• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قید میں حمزہ شہباز کو کورونا ہو گیا ہے۔ حمزہ شہباز قيد کے دوران جب کبھی بھی اسمبلی کے اجلاس میں نظر آئے تو انہوں نے مکمل احتیاطی تدابیر اختیار کر رکھی تھیں پھر مرض تو قید میں ہی کہیں آ کر چمٹ گیا مگر کیسے؟ کیا اس بات کی احتیاط سرکاری ملازم نہیں کر رہے تھے کہ پنجاب اسمبلی کے قائدِ حزب اختلاف کو اس وبا سے کیسے محفوظ رکھا جا ئے۔ جان بوجھ کر یا نادانستہ طور کوئی گڑ بڑ تو ہوئی ہے۔ ایسا رویہ صرف اس لئے روا رکھا جا رہا ہے کہ کسی طرح نواز شریف کو توڑ ڈالا جائے، بیٹوں کی مانند عزیز بھتیجے کو صعوبتیں دینے کا حربہ نواز شریف کو توڑنے کے لئے پہلی بار استعمال نہیں کیا جا رہا ہے، ابھی حمزہ شہباز طالب علم ہی تھا کہ سیاست اور دیگر معاملات زندگی سے جتنا کسی سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے طالب علم کا تعلق ہو سکتا ہے اتنا ہی تعلق حمزہ شہباز کا بھی تھا مگر انیس سو نوے کی دہائی کی جمہوریت اس سوجھ بوجھ سے عاری تھی کہ سیاسی نوعیت کی گرفتاری کسی کی وقتی انا کی تسکین اور دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث بن سکتی ہے مگر اس سے کسی کے سیاسی قلعے میں، اس کی سیاسی حمایت میں نقب لگانا ممکن نہیں ہو سکتا ہے بلکہ یہ مستقبل کے مسائل میں اضافہ کا باعث ہوگا مگر اتنا سمجھنا اس وقت ممکن نہیں تھا۔ حمزہ شہباز قید کی یادیں تازہ کرتے ہوئے موجودہ اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی سے اپنی گفتگو بھی دہرا دیتے ہیں۔ پرویز الٰہی بھی اُدھر ہی قید تھے اور اُسی کشتی کے سوار تھے کہ جس کشتی کے سربراہ میاں محمد نواز شریف تھے مگر جب مشرف نے آئین کو پامال کر ڈالا تو جلد از جلد اس کی قربت کے خواستگار بن گئے حالانکہ ان کا لیڈر نواز شریف مشرف کی قید میں تھا۔ بہرحال مشرف کا عہد اپنی پوری طاقت کے ساتھ نمودار ہو گیا کہ جس کے اثرات آج بھی نظام کو ہچکولے دے رہے ہیں۔ اس وقت بھی مشرف نے آخری وقت تک اپنے غیظ و غضب کا نشانہ بنانے کے لئے حمزہ شہباز کا ہی انتخاب کیا تھا۔ قيد سے لیکر مقدمات کا سامنا مستقل بنیادوں پر حمزہ شہباز کو ہی کرنا پڑتا رہا۔ مقصد صرف ایک تھا کہ نواز شریف کو سیاسی اقدامات سے دور رکھا جا سکے، یہ علیحدہ بات ہے کہ پھر بھی ماضی کی ان دونوں قیدوں کے باوجود نواز شریف کو بروقت سیاسی اقدامات سے دور رکھا جانا ممکن نہیں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ مشرف کی اور اُس سے پہلی قید کے وقت کے لئے نظر انتخاب حمزہ شہباز پر ہی کیوں پڑی، کیا اس وقت سے ہی مسلم لیگ کے مخالفین اس نوجوان کو اپنے لئے خطرہ محسوس کر رہے تھے اور آج بھی خطرہ محسوس کررہے ہیں؟ سیاسی قیادتوں پر جب وہ عمومی سیاست سے ہٹ کر عوامی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات کر رہی ہوتی ہیں تو اس قسم کے مصائب و آلام کا آنا ترقی پذیر ممالک کی ایک ناگزیر حقیقت ہے، جہاں غیرآئینی طور پر طاقت کا بہیمانہ استعمال کیا جاتا ہے اور منتخب لیڈران کو حالات کے جبر سے ڈرایا جاتا ہے۔ جب انیس سو اٹھانوے میں ہوگو شاویز ووٹ کی طاقت سے برسر اقتدار آئے تو وہاں کے طاقتور طبقات نے اس کو اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش شروع کر دی اور جب یقین ہو گیا کہ اس کے عزائم عوامی زندگی میں تبدیلی لانے کی ایک موثر کوشش ہے تو پھر اس کے خلاف ہر حربہ استعمال کرنے لگے یہاں تک کہ 11اپریل 2002کو فوجی بغاوت بھی کروا ڈالی۔ Allan woodنے ہوگو شاویز کی سیاست پر ایک معرکہ آرا کتاب The venezuelan Revolution ( The marxist perspective) تحریر کی تھی۔ اس کتاب میں بغاوت کی وجوہات کو بیان کرتے ہوئے وہ تحریر کرتا ہے کہ ’’جب علم ہو گیا کہ وہ برائے فروخت نہیں تو بالادست طبقے نے اپنی قوتوں کو منظم اور متحرک کرنا شروع کر دیا، انہوں نے درمیانی طبقے کو بھڑکانے اور مشتعل کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ پر اپنے کنٹرول کو بےدردی سے استعمال کرنا شروع کر دیا، انہوں نے سی آئی اے کو اس کی زرخرید بدعنوان ٹریڈ یونین لیڈر شپ سے رجعتی ہڑتالیں کروانے کے لئے استعمال کیا، ویسے ہی جیسے سی آئی اے نے چلی میں سلواڈور الاندے کی حکومت کے خلاف لاری ڈرائیوروں سے ہڑتال کروائی تھی۔ بہرحال جب یہ سب کروا لیا گیا تو پھر ہوگو شاویز کے خلاف 11اپریل 2002کو فوجی بغاوت کر دی گئی۔ اسی کتاب میں ہوگو شاویز مصنف کو فوجی بغاوت کے دنوں کی یاد دلاتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ مجھے قيد تنہائی میں رکھا گیا۔ باغی ایک دستاویز پر دستخط لینا چاہتے تھے، استعفیٰ کی دستاویز، میں نے انکار کر دیا۔ ان کی خواہش یہی تھی کہ جو کچھ عرصہ قبل ہیٹی میں آرسٹائڈ کے ساتھ ہوا تھا وہی میرے ساتھ کیا جائے۔ میں نے استعفیٰ دینے سے انکار کردیا، سازشوں نے چرچ کو بھی میرے خلاف استعمال کیا، کارڈینل کو میرے پاس بھیجا، اس نے میرے سامنے کئی جھوٹ بولے، جیسے میری کوئی حمایت نہیں ہر ایک نے مجھے چھوڑ دیا ہے، فوج مکمل طور پر بغاوت کے ساتھ ہے۔ میرے پاس معلومات کا کوئی ذریعہ نہیں تھا لیکن میں نے پھر بھی انکار کر دیا۔ اگر ہم غور کریں تو ذرائع ابلاغ کے استعمال سے لے کر پنجاب میں صحت کے شعبے میں وائی ڈی اے کی بار بار ہڑتالوں اور مذہبی افراد کے استعمال تک تو ہمیں صاف محسوس ہوگا کہ یہ کہانی تو پاکستان میں بھی اسی طرح دہرائی گئی ہے، وہی حربہ استعمال کیا گیا ہے اور اب اعصاب توڑنے کی غرض سے مریم نواز کو پریشان کرنا ہو یا حمزہ شہباز کو قید میں رکھنا، کھیل ایک ہی طرح کا کھیلا جارہا ہے لیکن زیادہ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہوگو شاویز کے خلاف یہ بغاوت ناکام ہوگئی تھی اور کہانی کا انجام وطن عزیز میں بھی ایسا ہی ہوگا ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین