• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عام انتخابات اب کافی نزدیک آچکے ہیں۔ جن کے بارے اندازے اور کہنا یہ تھا کہ شاید الیکشن نہیں ہوں گے، اب کسی حد تک غلط ہوتے نظرآ رہے ہیں اگرچہ انتخابی جلسوں میں بم دھماکے اور حملے بھی جاری ہیں مگر لوگوں کے اندر اب جوش و جذبہ نظرآرہاہے۔ لوگ مررہے ہیں اور حکومت صرف بیان بازی پر لگی ہوئی ہے۔ عوام سے زیادہ بے قراری اور ہائی بلڈپریشر امیدواروں میں پیدا ہوچکاہے۔ ایک واقف ِ حال بتا رہے تھے کہ بعض امیدوار تو بیچارے روزانہ بلڈپریشر کم کرنے کی ادویات لے رہے ہیں۔ بے چارے بعض سیاستدانوں کو آج کل عارضی شوگر کا مرض لاحق ہوچکاہے۔ ارے بھائیو! زندگی اورصحت سے بھی بڑی کوئی چیزہے؟ صحت ہی نہ رہی تو پھرالیکشن جیت کر کیاکروگے؟ کتنی دلچسپ حقیقت ہے کہ بڑی پارٹیوں کے رہنما بار بار یہ ارشاد گرامی فرما رہے ہیں کہ اب کی بار عوام انہیں لے آئے پھردیکھو کیا کرتے ہیں۔ کوئی بجلی دینا چاہتاہے، کوئی ملازمتیں، کوئی کرپشن ختم کرنا چاہتا ہے تو کوئی تعلیم اورصحت کی سہولیات دینے کا دعویدار ہے۔ اور صاحبو! پچھلے برس ہا برس سے یہ بڑی پارٹیوں والے کبھی ا یوان وزیراعظم میں توکبھی ا یوان وزیراعلیٰ میں رہے ہیں۔ تب آپ نے کون سی توپ چلا لی تھی جو اب چلا نے کی بات کر رہے ہو۔ ویسے بھی ہمارے ہاں سڑکوں پر توپ طوطا ہی چلاتا ہے۔ پرانے وقتوں کی بات ہے کہ چڑیا گھر کی پہاڑی پر دن کے ٹھیک بارہ بجے توپ چلائی جاتی تھی جس کی آواز پورے شہر میں آتی تھی کہ بارہ بج چکے ہیں اب تو بیچاری پوری قوم کے ہمارے سیاستدانوں نے بارہ بجا دیئے ہیں۔ عوام بیچاروں کے پاس اب کیا رہ گیا ہے؟
ہر کوئی حکومت میں آ کر صحت اور تعلیم کے لئے بات کرتا ہے۔ آج عالم یہ ہے کہ صحت کے معاملے میں پاکستان کا عالمی سطح پر 144واں نمبر ہے۔ خسرہ اورپولیو قابو میں نہیں آرہا۔ اگر ہم نے چند ماہ میں پولیو اور خسرہ پرقابو نہ پایا تو کسی بھی ملک کے سفر سے پہلے ہر عمرکے فردکو پولیو اور خسرے کی دوائی لینا پڑے گی۔ 22بڑی خطرناک بیماریوں کے حوالے سے ہم خیرسے چھٹے نمبر پر ہیں۔ آبادی اسی طرح بڑھتی رہی تو 2044ء میں پاکستان 80کروڑ افراد کاملک بن چکا ہوگا۔ چلواس کافائدہ یقینا انتخابات میں حصہ لینے والوں کوہوگاجب یہ ملک 80 کروڑ افراد کا ہوگا تو کئی نئے صوبے بن چکے ہوں گے۔ کئی صوبوں نے بھی بچے دے دیئے ہوں گے۔ آج سات کروڑ خط ِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں جن کی روزانہ آمدنی ایک ڈالر سے بھی کم ہے۔28کروڑ افراد خط ِ غربت سے نیچے زندگی بسرکر رہے ہوں گے اورہمارے سیاستدان جو آج ارب پتی ہیں تب کھرب پتی بلکہ اس سے بھی آگے جاچکے ہوں گے۔ ملک کے سارے درخت کاٹ کر سڑکیں بنا دی جائیں گی۔ لوگ رات کودس بجے اپنے دفاتر کیلئے گھروں سے چلیں گے اور صبح دس بجے پہنچیں گے کیونکہ کسی سیاسی جماعت کے منشور میں آبادی کو کنٹرول کرنے، صحت کی منصوبہ بندی کے لئے کوئی ٹھوس پروگرام نہیں۔ صرف کاغذی باتیں ہیں۔ اگر آبادی اورصحت کے حوالے سے کوئی ٹھوس اقدامات اقتدار میں رہنے والی جماعتوں نے کئے ہوتے تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔
آج کل ہمیں سیاستدانوں پر بڑا ترس آ رہا ہے۔ بیچارے گندی گلیوں، بدبودار گھروں، پسینے سے شرابور لوگوں اوربدبودار کپڑوں والوں کے ساتھ اس طرح گلے مل رہے ہیں جیسے ان کے صدیوں کے دوست ہوں۔ عام حالات میں بھائی ایاز صادق تو غریب کے قریب سے نہیں گزرتے اب ووٹ مانگنے کے لئے کیا کچھ کرنا پڑ رہا ہے۔ سیاستدانوں کے خاندان کے خاندان بیچارے غریب گھروں کے اس طرح چکر کاٹ رہے ہیں جیسے کوئی محبوب اپنی محبوبہ کے گھر کے چکر کاٹتا ہے۔ ہائے مانگنا کتنا مشکل کام ہے۔ بھیک مانگنااورووٹ مانگنا دونوں ہی مشکل کام ہیں۔ ٹھوس اچھے کام کئے ہوں تو پھر اتنی منتیں نہیں کرنا پڑتیں۔ بیچاروں کو پانچ سال لوٹ مارکرنے کے لئے ان غریبوں سے ووٹ تو لینا ہی پڑے گا۔ پھر یہ غریب پانچ سال ان کے پیچھے پیچھے پھرتے رہیں گے۔ بقول حسرت موہانی # یہ کہتے پھریں گے:
