• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست دانوں کے عمل کی باتیں کرنے کے دن تو کب کے لد چکے تھے۔ یہ ظہر کے وقت ایک ستارہ چمکا، جس نے مسکراہٹ کی تلاش میں دریا، سمندر اور صحرا، سب، پائوں کے چھالوں کے ساتھ عبور کئے۔ اس نے پلٹ کر تاریخ میں نظر ڈالی کہیں سقراط اور کہیں ابنِ رُشد نے اپنے چھالے دکھائے، ان زمانوں کو یاد کروایا جب لاشوں کو قبروں سے نکال کر پھانسی پر چڑھایا گیا تھا۔ کتابیں جلائی گئی تھیں۔ کس طرح مسلمانوں کا عروج، زوال ان باتوں میں چھپا تھا کہ پھر اس نے دوسری جنگ عظیم کا حزنیہ سنانا شروع کیا۔ لاکھوں لوگوں کو مارے جانے کی خبر، فخریہ سنائی جانے لگی۔ ادھر امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایسا بم پھینکا کہ شہر کے شہر اس طرح اجڑ گئے جیسے آج کا بیروت۔ امریکہ نے ویت نام اور بنکاک پر اپنی اجارہ داری جاری رکھی۔ وہ تو ایک بھکشو نے خود کو آگ لگائی تو امریکہ کے پیر اکھڑ گئے۔ ادھر چین نے لانگ مارچ کے ذریعے دنیا میں ایک نئی طاقت کے طور پر ظہور کیا۔ مائوزے تنگ کا نام دنیا میں چمکنے لگا، مگر چینی ادیبوں نے لکھا کہ چونکہ چڑیاں کھیت کے کھیت کھا جاتی ہیں، ان کو مار دیا جائے۔

یہ ساری داستانِ امیر حمزہ اس لئے سنائی کہ جب بیسویں اور اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہیں تو ہمارے مصنف اخبار بانی کو اپنا سایہ ظہیر کی شکل میں مل جاتا ہے، جسے وہ نظر آنے والے منظروں کی تصویر بنانے، افغانستان کی پہاڑیوں پر چڑھ کر بےآسرا بچوں کی مسکراہٹ تلاش کرکے محصور کرنے کی دھن تھی۔ اس نے وہ بچے بھی دیکھے جو ماں کے ساتھ ہجرت کرکے دریا پار کرتے ہیں تو جو زمین ملتی ہے تو چوم کر سو جاتے ہیں۔ وہ چلتا گیا اسے شام، لیبیا، لبنان اور عراق کے وہ بچے نظر آئے جو بمباری سے آشنا، کبھی کہیں چھپ رہے تھے اور کبھی کہیں خوف و ہراس میں ڈوبے، نجف ہوکہ یمن، وہ بچے جن کو اپنوں کی خبر تھی اور نہ یہ معلوم تھا کہ وہ کب تک زندہ رہیں گے۔ ہمارے مصنف نے ظہیر نامی مصور اور اس کی بیوی نگینہ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ چاہے آوران میں جائو یا اٹلی اور جرمنی کے پناہ گزین کیمپوں میں بچوں کی مسکراہٹ تلاش اور مصور کرو۔ ہمارے مصنف نے سوچا، شاید نوزائیدہ بچے کے چہرے پر مسکراہٹ مل جائے مگر اس بچے کے ہونٹ مڑے ہوئے تھے۔ والدین دیکھ کر رو بھی رہے تھے اور بچے کو پیار بھی کررہے تھے۔ میں نے جرمنی کی سرحد پر مہاجر عورت کو روتے ہوئے آزاد ہوتے دیکھا۔ وہ روئے جارہی تھی، اسے اپنی بارہ سالہ بیٹی کو مہاجر کیمپ میں چھوڑ کر جانا پڑ رہا تھا کہ اس کا پاسپورٹ نہیں تھا۔ مجھے میلان کنڈیرا اور بورفس یاد آگئے۔ مجھے تو مارکیز کی دربدری کی داستان بھی یاد آگئی اور پاکستان کے قیام کے وقت چالیس لاکھ عورتوں کے اغوا کے قصے جو چشمِ دید تھے اور پھر بنگال میں بوڑھی گنگا کے کنارے، حاملہ، وہ لڑکیاں یاد آگئیں جن کے ساتھ جسمانی زیادتی کی گئی تھی۔

آئیے واپس اپنے مصور ظہیر کی طرف چلتے ہیں جو اپنی تصویروں کی نمائش ایک گھر میں کرتا ہے۔ پہلے ایک دفعہ نمائش کی تھی۔ کوئی نہیں آیا تھا۔ اب نمائش کے اہتمام میں نگینہ نے گھر گھر جاکر بتایا۔ اس دفعہ کسی ملک کا سفیر بھی آیا۔ بچے گھروں سے باہر آنے پر بےحد خوش تھے کہ کرونا کے باعث پانچ ماہ سے گھروں میں قید تھے۔ بچے تو قہقہے لگا رہے تھے۔ ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈال رہے تھے۔ جب ان کی توجہ ہجرت زدہ بےگھر بچوں کی تصویریں کی طرف دلائی تو معصومیت سے مسکرا کر کہا ’’ان میں سے کوئی بچہ ہنس نہیں رہا‘‘۔ ان معصوم بچوں کو ہجرت کے ستائے، بمباریوں کی مار کھائی شکلوں میں مسکراہٹ کہاں نظر آتی۔ ایک زمانے میں مغرب میں کالے اور ہجرت زدہ بچوں کو گود لینے کا رواج تھا مگر ملک کے ملک اجڑ گئے تھے۔ ان کے خاندانوں کو اقوامِ متحدہ بھی خاموشی سے دیکھ رہی تھی۔ میں تو یہ احوال لکھتے ہوئے کبھی روئی اور کبھی قلم چھوڑ کے بیٹھ گئی مگر ہمارا مصنف رضا ربانی، مختصر خاکوں کے ذریعے جو احوال بیان کررہا ہے۔ یہ وہ نوحہ ہے جسے سارا جہان دیکھ رہا ہے۔ بین الاقوامی ایجنسیاں خاکی تھیلوں میں پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے کچھ نہ کچھ دے رہی ہیں مگر چاہے روہنگیا کے مسلمان ہوں کہ فلسطین، یمن لیبیا کے، ان کی آبادی کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہورہی۔ ارے میں کہاں نکل گئی۔ ایک سیاست دان بھی اس عالمی المیے پر کچھ لکھ سکتا ہے۔ مجھے مصر کے عظیم رائٹر نجیب محفوظ اور ترکی کا عالمی انعام یافتہ اوحان پاموک یاد آرہے ہیں۔ اوحان ترکی میں رہ کر یہ سب کچھ نہیں لکھ سکتا تھا۔ جیسے سارے عراقی اور فلسطینی شاعروں نے دوسرے ملکوں میں جاکر اپنی زمین کا نوحہ لکھا ہے۔ اچھا ہوا اس میں سے چند مر گئے ورنہ وہ بھی عرب ملک کے اوپر سے گزرتے اسرائیلی جہازوں کو دیکھ کر ہم یتیموں کی سی شکل بنالیتے۔ دنیا میں اس وقت ایک مسکراہٹ بھی نہیں۔ بس کورونا ہے۔

تازہ ترین