بھی مردم شماری میں اندارج سے رہ جاتے ہیں۔‘‘ اِس بات میں وزن تو ہے، مگر اس کے باوجود اندازہ یہی ہے کہ باگڑیوں کی تعداد بہرحال لاکھوں کی بجائے ہزاروں ہی میں ہے۔ اور اتنی آبادی کو مستقل رہائش سمیت دیگر سہولتوں کی فراہمی حکومتی اداروں کے لیے کوئی مشکل ٹاسک نہیں۔

’باگڑی‘ سندھ کے 5ہزار سال پرانے باسی، جو آج بھی شناخت کی تلاش میں ہیں
اس قبیلے کو کیلے کی کاشت میں خصوصی مہارت حاصل ہے

بچپن کے مناظر نظروں میں گھوم رہے ہیں۔ باگڑی خواتین بڑے بڑے ٹوکروں میں آم، خاص طور پر کیریاں اُٹھائے گلی گلی آوازیں لگاتی پِھرتیں’’ کیریاں… کیریاں لے لو۔‘‘خواتین اچار وغیرہ کے لیے زیادہ تر کیریاں انہی سے خریدا کرتیں، مگر ان سے بھاؤ تاؤ کرنا بھی آسان نہ ہوتا۔ اب تو مدّتیں گزر گئیں اس طرح کی آوازیں سُنے۔اس ضمن میں مٹیاری سے تعلق رکھنے والے سابق یوسی کاؤنسلر اور سماجی رہ نُما، ویساکی مل باگڑی کا کہنا ہے’’کچھ عرصہ قبل تک باغات کے زیادہ تر ٹھیکے باگڑیوں ہی کو ملتے تھے، کیوں کہ یہ باغ بانی اور سبزیوں کی کاشت کے ماہر ہیں، مگر اب بڑے بڑے ٹھیکے دار میدان میں کود پڑے ہیں، جس کی وجہ سے باگڑیوں کو کم ہی ٹھیکے مل پاتے ہیں۔ 

جب انھیں ٹھیکے ملتے تھے، تو یہ مناسب قیمت پر آم فروخت کیا کرتے، کیوں کہ تھوڑے منافعے سے بھی ان کی گزر بسر ہوجاتی تھی، لیکن اب بڑے ٹھیکے دار بڑی رقم خرچ کر کے منافع بھی بڑا حاصل کرتے ہیں۔ حالاں کہ سندھ کے کئی علاقوں میں کیلے جیسی سخت فصل اب بھی باگڑی ہی سنبھالتے ہیں۔‘‘ اُنھوں نے یہ بھی بتایا’’ جہاں باگڑی خانہ بدوشی تَرک کرکے مستقل طور پر آباد ہوگئے ہیں، وہاں وہ کئی طرح کے کاروبار کر رہے ہیں اور اُن میں کئی مالی طور پر خاصے خوش حال بھی ہیں۔‘‘ باگڑی مرد وخواتین کراچی کے مختلف مقامات پر پھل، سبزیاں اور کھلونے فروخت کرتے ہیں، جو عام طور پر مارکیٹ ریٹ سے سَستے ہوتے ہیں۔ان کے بچّے شام کو مختلف چوراہوں اور ٹریفک سگنلز پر پھول، گجرے بھی بیچتے نظر آتے ہیں۔ 

’باگڑی‘ سندھ کے 5ہزار سال پرانے باسی، جو آج بھی شناخت کی تلاش میں ہیں
ارجن باگڑی(طالبِ علم)

باگڑی تعلیمی لحاظ سے صرف سندھ ہی نہیں، مُلک کی پس ماندہ ترین اقوام میں سے ایک ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک تو اس قبیلے میں شرحِ تعلیم تقریباً صفر تھی، تاہم چند برسوں سے کچھ تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ان کی جہاں کہیں مستقل بستی آباد ہوئی، وہاں اُنھوں نے اپنے بچّوں کو اسکولز بھیجنا شروع کیا، اب کئی باگڑی لڑکے یونی ورسٹی کی سطح تک بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، تاہم لڑکیوں میں اب بھی تعلیم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے، جب کہ ایسے خاندان جو آج بھی خانہ بدوشی کی زندگی گزار رہے ہیں، ان میں تعلیم کے حصول کا کوئی رجحان نہیں۔ بعض این جی اوز نے ان کی بستیوں یا جُھگیوں میں تعلیم کا سلسلہ شروع کیا، مگر بات کچھ زیادہ آگے نہیں بڑھ پائی۔ ارجن باگڑی، شہید ذوالفقار علی بھٹو لاء یونی ورسٹی، کراچی کے طالبِ علم ہیں، اُن کا ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا ’’ہماری برادری میں اب تعلیم کے حوالے سے شعور بڑھ رہا ہے۔ 

