• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم کوئٹہ ائرپورٹ پر اترے تو معلوم ہوا کہ میاں نواز شریف نے ابھی ٹیک آف کیا ہے۔ وہ سردار ثناء اللہ زہری سے تعزیت کے لیے بلوچستان آئے تھے۔انتخابی مہم کے دوران ان کے کاروان پر حملے میں ان کا بھائی ، بیٹا اور بھتیجا جان بحق ہو گئے تھے اور ثناء اللہ زہری بال بال بچے تھے۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہی بلوچستان کے مسئلے کا اصل حل ہے جبکہ ثناء اللہ زہری کہہ رہے تھے، کچھ عناصر ہمیں پاکستانی پرچم سے دستبردار کرنا چاہتے ہیں مگر ایسا نہیں ہو گا ۔
نگران وزیر اعلیٰ جناب غوث بخش باروزئی کی دعوت پر اس دورے کا اہتمام الطاف حسن قریشی کے”پائنا“ نے کیا تھا جس میں لاہور کے درجن بھر سینئر اخبار نویس ، کالم نگار اور اینکر پرسن شامل تھے۔ہم خاتون خانہ کی ڈھیر دعاؤں کے ساتھ گھر سے نکلے تھے، بس امام ضامن باندھنا رہ گیا تھا۔ دوست احباب میں سے بعض کا کہنا تھا ،یہ رسک لینے کی کیا ضرورت ہے گویا ہم میدان جنگ میں جا رہے ہوں۔ ایک ستم ظریف نے تو یہ بھی کہہ دیا ، تم کوئٹہ پہنچو، میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاؤں گا، ”بریکنگ نیوز“کے انتظار میں۔خود ہمارا خیال تھا کہ ایئر پورٹ سے ہوٹل تک ہمارے آگے پیچھے حفاظتی گاڑیاں ہوں گی۔ آخر پنجاب سے بارہ، تیرہ سینئر اخبار نویس شہادت گہہ الفت میں قدم رکھ رہے تھے لیکن وہاں سب کچھ نارمل تھا ۔ ہم کسی خاص حفاظتی تدبیر کے بغیر ہوٹل پہنچ گئے تھے۔کوئٹہ میں آخری شام ہم عشاء کے بعد تک بازاروں میںآ زادانہ گھومتے پھرتے رہے۔ڈیڑھ دن اور دو راتوں پر مشتمل ہمارا قیام بھرپور مصروفیت میں گزرا۔ پر تکلف عشائیے پروزیراعلیٰ سے بے تکلف گفتگو رہی ۔ ان کو کہنا تھا کہ ان کی اولین ترجیح بلوچستان میں گیارہ مئی کے انتخابات کا پر امن اور آزادانہ و منصفانہ انعقاد ہے۔وہ خوش تھے کہ فروری 2008ء کا بائیکاٹ کرنے والی قوم پرست جماعتیں بھی اب انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ان میں بلوچ قوم پرست جماعتیں بھی ہیں اور محمود خان اچکزئی کی پختونخواہ ملی عوامی پارٹی بھی۔کوئٹہ کلب میں مسلم لیگ ن کے نوجوان دانشور انوارالحق کاکڑ کے عشائیے میں تقریباََ سبھی جماعتوں کی نمائندگی تھی ۔ڈاکٹر مالک کی نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی اور لیاقت شاہوانی نے بھی گفتگو میں بھرپور حصہ لیا ۔ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے خالق داد ہزارہ نے اپنے قبیلے کے زخم پنجاب سے آئے ہوئے مہمانوں کے سامنے رکھے ۔
دیکھو یہ میرے خواب تھے،دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے سبھی حساب جاں برسر عام رکھ دیا
ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی بھی گیارہ مئی کے انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ گیارہ مئی کے ان انتخابات کا بلوچستان میں انعقاد ایک بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان کے باغی، عسکریت پسند انتخابات کے انعقاد کو اپنے مقاصد کے لئے نقصان دہ سمجھتے ہیں کہ ان کے نتیجے میں بلوچستان کی جینوئن لیڈر شپ سامنے آئے گی اور اس سے بلوچستان کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔چنانچہ وہ ہر قیمت پر ان انتخابات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔بلوچستان کے پشتون علاقے میں کوئی مسئلہ نہیں البتہ بلوچ علاقوں میں کوئی درجن بھر اضلاع (اواران ، تربت ، گوادر، پنجگور، خضدار، قلات، مستونگ ، خاران، نوشکی اور مکران وغیرہ) نہایت ”حساس “ ہیں۔ایسے میں بلوچ قوم پرست جماعتوں کی طرف سے انتخابات میں شرکت کا عزم قابل داد ہے۔ یہ اپنے سر ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں اترنے والی بات ہے۔برہمداغ بگتی نے پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں تو اس کے چچا طلال بگتی اور کزن شاہ زین اور عالی بگتی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ۔حربیار مری ایک عسکریت پسند گروہ کی قیادت کر رہا ہے تو اس کا بھائی چنگیز خان مری ، جسے بڑا بیٹا ہونے کے ناطے نواب خیر بخش مری کا جانشین بننا ہے، مسلم لیگ ن کا سینئر نائب صدر ہے اور پاکستان کے دستور اور وفاق کے اندر بلوچستان کے مسائل کا حل چاہتا ہے۔جاوید مینگل بلوچ نوجوانوں کے ایک اور باغی گروہ کا سرغنہ ہے تو اس کا بڑا بھائی اختر مینگل الیکشن میں حصہ لینے کے لیے پاکستان لوٹ آیا ہے۔
پاکستان ووٹ کی طاقت سے بنا تھا اور ووٹ کی طاقت ہی اس کے اتحاد و یک جہتی کی علامت ہے… بلٹ نہیں بیلٹ۔فوجی قیادت کو بھی اس بات کا گہرا احساس ہے ۔سدرن کمانڈ کے ظہرانے میں گفتگو کے دوران بھی اور اس سے قبل ایف سی ہیڈ کوارٹر میں جنرل عبیداللہ خان کی بریفنگ میں بھی یہ بات خوش گوار حیرت کا باعث تھی کہ ہماری فوجی قیادت کا مائنڈ سیٹ بدل رہا ہے۔عمومی تاثر یہ رہا ہے کہ اپنے ہاں کی” اسٹیبلشمنٹ“تما م خرابیوں کی جڑ سیاستدانوں کو سمجھتی رہی ہے۔چنانچہ سوسائٹی کو Depoliticiseکرنامارشل لاء حکومتوں کا بنیادی ہدف اور” تقسیم کرو اور حکومت کرو“ انکی حکمت عملی کا بنیادی نکتہ رہا ہے۔جنرل ضیاء الحق شہید اپنی تقاریر میں عموماََ پاکستانی قوم کے ذہن میں جمہوریت کا کیڑا ہونے کی شکایت کرتے ۔لیکن آج کا پاکستان ماضی کے پاکستان سے بہت مختلف ہے۔ آزاد عدلیہ ، مستعد میڈیا، متحرک سول سوسائٹی اور طاقتور الیکشن کمیشن …پاکستان بدل رہا ہے، ہمارے لیے یہ بات خوشگوار حیرت کا باعث تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کا مائنڈ سیٹ بھی بدل رہا ہے۔ چنانچہ سول اداروں کے ساتھ فوج اور ایف سی بھی گیارہ مئی کے انتخابات کے پر امن اور آزادانہ اور منصفانہ انعقاد کے لیے پر عزم ہے۔میجر جنرل عبیداللہ ، میجر جنرل مظہر سلیم اور میجر جنرل نصیر ، سبھی کو اس حوالے سے اپنی قومی ذمہ داری کا بھرپور احساس تھا۔ (سدرن کمانڈ کے سربراہ کی راولپنڈی میں مصروفیت کے باعث ان سے ملاقات نہ ہو سکی) البتہ انہیں یہ محبت بھرا گلہ بھی تھا کہ میڈیا کبھی کبھار زیادتی بھی کر جاتا ہے ۔ گم شدہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کے حوالوں سے بھی وہ اپنا ایک موقف رکھتے تھے۔ جنرل عبیداللہ نے بتایا کہ وہ 71بار سپریم کورٹ میں پیش ہو چکے ہیں اور ایک بار چیف صاحب کے چیمبر میں بھی حاضری دے چکے جس میں انہوں نے تصویر کا وہ رخ پیش کیا جسے کھلی عدالت میں پیش کرنا قومی مفاد کے منافی تھا۔لنچ پر غیر رسمی گفتگو میں جنرل مظہر سلیم کی خواہش تھی کہ میڈیا اہل سیاست کے حوالے سے بھی اپنے رویے پر توجہ دے۔ سبھی کامنہ کالا کرنا مناسب نہیں۔ملک کو سیاست دانوں نے چلانا ہے کہ ان پر قوم کا اعتماد برقرار رہنا چاہیے ۔ سبھی کو ناقابل اعتبار ٹھہرانا قوم میں مایوسی کا باعث بنتا ہے۔
موسم کے ساتھ سیاسی اور انتخابی ماحول میں بھی گرما گرمی بڑھ رہی ہے ، 23مارچ کے جلسے میں کپتان نے جو 6وعدے کئے ان میں اولین وعدہ یہ تھا کہ وہ (آئندہ ) قوم سے جھوٹ نہیں بولیں گے لیکن کیا وہ اپنے اس عہد پر قائم ہیں ؟ وہ اپنے جلسوں میں اس بات کی تکرار کر رہے ہیں کہ شہباز شریف نے لاہور میٹرو بس پر 70ارب روپے خرچ کر دیے حالانکہ اس پر اصل اخراجات 30ارب روپے تھے ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل بھی اس کی تصدیق کر چکی۔ بجلی کے لوڈ شیڈنگ بڑھتی ہوئی گرمی کے ساتھ ایک بار پھر عذاب بنتی جا رہی ہے اور کپتان اس حوالے سے بھی پیپلز پارٹی کی مدد کر رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ شہباز شریف 70ارب روپے لاہور میٹرو پر خرچ کرنے کے بجائے بجلی بنانے پر خرچ کرتا تو اہل پنجاب کو آج یہ عذاب درپیش نہ ہوتا۔کیا کپتان کو واقعی اس بات کا علم نہیں کہ لوڈ شیڈنگ کے عذاب کے اصل ذمہ دار پیپلز پارٹی کی (سابق) وفاقی حکومت تھی۔اٹھارویں ترمیم کے باوجود ساورن گارنٹیز وفاقی حکومت ہی مہیا کر سکتی تھی ۔ ٹیرف کا تعین اور بجلی کی ڈسٹریبیوشن بھی NEPRAکے کنٹرول میں تھی۔وفاقی حکومت بد عنوان اور نا اہل ہونے کی شہرت رکھتی ہو تو کوئی سرمایہ کار پاکستان کے کسی حصے میں سرمایہ کاری پر کیوں کر آمادہ ہو گا۔اس سب کچھ کے باوجود گزشتہ پنجاب حکومت نے انرجی کے بعض چھوٹے اور درمیانے درجے کے منصوبوں پر کام کا آغاز کیا ان میں سے کچھ منصوبے آئندہ چند ماہ میں اور بعض چند برسوں میں پیداوار دینے لگیں گے۔ ان میں جرمن کمپنی AEGکے ساتھ 400 میگا واٹ کا آخری منصوبہ بھی شامل ہے ۔
کپتان کا کہنا ہے کہ اس کا بلا شیر کی پھینٹی بھی لگائے گا۔ پھینٹی پر ہمیں یاد آیا ، کپتان ایک میچ میں زیرو پر آؤٹ ہو کر واپس جا رہا تھا کہ پویلین کے پاس ایک بچے نے آٹو گراف بک آگے کر دی تب کپتان کے بلے نے اس بچے کی بھی پھینٹی لگا دی تھی۔
تازہ ترین