ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کے اثرات اوپر سے نیچے تک مرتب ہو رہے ہیں ، خاص طور پر پی ڈی ایم نے حکومت کے خلاف جس تحریک کا اعلان کیا ہے، وزراء کے بیانات اور حکومتی شخصیات کے رد عمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے خاصی ہلچل سی مچ گئی ہے اگرچہ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کی یہ تحریک بھی پہلے کی طرح ناکام رہے گی کیونکہ اپوزیشن کا ایجنڈا اپنی کرپشن کو بچانا ہے اور اس کے پاس کوئی ایسا مضبوط پروگرام نہیں ہے جو عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہوسکے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے جب سے تحریک چلانے کا اعلان ہوا ہے ہر طرف سے چہ مگوئیوں کا بازار گرم ہو گیا ہے اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور رہنماؤں میں بھی ایک نئی امنگ سی دوڑتی نظر آرہی ہے، جنوبی پنجاب میں بھی نواز شریف کے دھواں دھار بیانات نے ایک سیاسی ہلچل پیدا کر دی ہے اور پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ ن ،جمعیت علماء اسلام جیسی بڑی سیاسی جماعتوں کے کارکن خود کو آنے والے دنوں کے لیے تیار کر رہے ہیں۔
شہباز شریف کی گرفتاری پر ملتان میں مسلم لیگ ن کی طرف سے شدید احتجاج بھی دیکھنے میں آیا اور مستقبل میں جب پی ڈی ایم کی جانب سے کال دی جائے گی تو یقینا سیاسی طور پر ایک تحریک سے بنتی نظر آئے گی ،اگرچہ ملتان میں ابھی تک پی ڈی ایم کے کسی جلسہ کا اعلان نہیں کیا گیا مگر کہا یہ جا رہا ہے کہ نومبر میں پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر جو جلسہ ہونا تھا وہ اب پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہو گا ،گویاپیپلزپارٹی کی قیادت بھی اب پوری طرح اس حقیقت کو تسلیم کر چکی ہے کہ متحدہ اپوزیشن کا ساتھ د یئے بنا ،وہ سیاست کے قومی دھارے میں شامل نہیں ہو سکتی ،پیپلزپارٹی کے وائس چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی کو پی ڈی ایم کی سٹیرنگ کمیٹی میں نمائندگی دی گئی ہے ، یقیناً اس حیثیت کی وجہ سے وہ جنوبی پنجاب میں پی ڈی ایم کے جلسوں کی نگرانی کریں گے اور انہیں کامیاب کرانے کے لئے اپنا سیاسی اثرورسوخ بھی استعمال کریں گے، حکومت کے پاس ابھی تک سوائے نواز شریف کے بیانیے کو ہدف تنقید بنانے کے اور کوئی لائحہ عمل نظر نہیں آتا، جبکہ متحدہ اپوزیشن کا یہ کہنا ہے کہ نواز شریف کے بیانیے میں ایسی کوئی انہونی بات نہیں اور انہوں نے صرف جمہوریت کے تحفظ اور آئین کی بالادستی کے حق میں بیان دیا ہے۔
اس حوالے سے سے مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما مخدوم جاوید ہاشمی جو لاہور میں مریم نواز شریف کی پریس کانفرنس میں بھی شامل رہے،نے ملتان واپس آ کر حسب روایت ایک جارحانہ پریس کانفرنس کی، ان کا کہنا تھا کہ تین بار کے منتخب وزیراعظم کو غدار کہنا بہت بڑی زیادتی ہے جس کاقومی سیاست و سلامتی پر منفی اثر پڑ سکتا ہے ہے ،عمران خان میں اتنی سیاسی سوجھ بوجھ نہیں کہ وہ کشید ہ ہوئی سیاسی فضا کو نارمل کرسکیں،ملک کے ایک ڈیڈ لاک کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس کا بروقت تدارک نہ کیا گیا تو حالات بے قابو ہو سکتے ہیں، انہوں نے شہباز شریف کی گرفتاری اور مریم نواز کو گرفتار کرنے کی دھمکیوں پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ نیب حکومت کاآلہ کار بن چکا ہے اور سیاسی مخالفین کو نشانہ بنا رہا ہے۔
مخدوم جاوید ہاشمی نے جو کچھ کہا ،وہ درحقیقت مسلم لیگ ن کی طے شدہ پالیسی ہے کہ ہر صورت نواز شریف کا ساتھ دینا ہے اور انہوں نے جو بیانیہ طے کیا ہے وہی پوری مسلم لیگ ن کی آواز ہے اوراسی کو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے بھی بلند کیا جائے گا، جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو پی ڈی ایم کی صدارت کیوں دی گئی ہے تو اس کا بڑا واضح مطلب یہ ہے کہ اپوزیشن نواز شریف کے بیانیے کو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جس طرح آگے بڑھانا چاہتی ہے اس کے لیےایک ایسی شخصیت کی ضرورت تھی جو نواز شریف جیسا سخت بیانیہ رکھتی ہو ، جسے حکومت کی طرف سے مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے خوف زدہ بھی کیا جا رہا ہوں ہو اور جو سٹریٹ پاور بھی رکھتی ہو۔
دوسری طرف تحریک انصاف کی اوپر سے لے کر نیچے تک کی قیادت بے پرواہ ہو کر اپنے سیاسی عزائم پورے کر رہی ہے، پارٹی میں حد درجہ انتشار ہے اور ہر جگہ دھڑے بندی ،گروپ بندی اور میرٹ کی خلاف ورزیوں کا ایک طویل سلسلہ جاری ہے ،خود ملتان کی حالت اس حوالے سے انتہائی خراب ہے اور اس شہرمیں کہ جہاں سے تحریک انصاف کو بھرپور پذیرائی ملی تھی، آج یہ حال ہو چکا ہے کہ ارکان اسمبلی اپنے ووٹرز کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں، گروپ بندی کا یہ حال ہے کہ شاہ محمود قریشی گروپ ہر جگہ چھایا ہوا ہے اور باقی گروپوں کو اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے بھی در در کی ٹھوکریں کھا نا پڑتی ہیں ، اداروں میں قائم کمیٹیاں بھی سیاسی بندربانٹ کی نذر ہو رہی ہیں،ایک ایک ادارے میں کئی کئی کارکنوں کو کھپایا جا رہا ہے جس سے ان اداروں کی کارکردگی انتشار کا شکار ہو رہی ہے مثلا ایم ڈی اے میں ایک کی بجائے دو وائس چیئرمین بنا دیئے گئے ہیں۔
اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ شاہ محمود قریشی حسب معمول اپنے حلقے کا بندہ کھپاناچاہتے تھے جس پر قومی اسمبلی کے چیف وہپ ایم این اے ملک عامر ڈوگر آڑے آگئے اور انہوں نے شاہ محمود قریشی کو کھری کھری سناتےہوئے کہا کہ ملتان میں صرف آپ نے ہی سیاست نہیں کرنی ،ہم نے بھی اسی شہر میں اپنا سیاسی سفر جاری رکھنا ہے اور اپنے حامیوں اور ووٹرز کو جواب دینا ہے جس پر شاہ محمود قریشی نے اپنے بندے کا نام واپس لینے کی بجائے وائس چیئرمین کی ایک سیٹ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور ایک پر عامر ڈوگر کے حمایت یافتہ کارکن کو وائس چیئرمین نامزد کر دیا گیا ، اب یہی کھیل مارکیٹ کمیٹی کی چیئرمین شپ کے لیے بھی کھیلا جارہا ہے۔