اِس ضمن میں برادری کے کچھ نوجوان اپنے بزرگوں کے تعاون سے مہم بھی چلا رہے ہیں، جس کے بہت حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے اور بہت سے لڑکے کالجز اور یونی ورسٹیز تک پہنچ گئے ہیں۔‘‘ میراں تاج مستانی سکھر سے تعلق رکھنے والی ایک لوک گلوکارہ ہیں۔ وہ گلوکاری کے ساتھ اپنی برادری میں تعلیم کے فروغ کے لیے بھی سرگرم ہیں۔ اُنھوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا’’ہماری لڑکیوں نے بھی اسکولز جانا شروع کیا ہے، گو کہ زیادہ تر ابھی پرائمری کلاسز ہی تک محدود ہیں، مگر چند ایک کالج بھی پہنچ گئی ہیں اور امید ہے کہ اگلے چند برسوں میں لڑکیاں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے لگیں گی۔مَیں خود بچّوں کو ہندی اور گورمکھی کی تعلیم دیتی ہوں تاکہ وہ اپنی مذہبی کتب پڑھ سکیں۔‘‘

سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتی ارکان کی ایک خاطر خواہ تعداد موجود ہے، جن میں سے ایک آدھ کو چھوڑ کر باقی سب مخصوص نشستوں ہی پر ایوانوں تک پہنچے ہیں۔ ان میں سے بیش تر ارکان کا تعلق اعلیٰ ذات کے ہندوؤں سے ہے، جب کہ عیسائیوں کو بھی نمایندگی حاصل ہے، گو کہ آبادی کے تناسب سے یہ تعداد خاصی کم ہے۔ شیڈول کاسٹ قبائل میں سے کولہی، بھیل اور میگھواڑ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے رہے ہیں اور اب بھی ان کے کئی ارکان وہاں موجود ہیں۔ پچھلے دنوں کیسو بائی (کرشنا کولہی) کو سینیٹ کے لیے منتخب کیا گیا، تو بہت واہ واہ ہوئی اور ہونی بھی چاہیے، تاہم آج تک کسی باگڑی کو سینیٹ، قومی یا صوبائی اسمبلی کے لیے منتخب نہیں کیا گیا، حالاں کہ کئی باگڑی سیاسی جماعتوں میں متحرّک بھی ہیں۔

’باگڑی‘ سندھ کے 5ہزار سال پرانے باسی، جو آج بھی شناخت کی تلاش میں ہیں
ویساکی مل باگڑی(سماجی کارکن)

البتہ مٹیاری اور شہداد کوٹ میں دو، تین باگڑی کاؤنسلر کی نشست حاصل کرنے میں ضرور کام یاب رہے ہیں۔سماجی کارکن، سیتا رام باگڑی کے مطابق،’’ بالائی سندھ کے بیش تر انتخابی حلقوں میں باگڑیوں کے دس، بیس ہزار ووٹ ہیں، مگر اُنھیں کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس کی ایک وجہ تو باگڑی خود ہیں کہ وہ اپنی انتخابی طاقت کے شعور سے عاری ہیں۔دوسری بات یہ کہ باگڑی خود اپنا امیدوار بھی سامنے نہیں لاتے، حالاں کہ اگر وہ متحد ہوکر اپنا امیدوار سامنے لائیں، تو اقلیتوں کے لیے مختص نشستوں میں سے ایک، دو نشست پر کام یابی حاصل کرسکتے ہیں۔

ابھی برادری میں سیاسی شعور اجاگر اور اسے متحد کرنے کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہے۔‘‘ باگڑی زبان ایک مشکل زبان ہے، جو انڈو آریان خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔لاڑکانہ میں نجی لائبریری چلانے والے، لچھمن داس باگڑی کے مطابق’’ہماری زبان میں مارواڑی، گجراتی، ہریانوی، میواتی اور سنسکرت زبانوں کے الفاظ شامل ہیں، جب کہ اسے سندھی نے بھی متاثر کیا ہے۔ اسے لکھنا بہت مشکل ہے، کیوں کہ اس کے بہت سے الفاظ ایسے ہیں، جن میں زبان حرکت نہیں کرتی۔ خاص طور پر ایک لفظ ص اور س سے ملتا جُلتا ہے، جو کثرت سے استعمال ہوتا ہے، مگر اُس میں زبان کسی قسم کی حرکت نہیں کرتی، تو اسے تحریر کی شکل دینا دشوار ہے۔‘‘باگڑی قبیلہ مزید 9 شاخوں میں تقسیم ہے،جن میں کوری، ڈابھی، وڈھیارو، چوہان، دم دارو، سرونکی، پنمار اور دھاندھل شامل ہیں۔

’باگڑی‘ سندھ کے 5ہزار سال پرانے باسی، جو آج بھی شناخت کی تلاش میں ہیں
ایک میلے کے موقعے پر اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہوئے

