• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سید طارق محمود الحسن۔۔۔لندن
حالیہ بارشوں نے کراچی کو ایک سنگین بحران میں مبتلا کر دیا، کئی دنوں تک معاملات زندگی مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گئے مگر پھر ہوا کا رخ تبدیل ہوتا ہوا محسوس ہوا، وہ شہر جو ہمیشہ اپنے مسائل کے حل کے لیے دربدر رہا، اچانک ہر طرف سے اس کے مسائل کے حل کے لیے آوازیں بلند ہونے لگیں۔ ان آوازوں میں الزامات تھے، غصہ تھا، بے وفائی کے شکوے اور سرد مہری کے برتاؤ کا رونا بھی۔ ان میں ماضی کے قصے بھی تھے اور مستقبل کی امیدیں بھی۔ انہی آوازوں میں مسائل کا ادراک بھی تھا اور حل کی نشاندہی بھی۔ کہتے ہیں ہر مشکل میں کوئی بہتری کا پہلو ضرور پوشیدہ ہوتا ہے، کراچی کے حالات پر ایسے ہی خیالات کا اظہار وزیراعظم عمران خان نے بھی کیا۔ کراچی کے حق میں آواز تو ہر ایک نے اٹھائی، سندہ حکومت، وفاقی حکومت، اتحادی، حزب اختلاف اور ہر سیاسی جماعت بول اٹھی کے اب کراچی کے مسائل کا حل ہونا ناگزیر ہے۔ انہی امید بھری افواہوں کے حصار میں وزیر اعظم چند روز قبل کراچی کی تاریخ کے سب سے بڑے ترقیاتی پیکج کا اعلان کرنے بذات خود کراچی پہنچے۔ وزیراعظم نے پاکستان کے معاشی گڑھ کے لیے 1100 ارب روپے کے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا، اس پلان کو کراچی ٹرانسفارمیشن پلان بھی کہا جا رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نےوزیراعلی مراد علی شاہ اور گورنر سندھ عمران اسماعیل کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کے ان پیسوں سے کراچی کے مرکزی مسائل جیسے پانی، نالوں کی صفائی، سیوریج کا نظام، ٹرانسپورٹ اور سالڈ ویسٹ کو حل کیا جائے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی ظاہر کیا گیا کے اب وفاق اور سندہ حکومت مل کر کام کرے گی۔ عملدر آمد کے لیے پرونشل کوآرڈینیشن امپلی منٹیشن کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا جس کی سربراہی وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کو دی گئی جب کہ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز بھی شامل ہوں گے۔ تاہم یہ اتحاد دوسرے دن سے ہی خطرے میں دکھائی دینے لگا جب پیکج سندھ اور وفاق میں ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ سب سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بیان داغا جن کا کہنا تھا کے 1100 ارب روپے کے پیکیج میں سے 800 ارب روپے سندھ حکومت کی جانب سے جب کہ باقی 300 ارب روپے وفاق کی جانب سے دئیے جائیں گے اور ساتھ ہی سندہ حکومت کے ترجمان مرتضی وہاب کی طرف سے کہا گیا کہ وفاقی وزیر اسد عمر کی جانب سے دیا گیا تاثر غلط ہے کہ 62 فیصد حصہ وفاقی حکومت دے گی، اس لیے پیکیج کے متعلق ہمیں وفاق کی نیت پر شک ہے۔ وفاق نے بھی جوابی وار میں توقف نہیں کیا اور وفاقی حکومت کے ترجمان شبلی فراز نے کہاسندھ حکومت کو براہ راست پیسے نہیں دئیے جا سکتے کیوں کہ ان پر اعتبار نہیں، وزیر اعلیٰ سندھ نے کراچی پیکیج کے حوالے سے کنفیوژن پیدا کی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ جو پیسہ دیں وہ کراچی میں لگے۔ بیان بازی کا سلسلہ یہیں منقطع نہیں ہوا، وفاقی حکومت کی جانب سے شہباز گل میدان میں اترے جنہوں نے مرتضیٰ وہاب کوجھوٹے کا لقب دیا، جواب میں مرتضیٰ وہاب نے بے شرمی اور ہٹ دھرمی کے طعنے دئیے۔ اس الجھن کو دور کرتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے بتایا کہکراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے تحت پانچ منصوبوں پر کام کیا جائے گا جن پر تقریباً 736 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ ان منصوبوں میں کے 4 پراجیکٹ، کراچی سرکلر ریلوے، ریلوے فریٹ کوریڈور، گرین لائن بی آر ٹی پراجیکٹ، ندی نالوں کی صفائی اور ان کے رہائشیوں کی آباد کاری شامل ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس پلان کے لیے وفاقی حکومت سپریم کورٹ آف پاکستان سے بحریہ ٹاؤن سیٹلمنٹ فنڈ میں سے 125 ارب روپے استعمال کرنے کی درخواست بھی کرے گی۔ ہمیں امید ہے کہ یہ رقم تین سال کی مدت میں ہمیں حاصل ہو جائے گی۔ اسد عمر کے مطابق اس حساب سے وزیر اعظم کے اعلان کردہ 1100 ارب روپے کے پیکیج میں حکومت کی جانب سے 611 ارب روپے شامل کیے جارہے ہیں، جب کہ سندھ حکومت کی جانب سے اس پیکج میں تقریباً آدھی رقم یعنی 375 ارب روپے دیے جائیں گے لیکن عوام کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کس سے کیا ملا، عوام تو یہ پوچھتے ہیں کہ جو ملا وہ کہاں لگا۔ سوچنا یہ ہے کے کراچی نے کیا کھویا اور کیا پایا، 11 سو ارب بہت بڑی رقم ہوتی ہے، ایک ارب روپے کا حجم سمجہنے کے لیے یہ جان لیں کے اگر آپ کے پاس ایک ارب روپے ہوں اور اس میں سے روزانہ 50 ہزار روپے خرچ کریں تو ایک ارب روپے خرچ کرنے میں 54 سال لگیں گے۔ اس معاملے کو ایک اور انداز سے بھی سمجھا جا سکتا ہے، اگر آپ دن کے 24 گھنٹے بغیر کھائے، پیئے اور سوئے، ہر سیکنڈ میں ایک روپیہ سمندر کے کنارے کھڑے ہو کر پانی میں بہانا شروع کر دیں تو بھی ایک ارب روپے ختم ہونے میں 32 سال لگیں گے، تین سال میں 11 سو ارب روپے خرچ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اوسطً کراچی پر اگلے تین سال تک روزانہ ایک ارب روپیہ خرچ ہو گا۔ کہا جا رہا ہے کہ ان 11 سو ارب کے خرچ کی تقسیم کچھ یوں ہو گی، پانی کی فراہمی پر92 ارب روپے، سیوریج پر 141 ارب روپے ، ماس ٹرانزٹ پر 572 ارب روپے ، سالڈ ویسٹ، بارش کے پانی کی نکاسی، تجاوزات اور آبادکاری وغیرہ پر 267 ارب روپے ،سڑکوں کی تعمیر پر 41 ارب روپے، کراچی کی موجودہ حالت زار دیکھ کر یہ تصور کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ماضی قریب میں ہی کراچی کو روشنیوں کے شہر سے منسوب کیا جاتا تھا۔ یوں تو اس علاقے میں آبادی کے آثار 500 قبل از مسیح تک ڈھونڈے جا سکتے ہیں، مگر کراچی شہر کی بنیاد 1729 میں بلوچستان اور مکران سے تعلق رکھنے والے بلوچ قبیلوں نے رکھی جسے کلاچی کہا جاتا تھا، لوک کہانیوں کے مطابق یہاں مائی کولاچی نامی ایک خاتون نے مچھیرا بستی آباد کی تھی۔ اس قبیلے سے تعلق رکھنے والے لوگ آج بھی کراچی بندرگاہ کے ساتھ واقع عبداللہ گوٹھ نامی جزیرے پر مقیم ہیں، ان میں بیشتر افراد آج تک سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر گزر بسر کرتے ہیں۔ اسی نسبت سے کراچی کا ایک مشہور علاقہ مائی کولاچی کہلاتا ہے۔ 1960 کی دہائی میں کراچی کو معاشی اعتبار سے رول ماڈل تصور کیا جاتا تھا۔ آج کی دنیا کے کئی نامور ممالک کراچی کے معاشی ماڈل کو فالو کرنا چاہتے تھے، جن میں جنوبی کوریا سر فہرست تھا۔ آج دنیا کے بہترین شہروں میں گردانِ جانے والا شہر سیول ہے جو جنوبی کوریا کا دارالخلافہ ہے اور اس کی بنیاد کراچی کے ماڈل پر رکھی گئی تھی۔ 1965 کے صدارتی الیکشن کے بعد کراچی کے زوال کا سفر شروع ہوا۔ 1972 میں پرائم منسٹر ذولفقارعلی بھٹو کے دور حکومت میں دنگوں اور غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر کراچی کی معیشت تنزلی کا شکار ہوئی۔ ضیاءالحق کے مارشل لاء کے زیر سایہ 1977 سے 1980 تک امن اور خوشحالی کا دور لوٹ آیا مگر پھر 80 اور 90 کی دہائی میں افغان مہاجرین کی کثیر تعداد کراچی میں آباد ہونا شروع ہوئی، جس کا نتیجہ سیاسی انتشار اور گینگ وار میں نکلا۔ بانی ایم کیو ایم نے مسلح گروہ تیار کیے، جن سے نمٹنے کے لئے 1992 سے 1994 تک آرمی کی جانب سے آپریشن کیا گیا۔ آنے والے کئی سال تک کراچی میں پانی کی طرح خون بہہ، ذات پات کے نام پر سیاسی بندر بانٹ کا راج تھا اور شہر کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ سکیورٹی فورسز کی طویل جدوجہد کے بعد آج کراچی شہر کی امن و آمان کی صورت حال کافی بہتر دکھائی دیتی ہے اور اسے ایک محفوظ شہر تصور کیا جاتا ہے۔ مگر کئی دہائیوں کی دھینگا مشتی میں کراچی اور کراچی میں بسنے والوں کا ناقابل تلافی نقصان ہو چکا ہے۔ آج کے دن کے کراچی کے مسائل کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں تو ان میں صاف پانی کی فراہمی، خستہ حال پبلک ٹرانسپورٹ، قبضہ مافیا، غیر فعال تعلیمی انفراسٹرکچر، فنڈز کی کمی، ویسٹ مینجمنٹ اور اربن پلانگ کا فقدان سر فہرست نظر آتے ہیں چونکہ کراچی کے مسائل سال ہا سال کی غیر ذمہ داری اور بے حسی سے پیرا کیے گئے ہیں لہذا انہیں حل کرنے کے لیے فنڈز کے ساتھ ساتھ اقتدار کے اعوانوں میں رہنے والوں کے رویوں میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ کراچی کی کل آبادی کا صحیح تعین کر کے ایک جامع پلان مرتب کرنا لازم ہو چکا ہے۔ 
تازہ ترین