وفا تجھ سے، ارے بے وفا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
مستقبل کا لیڈر بلاول بھی اب اپنی اماں اور نانا کا انداز اپنائے ہوئے تقریریں کرتا ہے اورباربار غریبوں کے دکھ کی بات کرتا ۔ہے ارے بلاول میاں ذراسندھ کی غریب بستیوں کا ایک مرتبہ پانی توپی لو پھرپتہ چلے گاکہ غربت کس چڑیا کا نام ہے۔غریبوں کا دم بھرنے والے ایک مرتبہ وسن پورہ، دھرم پورہ، باغبانپور، ڈی جی خان کا پانی اور کھانا کھا لیں تو ہم سمجھیں گے کہ واقعی انہوں نے بڑامعرکہ مار لیا ہے۔ یہ کھانا کھا کر ہمارے نازک مزاج سیاستدان کئی دن بستروں سے نہیں اٹھ سکیں گے۔ ہر بڑی جماعت نے اپنے منشور میں صحت کے بجٹ اورسہولیات کے دعوے تو بہت کئے ہیں۔ اس وقت خسرہ پھیلا ہواہے کسی جماعت کے لیڈر نے یہ زحمت گوارہ نہیں کی کہ وہ سرکاری ہسپتالوں میں جاکر بیمار بچوں اور مرنے والے بچوں کے گھروں میں جا کر دو بول ہمدردی کے ہی بول آتے۔ان کی عیادت ہی کرتے۔ کسی سیاسی جماعت کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ خسرے سے بچاؤ کے لئے کوئی میڈیکل کیمپ ہی لگالیتی۔ ماضی میں بھی کسی سیاسی جماعت نے اس ملک میں بیماریوں کے خلاف کوئی جہاد کیا؟ کوئی میڈیکل کیمپ لگایا؟ اور بڑے بڑے پوسٹرز اور فلیکس لگانے والو! اپنی تقاریر کے نیچے ایک آدھ سلوگن یہ بھی لکھ دو پانی ابال کرپیو، خسرے کی ویکسین لگواؤ، ڈینگی کے خلاف جہاد کرو، ملک میں ہر چوتھا فرد ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہوتا جارہا ہے۔ کسی سیاسی جماعت نے ہیپاٹائٹس کے خلاف آوازاٹھائی؟
دیسی بکرے کا گوشت کھانے والوں کو، اپنے گھوڑوں کو بہترین غیرملکی خوراک کھلانے والوں کو، دیسی مرغی کا سوپ پینے والوں کو، اپنی بھینسوں کا خالص دودھ پینے والوں کو، دیسی انڈوں کاحلوہ کھانے والوں کو کیاپتہ کہ غربت کس چڑیا کا نام ہے؟
اقتدار میں آنے کی بے قراری غریبوں کے لئے نہیں ہو رہی ہے بلکہ جتنے دن اقتدارکے ایوانوں سے دورہیں اتنے دن ان کو مالی طور پر نقصان ہورہا ہے۔ بار بار اقتدار میںآ نے کے لئے دل بے قرار ہے۔
دل ہے کہ مانتا ہی نہیں
یہ بے قراری کیوں ہو رہی ہے
یہ جانتا ہی نہیں
بڑے بڑے اشتہاروں میں قوم کو بے وقوف بنانے والوں سے سوال ہے کہ کیا وہ ممبر بننے کے بعد اپنے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر قوم کے سامنے یہ وعدہ کریں گے کہ وہ سوائے تنخواہ کے کسی اورطریقے سے پیسہ نہیں کمائیں گے؟ آج ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ان سیاستدانوں کواگر واقعی اس ملک اورقوم سے پیارہے تو ایوانوں میں پہنچ کررضاکارانہ طور پر اپنی مراعات، سہولیات اور تنخواہوں کو آدھا کرنے کا اعلان کریں۔ جب یہ سیاستدان اقتدارمیں نہیں ہوتے تو تب بھی اپنے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ تو کیاوجہ ہے اسمبلیوں کے ممبر بنتے ہی اپنی تنخواہوں اورسہولیات کے لئے شور مچا دیتے ہیں ۔ اگر آپ واقعی اس ملک کے ساتھ مخلص ہیں تووعدہ کریں کہ ممبر بننے کے بعد تمام ممبران مشترکہ طورپر اپنی سہولیات، مراعات اور تنخواہوں کو نصف (یعنی آدھا) کردیں گے۔ عوام تو تمہیں ایوانوں میں بھیج کر کچھ یوں کہتے ہیں:
مارو کہ اب جلاؤ ہمیں تم، ہے اختیار
سر رشتہٴ فنا و بقا ہے تمہارے پاس
رضا ہارون کہتے ہیں کہ انسانی جانوں کے لئے الیکشن ملتوی کئے جانے چاہئیں۔ چلیں الیکشن انسانی جانوں کے لئے ملتوی کردیئے لیکن جب پھر نئی تاریخ آئے گی پھرانسانی جانوں کاکھیل شروع ہو جائے گا یہ مسئلے کا حل نہیں ۔
تازہ ترین