اردو ادب کی تاریخ میں کم ایسی خاتون تخلیق کار دکھائی دیتی ہیں، جنہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر لکھا، نہ صرف لکھا، بلکہ لکھے ہوئے ہر لفظ کا دفاع بھی کیا، پھر لکھنے کے لیے ایک حساس قلم کار کو جن مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے، وہ ان تمام معاملات سے بھی دوچار ہوئیں، مگر اپنے نظریات پر سمجھوتہ نہیں کیا، یہی وجہ ہے، برصغیر پاک و ہند میں تخلیق ہونے والے اردو ادب میں ان کا نام سنہری حروف میں درج ہے، اس دلیر اور بے باک ادیبہ کو’’عصمت چغتائی‘‘ کہتے ہیں۔ ان کا شمار اُنیسویں صدی کی بہترین کہانیاں لکھنے والی مصنفہ کے طور پر ہوتا ہے۔ ہمارے سماج میں ان کی کہانیوں کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔
عصمت چغتائی 21 اگست 1915 کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر بدایوں میں پیدا ہوئیں اور 24اکتوبر 1991 کو بھارت کے شہر ممبئی میں انتقال ہوا۔ انہیں ادب سے عشق ورثہ میں ملا۔ ان کے نانا امرائو علی کا شمار اردو کے چند ابتدائی ناول نگاروں میں ہوتا ہے، جبکہ بھائی مرزا عظیم بیگ چغتائی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، والد سرکاری ملازم تھے ملازمت میں ان کے تبادلے مسلسل ہوتے رہنے کی وجہ سے، انہیں کئی شہروں میں رہائش اختیار کرنا پڑی، اس بد ولت زندگی کے مختلف رنگوں کو قریب دور سے دیکھا، تجربے کا خام مال ان کی تخلیقی کاوشوں میں بہت کام آیا۔
انہوں نے نہ صرف اپنے افسانوں میں بے باک اور سفاک حقائق کی روداد بیان کی، بلکہ عورتوں کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے خوب ادب تخلیق کیا۔ ناول نگاری ، افسانہ نویسی، ڈراما نگاری اور خاکہ نویسی میں طبع آزمائی کی۔ فلموں کے لیے کہانیاں اور مکالمے بھی لکھے، مگر زیادہ توجہ خالص ادب کی طرف ہی مبذول رہی۔
متوسط طبقے کی عورتوں کے مسائل اور مختلف پہلوئوں کو اپنی کہانیوں میں نہایت چابکدستی سے ڈھالا۔ ترقی پسند تحریک سے وابستگی نے ان کے ہنر کو مہمیز کیا اور انہوں نے دل کھول کر ادب کے نشتر سے بیمارسماج کی دوا کی۔
عصمت چغتائی کے پہلے افسانے کا نام’’گیندا‘‘ تھا، اس کے بعد طویل فہرست ایسے افسانوں کی ہے، جنہوں نے عالمگیر مقبولیت حاصل کی۔ پاکستان اور بھارت سے افسانوں کے کئی مجموعے شائع ہوئے، ان کے چند مشہور افسانوں میں لحاف، چوتھی کا جوڑا، چھوئی موئی، ننھی کی نانی، مغل بچہ، ہندوستان چھوڑ دو، چوٹیں، دو ہاتھ، بدن کی خوشبو، بڑی شرم کی بات، فسادی اور دیگر شامل ہیں۔ اسی طرح ناول نگاری میں بھی جم کر لکھا، ناول اور ناولٹ ملا کر متعدد تصنیفات اشاعت پذیر ہوئیں، جن کے نام ضدی، ٹیڑھی لکیر، معصومہ، سودائی، دل کی دنیا، عجیب آدمی، جنگلی کبوتر، باندی، تین اناڑی اور ایک قطرہ خون ہیں۔ ان کے تمام افسانے، ناول اور خاکے بھارت کے علاوہ پاکستان سے بھی اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔
بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیاں ان کے علاوہ ہیں۔ تھیٹر کے لیے لکھے گئے ڈرامے، فلمی کہانیاں، خاکے اور ادبی مضامین کے ذریعے بھی اپنے قلمی اظہار کو خوب برتا اور تمام اصناف ِ سخن میں اپنے قلم کی دھاک بٹھائی۔ ان کی تمام کتابیں انڈیا اور پاکستان سمیت کئی مغربی ممالک سے بھی مختلف زبانوں میں شائع ہوئیں۔
ان پر مختلف جامعات میں تحقیق کرکے لکھی گئی کتابوں کے شائع ہونے اور ان کے تخلیقی کارناموں پر تحقیق کا کام تا حال جاری ہے۔ ہندوستان میں یوں تو ان کی کہانیوں پر بہت ساری فلمیں بنیں، جبکہ کئی فلموں کے اسکرین پلے اور مکالمے بھی خود لکھے۔ معروف ہندوستانی اداکار نصیرالدین شاہ نے ان کی تین کہانیوں، چھوئی موئی، مغل بچہ اور گھر والی کو تھیٹر کے لیے بھی پیش کیا، یہ ناٹک وہ پاکستان میں بھی پیش کر چکے ہیں۔
سینما کے تناظر میں عصمت چغتائی کے رجحان کا جائزہ لیں تو فلم نگری سے تعلق کی پہلی اور بنیادی وجہ ان کے شوہر شاہد لطیف تھے، جو ایک بہترین فلم ساز تھے۔ 1941میں دونوں کی شادی ہوئی۔ 1948 میں ان کے ناول ’’ضدی‘‘ پر فلم بنی۔ 1950 میں فلم آرزوکا اسکرین پلے لکھا اور مکالمے بھی، جبکہ مرکزی خیال بھی انہی کی کہانی سے ماخوذ تھا۔ 1958 میں فلم’’سونے کی چڑیا‘‘لکھی۔ 1974 میں ان کی ایک کہانی’’گرم ہوا‘‘ کو بنیاد بنا کر فلم بنائی گئی، جس کے مکالمے اور اسکرین پلے لکھنے میں کیفی اعظمیٰ بھی شریک مصنف تھے، پھر عصمت چغتائی نے فلم’’جنون ‘‘ اور’’محفل‘‘ کے مکالمے بھی لکھے، بلکہ فلم’’جنون‘‘ میں بطور اداکارہ ایک مختصر کردار بھی نبھایا تھا۔ یہاں ان کامنتخب ناول ’’سودائی‘‘ہے،جس پر ہندوستان کی بجائے پاکستان میں فلم بنائی گئی۔
عصمت چغتائی کے اس ناول’’سودائی‘‘ کا مرکزی خیال کچھ یوں ہے کہ کسی انسان کو دیوتا کا درجہ نہیں دے دینا چاہیے، انسان آخرکار انسان ہی ہوتا ہے، وہ اپنی نفسانی اور فطری خواہشات کا محتاج ہوتا ہے، یہ ضرورتیں پوری نہ ہوں، تو پھر وہ اپنے درجے سے گر بھی سکتا ہے، اس سے وابستہ امیدیں دم توڑ بھی سکتی ہیں۔ ایسے ہی احساس پر مبنی اس ناول’’سودائی‘‘ کو پاکستان میں فلم بنانے کے لیے منتخب کیا گیا۔ یہ فلم’’ضمیر‘‘ کے نام سے نمائش کے لیے1980 کو پاکستان بھر میں پیش کی گئی۔
کہانی تو عصمت چغتائی کے ناول سے ماخوذ تھی ہی لیکن اس کے مکالمے اور اسکرین پلے صبافاضلی نے لکھا، جبکہ وہ تسلیم فاضلی کے ہمراہ اس فلم کی گیت نگاری میں بھی شریک تھے۔ موسیقی ناشاد صاحب کی تھی بہرحال یہ اپنے وقت کی ایک بہترین فلم تھی، جس کو آج بھی دیکھا جاسکتا ہے۔