• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشاہدے کی بات ہے، پچھلے تہتر برس سے پاکستان پر راج کرنیوالے حاکموں کے نام تو مختلف ہوتے ہیں مگر ان کا اندازِ حکومت، یعنی حکومت کرنے کا طریقہ کار ہو بہو ایک جیسا ہوتا ہے۔ میں نے آج تک ایسا ایک حکمران نہیں دیکھا ہے جس نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پچھلی حکومت کو دل کھول کر، اپنی مدت حکومت ختم ہونے تک خوب برا بھلا نہ کہا ہو۔

ہر نئے حکمران کے لئے پچھلے حکمران چور، ڈاکو، ٹھگ اور فاسد وفاسق اور کرپٹ ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے حکمرانوں کی یگانی پہچان ہے، میں نے آج تک کسی ایسے حکمران کو اقتدار میں آتے ہوئے نہیں دیکھا ہے، جس نے اقتدار سے دست بردار ہونے والے سابقہ حکمرانوں کی تعریف کی ہو۔ اس کیلئے دو اچھے الفاظ ادا کئے ہوں، یعنی دو اچھے بول بولے ہوں۔

پاکستانی حکمرانوں کی دوسری پہچان ہے میٹنگیں کرنا۔ میٹنگوں کے بغیر کوئی حکمران خود کو پاکستان کا فرماں روا نہیں سمجھتا۔ خود کو پاکستان کا حاکم سمجھنے کیلئے میٹنگیں کرنا اس کیلئے لازمی ہو جاتا ہے۔ ایک لمبی چوڑی میز کے دونوں اطراف ممبران اسمبلی، افسرانِ اعلیٰ، منظور نظر یعنی مشیر، وزیر بیٹھے ہوتے ہیں۔

لمبی چوڑی میز کے سرے پر حاکم وقت بنفس نفیس ایک تخت نما اونچی پشت والی کرسی پر براجمان ہوتے ہیں۔ حاکم صاحب کی کرسی آگے پیچھے کرنے کیلئے ان کے پیچھے دو چار چاق و چوبند اٹینڈنٹ کھڑے رہتے ہیں۔ اس طرح ممبران، افسران اور وزراء کی کرسیاں آگے پیچھے کرنے کیلئے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر نائب قاصد ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔

ایک ہمارے اسپورٹس مین عمران خان کو چھوڑ کر، تہتر برس سے جدی پشتی سیاست دانوں نے بلاشرکت غیرے پاکستان پر حکومت کی ہے وہ اسمبلی میں اپنی نشست کو اپنا تخت سمجھتے ہیں، اپنی سیٹ کو اپنی خاندانی اور قبائلی میراث سمجھتے ہیں۔

ان سے پہلے ان کے آبائو اجداد اسمبلی سیٹ پر بیٹھتے تھے۔ ان کے بعد ان کی آنے والی نسلیں اس سیٹ پر بیٹھ کر ملک کی مانگ سجاتی رہیں گے۔ پچھلے تہتر برسوں سے جدی پشتی سیاست دان پاکستان کی مانگ سجا رہے ہیں۔ آئندہ بھی قوی امید ہے کہ جدی پشتی سیاست دان، اسطرح ملک وقوم کی خدمت کریں گے، اور ملک کی مانگ سجاتے رہیں گے۔

اس وقت جدی پشتی سیاست دانوں کے حکام عمران خان ہیں۔ وہ اپنے ساتھ کچھ غیرسیاسی لوگوں کو ایوان اقتدار تک لے آئے ہیں۔ پہلی مرتبہ انہوں نے اسمبلی کے فرش پر قدم رکھا ہے ان کے دو سال کے رویوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ لوگ بھی جدی پشتی سیاست کے ڈھانچے میں ڈھل چکے ہیں۔ ان کی جیتی ہوئی سیٹ پر ان کی اولاد آ کر بیٹھے گی۔

وثوق سے یہ بات میں نے اس لئے لکھی ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر جیت کر اسمبلی تک پہنچنے والے عام آدمی دیکھتے ہی دیکھتے جدی پشتی سیاست دان بن بیٹھے ہیں۔ ان کی جیتی ہوئی سیٹ ان سے کوئی نہیں جیت سکتا۔ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیت کر اسمبلی تک پہنچنے والے غیر سیاسی لوگ جدی پشتی سیاست دانوں کے سے تیور دکھا رہے ہیں۔

عمران خان بذات خود جدی پشتی سیاست دانوں کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں۔ وہ میٹنگ کے بغیر سانس نہیں لے سکتے۔ انہوں نے میٹنگ کیلئے خاص طور پر جو میز یعنی ٹیبل بنوائی ہے وہ کرکٹ کے میدان میں وکٹوں کے درمیان پچ کی لمبائی کے برابر بائیس گز یعنی چھیاسٹھ فٹ لمبی ہے۔ اسی میز کے سرے پر بیٹھ کر عمران خان میٹنگ کرتے ہیں۔ چند گھنٹوں میں ملک کو معاشی مشکلات سے باہر نکال آتے ہیں۔

میٹنگوں میں ملک کے مالی اور اقتصادی مسائل حل کرتے ہیں۔ میٹنگوں میں ملک کو بدعنوان افسران سے نجات دلواتے ہیں۔ میٹنگوں کےدوران زرداری اور نواز شریف سے ملک کے بھرے ہوئے خزانوں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لے آتے ہیں۔ اپنی میٹنگوں میں اٹھائے ہوئے کھربوں ڈالر کے قرضے اتار دیتے ہیں۔میٹنگوں میں بین الاقوامی تعلقات کو بہتر سے بہترین کرتے ہیں۔ میٹنگوں میں ہر پاکستانی کے لئے تعلیم اور طبی سہولیات مفت کر دیتے ہیں۔ دربدر لوگوں کے لئے سائبان اور آشیانے بناتے ہیں۔ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ناممکن کو خان صاحب میٹنگوں میں ممکن بنا دیتے ہیں۔

کراچی کے مسائل کے بارے میں خان صاحب نے اسلام آباد میں ایک لمبی چوڑی میٹنگ کی۔ سب کی سنی، سب کو سنائی۔ میٹنگ برخاست کی، جہاز میں بیٹھے کراچی پہنچے، پھر میٹنگ کی، میٹنگ میں کراچی کے تمام مسائل حل کر دیئے۔ برساتی نالوں پر آباد لوگوں کو نئےمکانوں کی کالونیوں میں آباد کر دیا۔ برساتی نالے صاف ہو گئے۔ بجلی کنڈے اتروا کر لوگوں کے گھروں میں بجلی کے میٹر لگوا دیے۔

سمندر سے زمین چھیننے کا سلسلہ بند کروا دیا۔ مساکین کی بہبود کے لئے احکامات جاری کر دیے اور عملدرآمد کے بعد مساکین کو اب پینے کے لئے صاف پانی مل رہا ہے، بجلی ملنے کے بعد مساکین اب اندھیرے میں نہیں رہے، گیس آ جانے کے بعد مساکین کے چولہے کبھی ٹھنڈے نہیں پڑتے، میٹنگ کے دوران ہی کراچی سرکلر ریل گاڑی چلوا دی۔ میٹنگ برخاست کرنے کے بعدحاکم وقت جہاز میں بیٹھے اور اسلام آباد چلے گئے، کراچی کے مسائل حل ہو گئے۔

تازہ ترین