ان تمام ذیلی ذاتوں کے پگ دار ہوتے ہیں، جو اپنے قبیلے کے بڑے یا مُکھی کہلاتے ہیں۔ ان تمام پگ داروں کی ہر سال تین روزہ پنچایت منعقد ہوتی ہے، جس میں برادری کے مسائل زیرِ بحث لائے جاتے ہیں۔باگڑیوں کے ہاں شادیاں خاصی دھوم دھام سے ہوتی ہیں، دُور دُور سے مہمانوں کو مدعو کیا جاتا ہے، جب کہ ان کی شادی کے رسم ورواج، دیوان یعنی بنیوں سے ملتے جُلتے ہیں۔ اِس ضمن میں ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ اپنی قبائلی شاخ میں شادی نہیں کرتے۔مثلاً اگر کسی لڑکے کا تعلق وڈھیارو شاخ سے ہے، تو وہ کسی وڈھیارو لڑکی سے شادی نہیں کرسکتا۔نیز، ان میں لڑکیوں کو چھوٹی عُمر میں بیاہنے کا رواج ہے، تاہم ویساکی مل کے مطابق،’’ نئے حکومتی قوانین کے بعد اب اٹھارہ، بیس برس کی عُمر ہی میں شادیاں کی جا رہی ہیں۔‘‘ یہ اپنے مُردے ہندو رسم ورواج کے مطابق جلاتے ہیں، البتہ غیر شادی شدہ لڑکوں اور لڑکیوں کو دفنایا جاتا ہے۔

سندھ کے ان قدیم ترین باشندوں کو کارآمد شہری بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اُنھیں خانہ بدوشی کی زندگی تَرک کرنے پر مائل کیا جائے۔ اِس مقصد کے لیے حکومت مختلف مقامات پر زمین مختص کرے،جہاں وہ مالکانہ حقوق کے ساتھ اپنے مکانات بنا سکیں۔ یوں مستقل آبادکاری کے ذریعے اُنھیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں بھی آسانی رہے گی، جس سے اُن کے طرزِ زندگی میں نمایاں بہتری آسکے گی۔نیز، خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے والے باگڑیوں کے ساتھ ایک اہم مسئلہ پولیس کے رویّے کا بھی ہے۔ پولیس اہل کار اُنھیں مختلف بہانوں سے تنگ کرتے ہیں، خاص طور پر ان کی خواتین کو ہراساں کرنا معمول کی بات ہے۔’’ دراوڑ اتحاد پاکستان‘‘ کے چیئرمین، ڈاکٹر امرشی ٹھاکر کا اِس ضمن میں کہنا ہے کہ’’ پورے سندھ میں شیڈول کاسٹ برادریوں کے ساتھ پولیس کا رویّہ انتہائی توہین آمیز ہے، انھیں انسان نہیں سمجھا جاتا۔جب دل چاہتا ہے، ان پر جھوٹے مقدمات بنا دئیے جاتے ہیں۔‘‘

چل رے باگڑی…

کچھ عرصہ قبل سندھ اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کی کلثوم چانڈیو نے اپوزیشن رکن، نصرت سحر عبّاسی کو تحقیر اور نفرت کے طور پر’’ باگڑی‘‘ پکارتے ہوئے اُنہیں ایوان سے نکل جانے کو کہا۔ اس پر احتجاج ہوا، مذمّتی بیانات سامنے آئے اور پھر چند سطری معذرت کے ساتھ معاملہ ختم ہوگیا۔ اسمبلی میں تو بات ختم ہوئی، مگر معاشرے میں ایسا نہ ہوسکا، جہاں آج بھی کسی کو گالی دینی ہو یا اُسے سماجی طور پر کم تر ظاہر کرنا ہو، تو’’ چل او باگڑی‘‘ اور’’ تُو تو باگڑی ہے‘‘ جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ویساکی مل نے دِل گرفتہ لہجے میں کہا’’ عام افراد کو تو چھوڑیے، اچھے خاصے پڑھے لکھے اور بظاہر مہذّب نظر آنے والے افراد بھی کسی شرمندگی یا جھجھک کے بغیر لفظ باگڑی کو گالی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس سے معاشرے کی ذہنی اور اخلاقی پستی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔‘‘

عورت طاقت وَر ہے

لچھمن داس باگڑی نے اپنے قبیلے میں عورت کے کردار سے متعلق بتایا کہ ’’ یہ سندھ کا شاید واحد قبیلہ ہے، جس میں عورت، مرد سے زیادہ طاقت وَر ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں برادری کے فیصلے مُکھی کرتے ہیں، مگر جرگے میں خواتین بھی بیٹھتی ہیں اور ان کی رائے کو نظرانداز کرنا آسان نہیں ہوتا۔ مالی معاملات میں بھی خواتین کا اہم کردار ہے اور عموماً رقم وغیرہ بھی مَردوں کی بجائے اُن ہی کے پاس ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ ہمارے ہاں کاروکاری اور بدلے کی شادی جیسی بھی کوئی قبیح روایت نہیں۔‘‘

تازہ ترین