• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد (انصار عباسی)شمالی یورپ کے چار ممالک (Nordic)، جنہیں خواتین کے حقوق اور جرائم کی کم ترین شرح کے حوالے سے مثالی ممالک سمجھا جاتا ہے، کے حوالے سے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہاں ریپ کے پریشان کن حد تک واقعات پیش آتے ہیں کیونکہ یہاں نظام انصاف ناکام ہے۔ 

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 2019ء کی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ صنفی مساوات کے حوالے سے دنیا کے صف اول کے ممالک سمجھے جانے والے ملکوں کی فہرست میں آنے کے باوجود چار نارڈک ممالک (ڈنمارک، فن لینڈ، ناورے اور سوئیڈن) میں ریپ کے پریشان کن حد تک زیادہ واقعات پیش آ رہے ہیں اور جنسی زیادتی کے متاثرین کو ان کا اپنا نظام انصاف مایوس کر رہا ہے۔ 

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نقائص سے پر قانون سازی اور وسیع پیمانے پر پھیلی دیومالائی باتیں اور صنفی حوالے سے پائے جانے والے رویوں نے پورے خطے میں جنسی جرائم میں ملوث افراد کو چھوٹ مل جاتی ہے۔ 

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکریٹری جنرل کومی نائیڈو کا کہنا ہے کہ ’’یہ عجیب بات ہے کہ نارڈک ممالک، جہاں صنفی مساوات کو برقرار رکھنے کا زبردست ریکارڈ ہے، میں ریپ کے کیسز بہت زیادہ ہو رہے ہیں۔ 

رپورٹ میں ایسے کیسز کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو سامنے نہیں آتے، اور کہا ہے کہ سماجی رسوائی اور نظام انصاف پر بھروسہ نہ ہونے کی وجہ سے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لڑکیاں اور خواتین ایسے حملوں کو رپورٹ نہیں کرتیں، اور جو رپورٹ کرتی ہیں انہیں جانبدار اور ظالم نظام انصاف یا پھر دقیانوسی قوانین متاثرین کو مایوس کرتے ہیں۔ 

ایک متاثرہ خاتون نے ہمیں بتایا کہ اگر انہیں پتہ ہوتا کہ ان کے ساتھ بعد میں کیا سلوک ہونا ہے تو وہ ریپ کیس کو رپورٹ نہ کرتیں۔ اس خاتون کی کہانی ایسے نظام انصاف میں جمع ہوتی جا رہی ہے جہاں متاثرین کو انصاف نہیں مل رہا۔ 

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ نارڈک ممالک میں ریپ کے متاثرین کو درپیش صورتحال یکساں نہیں ہے لیکن ان ممالک میں پائے جانے والے مجرمانہ نظام انصاف میں متاثرین کو نظرانداز کیا جاتا ہے، انہیں ان کا حق نہیں دیا جاتا اور بڑی ہی آسانی سے خواتین کیخلاف جنسی جرائم میں ملوث افراد کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ 

فن لینڈ کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر سال تقریباً پچاس ہزار خواتین کو جنسی تشدد کے تجربے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں ریپ بھی شامل ہے۔ ان جرائم میں ملوث زیادہ تر افراد کو انصاف کے کٹہرے تک نہیں لایا جا سکا۔

 2017ء میں صرف 209؍ افراد کو ریپ کی سزائیں دی گئیں۔ کچھ متاثرین نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا کہ ان کا پولیس اور نظام انصاف کے حوالے سے تجربہ مثبت اور تعاون سے پر رہا۔ دیگر نے بتایا کہ ریپ اور خواتین کی جنس کے حوالے سے جڑی دیو مالائی باتوں کا نظام انصاف پر گہرا اثر ہے۔ 

جن متاثرین کا انٹرویو کیا گیا ان کے مطابق، نتیجہ چاہے کچھ ہو لیکن یہ پورا عمل پریشان کن، ڈرا دینے والا اور سماج میں رسوائی کا باعث بنانے والا ہے۔ ایک متاثرہ خاتون نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا کہ ٹرائل کے موقع پر میرے ذہن میں یہ خیال آیا اور میں نے اپنے وکیل کو بھی بتایا کہ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ یہ سب ہوگا تو میں ریپ کیس رپورٹ ہی نہ کرتی۔ 

ناروے کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ناوریجن حکام نے ریپ اور دیگر طرح کے جنسی جرائم کی روک تھام کیلئے ضروری اقدامات نہیں کیے اور ساتھ ہی ان نتائج پر بھی غور نہیں کیا جا رہا کہ آخر یہ جرائم ہو کیوں رہے ہیں۔ ریپ کے متاثرین کیلئے صورتحال مشکل ہے کیونکہ وہ رپورٹ کر پاتے ہیں اور نہ ہی طبی مدد لے پاتے ہیں۔ 

کئی ریپ کیسز کے حوالے سے پولیس کو بتایا ہی نہیں جاتا لیکن جو متاثرین رپورٹ کرتے بھی ہیں انہیں نظام انصاف کے خامیوں سے پر عمل اور طوالت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک متاثرہ خاتون نے ایمنسٹی کو بتایا کہ انہوں نے 2016ء کے خزاں میں ریپ کیس رپورٹ کیا تھا اور جب تک کیس ختم ہوا اس وقت تک 2018ء میں موسم بہار ختم ہو رہا تھا۔ 

انصاف کیلئے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔ سوئیڈن میں ریپ کے سب سے زیادہ کیسز ہونے کے باوجود، سزا دینے کا عمل بہت کم یعنی صرف 6؍ فیصد ہے۔ لیکن اس کے باوجود، پولیس کی جانب سے ریپ کے متاثرین کے ساتھ رویہ عمومی طور پر حالیہ برسوں میں بہتر ہوا ہے اور 2018ء میں قانون میں اصلاحات کے بعد پولیس افسران کو پابند کیا گیا ہے وہ فوری طور پر متاثرین کو ان کے حقوق سے آگاہ کریں، وکیل کی سہولت کے متعلق بتائیں اور مفت خدمات فراہم کریں۔ 

سوئیڈن میں جوڈیشل نظام میں پائی جانے والی خامیوں کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، خصوصاً پولیس کی جانب سے ریپ کیسز کے ساتھ نمٹنے کے معاملے میں بہتری کی ضرورت ہے۔ 

رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ جنسی جرائم کے واقعات کی تحقیقات سست اور فارنسک جائزے میں تاخیر ایسے معاملات ہیں جنہیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔ 

ڈنمارک کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈنمارک میں ریپ کیسز رپورٹ نہ کرنے کے واقعات بہت زیادہ ہیں اور اگر خواتین پولیس اسٹیشن چلی بھی جائیں تو مجرموں کو سزائیں سنانے کے امکانات بہت کم ہیں۔ 

حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ صرف 2017ء میں 24؍ ہزار خواتین کو ریپ یا ریپ کی کوشش جیسے تجربات برداشت کرنا پڑے، صرف 890؍ کیسز پولیس کو رپورٹ کیے گئے۔ ان میں سے 535؍ میں مقدمہ چلایا گیا جبکہ صرف 94؍ کیسز میں سزائیں سنائی گئیں۔

تازہ ترین