• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فکر فردا … راجہ اکبردادخان


پاکستان کے امریکہ، بھارت اور چین میں سابق سفیر اور عراق اور سوڈان میں اقوام متحدہ مشن کے سابق سربراہ اشرف جہانگیر قاضی پاک ،بھارت سفارت کاری میں ایک اہم نام کی حیثیت میں جانے جاتے ہیں۔ بھارت میں تعیناتی کے دوران انہیں کئی بار بھارتی ایجنسیز کے تشدد بھی برداشت کرنا پڑے، مگر ایسے حالات انہیں اپنے مقاصد میں آگے بڑھنے سے کبھی نہ روک سکے،مشکل اور پُرتشدد ماحول میں پاکستان اور کشمیر کا جھنڈا کس طرح بلند کیے رکھنا ہے؟ ان کا سفارتی کردار ایک اعلیٰ مثال کے طور پر قوم کے سامنے موجود ہے۔ یہ ان کی حریت لیڈر شپ کے ساتھ انگیجمنٹ ہی تھی جس نے طویل عرصہ تک بھارتیوں کو پریشان کیے رکھا، وہی کشمیری لیڈر شپ جس کی اکثریت آج پابند سلاسل ہے،کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے ان کی اونچی آواز سفارت کاری کے سرگوشیوں کے ماحول میں بھی سنی جاتی رہی ہے اور آج جب کہ وہ سفارت کاری کی قیود سے آزاد ہیں، اس قومی موضوع پر ان کی تحریروں سے مستفید ہوکر آگے بڑھنا جہاں حکومتوں کے لیے فائدہ مند ہے، وہاں عوامی آگاہی کے لیے بھی اہم ہے۔ ہمارے اپنے اخبارThe Newsکے لیے لکھے گئے ایک مضمون جس کے کچھ حصے اس تحریر کا حصہ ہیں اور جن کا تعلق کشمیر ایشو سے ہے ،وہ کہتے ہیں کہ5اگست2019ء کے بعد سے جموں و کشمیر ایشو بھی پاکستان قائم رہنے کے ایشو سے جڑ گیا ہے۔ (اور یہ ایک بہت بڑا بیانیہ ہے) تو اس صورت حال سے کیا یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہوگا کہ بھارت یا پاکستان کی بقا اس تنازع سے اس انداز میں جڑی ہے کہ دونوں میں سے جو بھی یہاں جیت یا ہار جائے گا (وہی بحیثیت ریاست قائم رہ سکے گا یا مٹ جائے گا)بھارِت اور پاکستان دونوں کے پاس اگرچہ نیو کلیئر اہلیت ہے لیکن دونوں میں سے ایک بھی پہل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ لہٰذا دونوں میں ایک بھی مکمل فوجی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا، جس طرح حال ہی وزیراعظم پاکستان نے کہا ہے کہ5اگست2019ء کے بعد ایٹمی جنگ کے نتیجہ میں پاکستان، بھارت میں سے کوئی بھی یہ جنگ نہیں جیت سکتا۔ ان تمام باتوں کے باوجود دنیا بالعموم اس ایشو سے لاتعلق دکھائی دیتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ پاکستان کی تاریخ اور موجودہ ریاست دنیا بھر کے سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کی نگاہیں یہ ثابت نہیں کرسکی ہیں کہ اس ریاست میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ اپنے اہداف کے ساتھ کھڑی رہ سکے۔ اس کی بجائے یہ ریاست متضاد کم مدتی اور غیر دانشمندانہ پالیسیاں اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے جب کہ اسے جڑی ہوئی طویل مدتی پالیسیاں اختیار کرنی چاہئے تھیں، تمام جماعتوں کی اقتداری کلاس پہلے سے چلنے والی پالیسیوں کو مقدم سمجھتے ہیں۔ خواہ پاکستان کو کتنا ہی نقصان اٹھانا پڑے۔ اپنے آپ کو اور عوام کو دھوکہ دے کر حکومت کرنا، حکمرانی اور پالیسی میں ضروری مقام حاصل کرچکے ہیں۔ قائداعظم کی وفات کے بعد بہت کم لوگ باقی رہ گئے تھے جو سیاسی پراسس کا حصہ بنے رہے جو1958ء کے بعد درہم برہم ہوگیا اور پاکستان کی حکمرانی اس اشرافیہ کے پاس چلی گئی جس کا پاکستان بنانے میں زیرو کردار تھا، پاکستان کی کشمیر پالیسی کو اوائل ہی میں امریکی تائید یافتہ سیاسی اپروچ سے نقصان پہنچنے شروع ہوگئے جس کے نتیجہ میں یہ پالیسی کئی حوالوں سے مسائل کا شکار ہوگئی،تاہم ملکی حکمران اشرافیہ کے مقاصد پورے ہوتے رہے، ایسی روش کی وجہ سے کشمیریوں کی بھارتی مظالم کے خلاف تگ ودو کو نقصان پہنچا۔ یہاں بڑی طاقتوں کی عدم توجہ اور ’’ریل پالیٹکس‘‘ اپروچ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کے اعلیٰ درجہ کے سفارت کار کشمیر پر ملک کی بیرون ملک سے چلنے والی پالیسی کی بنا پر ڈیلیور نہیں کرپائے۔ پاکستانی وزیراعظم دنیا پرواضح کرچکے ہیں کہ پاکستان کشمیر میں نئی صورت حال کو تسلیم نہیں کرسکتا، کیونکہ کشمیری ایک طویل عرصہ سے حق خودارادیت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ شنید ہے کہ وزیراعظم22ستمبر کو جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ ان کے پچھلے سال کے خطاب کے بعد جس میں انہوں نے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کا ذکر کیا تھا، مگر مودی کی طرف سے انہیں مثبت جواب نہیں ملا۔کشمیر وادی میں کئی بھارت حمایتی کشمیری 5اگست2019ء کے بعد کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے ایک بار پھر بھارت کی طرف رخ کررے ہیں۔ البتہ کشمیریوں کی نئی نسل مختلف طریقوں سے بھارت پر متواتر واضح کررہی ہے کہ وہ موت قبول کرسکتے ہیں مگر ایک نفرت بھرے بھارتی ماحول میں رہنا پسند نہیں کرسکتے، ریاست کی تمام اکائیوں سے آزادی کے نعرے ان کی حقیقی آواز ہیں، پاکستان نے ایک بار پھر اپنے غیر اصولی موقف کی وجہ سے موقع گنوا دیا ہے اور ساتھ ہی کشمیریوں کا اعتماد بھی کھویا ہے، وزیراعظم کو اس صورت حال کا تدارک کرنا ہوگا، پاکستان مقبوضہ کشمیرکی صورت حال سے کس طرح نمٹنا چاہتا ہے، واضح نہیں ہے، کیا پاکستان بین الاقوامی دبائو کے تحت مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کو تبدیل کروانا چاہتا ہے اور کیا ایسا ہوتا دکھائی دیتا ہے اور اگر اگست2019ء سے پہلے والی صورت حال بحال بھی ہوجاتی ہے تو اس سے تحریک آزادی کو کیا تقویت مل سکتی ہے اور پاکستان کو کیا فائدے حاصل ہوسکتے ہیں (موجودہ صورت حال میں یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔)بھارت کشمیر میں تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے قتل و غارت کی جس پالیسی پر گامزن ہے اور لوگ آزادی کی خاطر جانیں دینے کے لیے تیار ہیں۔ اس منظر سے پاکستان کس طرح نمٹنا چاہے گا، اس حوالہ سے پاکستانی موقف واضح نہیں ہے۔ بھارت انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں تسلیم نہیں کررہا اور اور مودی مسئلہ کے حل کے لیے پیچھے نہ ہٹنے کا عندیہ دیتے ہوئے ’’اپنے آخری حل‘‘ کا اعلان کرچکے ہیں۔ مودی کی اس اپروچ کو پاکستان ہی روک سکتا ہے۔ ابھی تک پاکستان کشمیر پہ ایک جامع پالیسی مالی اخراجات اور اندیشہ ہائے نقصان کی وجہ سے اختیار نہیں کرسکا ہے ۔وزیراعظم کو یہاں ایک ساتھ چلتی ’’دو ٹریک‘‘ پالیسی جس سے مقبوضہ کشمیر میں قتل و غارت بھی رک سکے اور بھارت کے ساتھ جنگ بھی نہ ہو اور تحریک آزادی کے ساتھ یگانگت بھی قائم رہے، کی بات کرنی چاہیے۔ ایسی پالیسی کے پہلے حصہ میں بھارت کے ساتھ باہمی اعتماد بحال کرنے کے اقدامات ہونے چاہئیں تاکہ کشمیریوں کی منصفانہ تحریک آزادی بھی آگے بڑھتی رہے اور ماحول بھی معتدل رہے اور یہیں کہیں سے ایک بااصول ’’کمپرومائز‘‘ کی صورت وجود میں آسکتی ہے۔ اگر مودی کی طرف سے مثبت جواب نہیں آتا، تب بھی دنیا دیکھ رہی ہوگی۔وزیراعظم کے پچھلے یو این خطاب کے ایک سال بعد پاک ،بھارت تعلقات کےحوالہ سے تصویر آج زیادہ واضح ہے، اس پالیسی کا دوسرا ٹریک یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے متواتر آگاہ کرتا رہے اور دنیا پر واضح کرتا رہے کہ خواہ کچھ بھی ہو پاکستان اس قتل و غارت کو رکوانے کے لیے اقدامات کرے گا، یہ ایک ہائی رسک اپروچ ہے،ایسی صورت میں بڑی طاقتیں مداخلت کرکے ایک ’’کمپرومائز حل‘‘ کے لیے راہ ہموار کرسکتی ہیں جس میں کشمیریوں کی رضامندی بھی حاصل ہو۔ اللہ راہ آزادی میں دی گئی قربانیوں کے طفیل مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کو آزادی سے نوازے۔

تازہ ترین