• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِس عہدِ ظلم و جور میں یہ بھی غنیمت ہے کہ ہم اپنے ربِ کریم سے خیر کی دعا مانگتے رہتے ہیں۔ وہ تو ہم سے خیر ہی سے پیش آتا ہے اور ہماری بداعمالیوں پر وہ سزائیں نہیں دیتا جو پچھلی اُمتوں کو دی جاتی رہی ہیں۔ حقیقت اور سچ تو یہ ہے کہ ہر وہ برائی جس کا تصور کیا جا سکتا ہے، وہ ہمارے معاشرے میں رچ بس گئی ہے۔ لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر تین بچوں کی ماں کے ساتھ جو دل دہلا دینے والا ظلم ہوا، تو درندوں پر ضرور آسمان گر پڑتا اور اُن پولیس افسروں کے پیروں تلے زمین پھٹ جاتی جو شہریوں کی جان، مال اور آبرو کے محافظ بنائے گئے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ وہ ایسے مناظر پر غضب میں نہیں آ جاتا اور اپنے بندوں کو استغفار اور اِصلاح کی مہلت عطا کرتا رہتا ہے۔

چھ سات ماہ پہلے کورونا وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ پاکستان بھی زد میں آیا، مگر اللہ تعالیٰ نے اِس میں بسنے والوں پر خاص فضل کیا اور مرض میں کمی آتی رہی، البتہ خطرات آج بھی منڈلا رہے ہیں۔ ہم اپنے ربِ کریم سے فضل مانگتے اور اِس کے احکام پر عمل کرتے رہے، تو واثق اُمید ہے کہ بلا ٹل جائے گی اور اِس عرصے میں سائنس دان ویکسین بھی تیار کر لیں گے۔ اصل ضرورت اِس بات کی ہے کہ تمام حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں اور پاکستان کے اندر بھی ویکسین تیار کرنے کی کوئی سبیل نکالی جائے۔ آخر مغرب ہی کو ہر ایجاد کا اعزاز کیوں ملے؟ مسلم سائنس دانوں میں بھی پوٹینشل موجود ہے، وہ کیوں اِسے بروئےکار نہیں لاتے۔ انسانی فلاح کی نیت سے کام شروع کیا جائے، تو وہ ضرور بارآور اور نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے۔ ہمیں اِس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے کہ تمام کائناتوں کا خالق جو رحمٰن الرحیم ہے، وہ تو انسانوں پر نعمتوں اور برکتوں کی بارش کرتا رہتا ہے، مگر اِس کے بندے اپنے اَندر وہ اَوصاف پیدا کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش نہیں کرتے۔ رحمٰن کے اصلی بندوں کے اوصاف سورۂ فرقان میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ ہم اگر اِن خوبیوں کی نشوونما پر توجہ دیں اور اِنہیں پورے اہتمام کے ساتھ معاشرے کے اندر پھیلانے کا بندوبست کریں، تو ہمیں روحانی آسودگی حاصل ہو گی، سوسائٹی میں عدل بھی قائم ہوتا جائے گا اور ہماری اشرافیہ منافقت اور تکبر بھری زندگیوں سے بھی نجات پا لے گی۔

سورۂ فرقان کے آخری رکوع میں ارشاد ہوا ہے ’’رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں‘‘۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اِس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے’’یعنی تکبر سے اکڑتے اور اینٹھتے ہوئے نہیں چلتے۔ جابروں اور مفسدوں کی طرح اپنی رفتار سے اپنا زور جتانے کی کوشش نہیں کرتے، بلکہ اُن کی چال ایک شریف، ایک سلیم الطبع اور نیک مزاج آدمی کی سی چال ہوتی ہے‘‘۔ قرآن، رحمٰن کے بندوں کی مزید صفات بیان کرتا ہے ’’اور جاہل اُن کے منہ آئیں، تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔ جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزار دیتے ہیں۔ جو دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے، اِس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے، وہ بڑا برا مستقر اور مقام ہے۔ وہ جو خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچ کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ اُن کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔‘‘

اُن کے بارے میں مزید ارشاد ہوا ہے ’’اللہ کے سوا اور کسی کو معبود نہیں پکارتے۔ اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے اور نہ زَنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ کام جو کوئی کرے گا، وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا۔ قیامت کے روز اُسے سخت عذاب دیا جائے گا اور اِسی میں وہ ذلت کے ساتھ پڑا رہے گا۔ اِلا یہ کہ کوئی اِن گناہوں کے بعد توبہ کر چکا ہو اور ایمان لا کر عملِ صالح کرنے لگا ہو۔ ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا۔ وہ بڑا غفور الرحیم ہے ۔ جو شخص توبہ کر کے نیک عملی اختیار کرتا ہے، وہ تو اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے جیسا کہ پلٹنے کا حق ہے (اور رَحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز کا اُن پر گزر ہو جائے، تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔ جنہیں اگر اپنے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جائے، تو وہ اِس پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں رہ جاتے۔ جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بیویوں اور اَپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے صبر کا پھل منزلِ بلند کی صورت میں پائیں گے۔ آداب و تسلیمات سے اُن کا استقبال ہو گا۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ وہاں رہیں گے، کیا ہی اچھا ہے وہ مستقر اور مقام‘‘۔

مفسرِ قرآن سید ابوالاعلیٰ مودودی ’’پرہیز گاروں کا امام‘‘ بننے کی دعا کی وضاحت میں رقم طراز ہیں ’’یعنی ہم تقویٰ اور اطاعت میں بہت بڑھ جائیں۔ نیکی اور بھلائی میں سب سے آگے نکل جائیں۔ محض نیک نہ ہوں بلکہ نیکوں کے پیشوا ہوں اور ہماری بدولت دنیا بھر میں نیکی پھیلے۔ اِس چیز کا ذکر یہاں یہ بتانے کے لیے کیا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مال و دولت اور شوکت و حشمت میں نہیں، بلکہ نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ کو کس قسم کے بندے پسند ہیں، اِس کی مکمل تصویر سامنے آ گئی ہے۔ اب ہم پر لازم ہے کہ اپنے اندر اِن اَوصاف کی پرورش کو اوّلین ترجیح دیں تاکہ انسانیت ہر نوع کے عذاب سے محفوظ رہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین