• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپوزیشن کی کل جماعتی کانفرنس جس سے سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی آن لائن خطاب کیا، بظاہر ملکی سیاست میں ایک اہم موڑ نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے پہلے دن سے اپوزیشن کا اگرچہ یہ دعویٰ ہے کہ یہ آئی نہیں بلکہ لائی گئی ہے لیکن اس کے خلاف متحد ہوکر کسی عملی مہم جوئی کے راستے پر کوئی قابلِ لحاظ پیش رفت دو سال کے اس عرصے میں پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ تاہم جمہوری ملکوں کی طرح حکومت اور اپوزیشن کے درمیان افہام و تفہیم کی وہ فضا بھی اس دور میں ایک دن بھی قائم نہیں ہوئی جو باہمی مشاورت سے قانون سازی کرنے اور ملک چلانے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو کرپٹ قرار دے کر دو سال سے ان کے احتساب میں مصروف ہے، جس کا کوئی نتیجہ ابھی تک برآمد نہیں ہوا، اس کے باوجود یہ سلسلہ کہیں تھمتا نظر نہیں آتا۔ دوسری جانب اپوزیشن اس دو سالہ دور میں ملک میں ہونے والی بےپناہ مہنگائی، معاشی زبوں حالی، آزادی اظہار پر پابندیوں وغیرہ پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔ اس کا موقف ہے کہ حکمرانوں کی نااہلی پوری طرح ثابت ہو چکی ہے اور اب قوم کو ان سے نجات دلانا ضروری ہو گیا ہے۔ گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی کے زیرانتظام آل پارٹیز کانفرنس اپوزیشن کی اسی سوچ کا مظہر تھی۔ کانفرنس کے 26نکات پر مشتمل اعلامیے میں حکومت کو دس دن کا الٹی میٹم دیتے ہوئے اکتوبر سے تحریک شروع کرنے اور جنوری میں لانگ مارچ اور دھرنے جبکہ مناسب وقت پر پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس مقصد کی خاطر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے سیاسی اتحاد عمل میں آیا ہے۔ اپوزیشن کے مطالبات میں وزیراعظم سے فوری استعفیٰ دینے اور نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ سرفہرست ہے۔ دیگر مطالبات میں انتخابی اصلاحات کا نیا قانون بنانے اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کے مطالبات خاص طور پر اہم ہیں جبکہ میثاق جمہوریت پر نظرثانی کیلئے کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ آئین پر عمل کرنے والے کٹہروں میں کھڑے ہیں یا جیلوں میں ہیں‘ یہ فیصلہ کن موڑ ہے اور ہمیں وہ فیصلے کرنا ہوں گے جن کی ملک کو ضرورت ہے۔ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے حکومت مخالف تحریک میں سب سے پہلے خود جیل جانے کے عزم کا اظہار کیا۔ بلاول بھٹو کا موقف تھا کہ کٹھ پتلی نظام مسلط کرنے والوں کو سمجھنا ہوگا کہ یہ سلسلہ مزید نہیں چل سکتا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن جماعتوں سے فوری استعفے کا مطالبہ کیا مگراس پر اتفاق رائے نہ ہو سکا۔ اعلامیے میں واضح کیا گیا ہے کہ 1973کے آئین، 18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور صدارتی نظام رائج کرنے کا منصوبہ کسی طور قبول نہیں۔ قرارداد میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد، غیرجانبدار ججوں کے خلاف ریفرنسوں کے خاتمے‘ آغاز حقوق بلوچستان پر عمل یقینی بنانے اور گلگت بلتستان میں مداخلت سے پاک انتخابات کرانے کے مطالبات بھی کیے گئے ہیں۔ تاہم حکومتی شخصیات کا موقف ہے کہ اپوزیشن رہنما یہ سب احتساب سے بچنے کے لئے کررہے ہیں لیکن ان کو ’این آر او ‘ نہیں ملے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک طرف اپوزیشن غیرجانبدارانہ اور منصفانہ احتساب کے قانون کے خدوخال واضح کرکے اور اس کے تحت احتسابی عمل میں مکمل تعاون کی واضح یقین دہانی کراکے ثابت کرے کہ اس کی تحریک احتساب سے فرار کے لئے نہیں بلکہ قومی معاملات کی درستگی کے لیے ہے جبکہ حکومت اپوزیشن کی تنقید کا جواب صرف احتساب سے بچنے کی کوشش کے الزام کی شکل میں دینے کے بجائے مستند اور قابل اعداد وشمار اور دلائل کے ساتھ دے ورنہ دونوں فریق عوام کی نگاہ میں غیرمعتبر ٹھہریں گے۔

تازہ ترین