ایک طرف سیاسی انتشار میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف حکومت نے غیر دانشمندانہ فیصلوں سے عوامی اضطراب میں اضافہ کردیا ہے، بیٹھے بٹھائے اچانک ادویات کی قیمتوں میں 262 فیصد تک اضافہ ’’مرے کو مارے شاہ مدار ‘‘کے مترادف ہے جس نے عوام کی رہی سہی کمربھی توڑ کر رکھ دی ہے، وہ ادویات بھی ان کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں جو روزمرہ بیماریوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، ابھی تک حکومت کی طرف سے جو اس فیصلہ کے حوالے سے دلیل سامنے آئی ہے۔
وہ اس قدر بودی ،احمقانہ اور مضحکہ خیز ہے کہ جس کی کوئی ذی شعور حمایت نہیں کر سکتا ،گویا ریاست ملک میں موجود مافیا زکے سامنے سرنگوں ہو گئی ہے اور ان کے فیصلوں کی بنیاد پر اپنے فیصلے نافذ کرنے لگی ہے، کیونکہ ادویات مارکیٹ میں دستیاب نہیں تھیں اس لیے ان کی قیمتیں کئی سو فیصد بڑھا دی گئی ہیں تاکہ ان کی دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے، اس کا مطلب تو یہ ہے کہ جو چیز بھی نایاب ہو گئی اس کی فراہمی کو یقینی بنانے کی بجائے حکومت اسے بنانے والوں کو کھلی چھوٹ دے دی گی کہ وہ من چاہی قیمتیں رکھے ،ناجائز منافع کمائے ،مگر ان کی فراہمی کو یقینی بنائے ۔کیا ملک میں عوام کی قوت خرید اتنی ہے کہ قیمتیں جتنی مرضی بڑھا دی جائیں وہ اشیاء کو خرید سکیں ،کیا یہ بات حکومت کے علم میں نہیں کہ عوام کی آمدنی کے ذرائع سکٹر گئے ہیں اور اخراجات میںبے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے۔
مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے لوگوں کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے مگر دوسری طرف حکومت کے مشیران کرام ایسے فیصلے کر رہے ہیں کہ جیسے عوام خوشحال ہوگئے ہیں اور ان کی آمدنی میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے ۔ مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے حکومت کے اس فیصلہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا، ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ہر شعبے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں ان کی حکومت اپنا جواز کھو چکی ہے، وہ مہنگی ادویات عوام کی دسترس سے دور لے جا چکے ہیں، اب انہیں مارکیٹ میں فراہم کر دیا جائے تو بھی عوام میں اتنی سکت ہی نہیں کہ وہ شدید بیماری میںبھی انہیں خرید سکیں ،جبکہ ہسپتالوں کا یہ عالم ہے کہ وہاں شہبازشریف دور میں جو مفت ادویات ملتی تھی انہیں بند کر دیا گیا ہے۔
الٹا تشخیصی ٹیسٹوں کی فیسیں اتنی بڑھا دی گئی ہیں کہ عام آدمی کا سرکاری ہسپتالوں میں علاج بھی ناممکن ہو گیا ہے،اگریہ حکومت مزید رہی تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا، اس لیے اس نااہل حکومت کو رخصت کرنا از حد ضروری ہے ،آل پارٹیزکانفرنس نے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا بروقت فیصلہ کیا ہے، تحریک کی کامیابی کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو اپنے اختلافات بھلا کر جدوجہد کرنا ہوگی ۔ ادھر مسلم لیگ ن کے مرکزی جنرل سیکرٹری احسن اقبال ملتان آئے تو انہوں نے ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اورمسلم لیگ لائرز فورم کے ساتھ ساتھ ورکرز کنونشن سے بھی خطاب کیا انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کسی شخص کے خلاف نہیں ہے ،لیکن اب یہ بات قومی مفاد میں ہوگی کہ اس غیر نمائندہ ،جعلی اور نااہل حکومت کو چلتا کیا جائے ، ان کا کہنا تھا کہ ریاستی اداروں کے ساتھ اپوزیشن کی کوئی محاذ آرائی نہیں ہے۔
یہ تاثر خود حکومت دینے کی کوشش کرتی ہے تاکہ اس کی آڑ میں اپنی نااہلی کو چھپا سکے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف نے کبھی کسی ادارے کے خلاف بات نہیں کی، بلکہ صرف جمہوریت اور آئین کا تذکرہ کیا ہے اور آئین میں جو اصول وضع کیے گئے ہیں ان کے مطابق وہ ملک میں جمہوری نظام دیکھنا چاہتے ہیں، احسن اقبال نے یہ بھی کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت جنوبی پنجاب صوبہ کے نام پر عوام کے ساتھ مذاق کر رہی ہے، وہ اگر واقعی جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانا چاہتی ہے تو اسمبلی میں بل لائے ، مسلم لیگ ن اس کی بھرپور حمایت کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے بھی مسلم لیگ ن جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کے لیے کوشش کرچکی ہے ،لیکن اس کے لئے اتفاق رائے پیداکرنا ضروری ہے، لیکن تحریک انصاف کی حکومت اتفاق رائے پیدا کرنے کی بجائے جنوبی پنجاب صوبہ کے معاملہ کو تقسیم اور متنازعہ بنا رہی ہے ،احسن اقبال کے بیان پر سرائیکی قوم پرستوں نے شدید تنقید کی ہے ان کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں اس معاملے میں دوہرے معیار کا شکار ہیں ، جب ان کے رہنما جنوبی پنجاب کے دورے پر آتے ہیں تو علیحدہ صوبہ کی بات کرتے ہیں لیکن لاہور جاتے ہیں ان کے سارے خیالات بدل جاتے ہیں۔
مسلم لیگ ن نے سب سے پہلے بہاولپور اور ملتان کو صوبہ بنانے کا شوشہ چھوڑا تھا ،جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا مطالبہ تنازعات کا شکار ہوا، ایک بار پھر مسلم لیگ ن جنوبی پنجاب کے مسئلہ پر پر صرف سیاست کر رہی ہےاوراس کا دور دور تک یہ ارادہ نہیں ہے کہ جنوبی پنجاب میں علیحدہ صوبہ بنے ،کیونکہ وہ تخت لاہور کی نمائندہ ہے اور پورے پنجاب پر اپنی حکمرانی کا خواب دیکھ رہی ہے۔دوسری طرف پنجاب حکومت نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی خودمختاری کا نوٹی فیکیشن جاری کر دیا ہے اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو چیف سیکرٹری کے تمام تر اختیارات دیئے گئے ہیں۔
اس طرح ایڈیشنل آئی جی بھی جنوبی پنجاب کی سطح پر اپنے معاملات میں خود مختار ہوں گے ،یہ ایک بڑی پیش رفت ہے کیونکہ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ جنوبی پنجاب کے سیکریٹریٹ کو بھی لاہور سے بیٹھ کر چلایا جائے گا، لیکن پنجاب حکومت کے نوٹی فکیشن کے بعد صورتحال تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے اگرایڈیشنل چیف سیکرٹرہ کو خود مختاری ملتی ہے تو ان کے ماتحت مختلف محکموں میں کام کرنے والے مختلف سیکرٹریزبھی اپنے شعبوں میں خودمختاری سے فیصلے کر سکیں گے، اس طرح واقعتاً لوگوں کو لاہور جانے کی بجائے جنوبی پنجاب کے دو شہروں ملتان اور بہاولپور میں اپنے مسائل کے حل کی سہولت مل جائے گی۔
ملتان میں گذشتہ ہفتہ مختلف مذہبی تنظیموں(اتحاد اہل سنت پاکستان ) کی طرف سے ناموس رسالتﷺ ، و احترام وعظمت صحابہ کرامؓ اور اہل بیت ؓکے حق میں ایک بہت بڑی ریلی کا اہتمام کیا گیا، جس میں بلاشبہ لاکھوں افراد شریک ہوئے، اس ریلی کی وجہ سے پورا دن ملتان کا آدھا علاقہ بند رہا ،کیونکہ میلوں پر محیط انسانوں کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر اپنی عقیدتوں کے اظہار کے لیے سڑکوں پر نکل آیا ہے، اتنی بڑی ریلی کے باوجود بدامنی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا اور ریلی کے شرکاء نے انتہائی پرامن انداز میں اس ریلی کو کامیاب بنایا۔