برادر زاہد مسعود نے تو اپنی یہ مختصر اور خوبصورت نظم پچھلی بہار کی سوکھی شاخوں سے نئی بہار کی کونپلیں پھوٹنے کے ساتھ ہی مجھے اپنے پڑھنے والوں کی ضیافت طبع کے لئے عنایت کردی تھی مگر معلوم نہیں کیوں، اور جانتا بھی ہوں کہ بیچ میں کیا کچھ آن پڑا کہ یہ نظم میرے پڑھنے والوں تک پہنچ نہ پائی۔ نظم کا عنوان’’بہار‘‘ ہے اور بہار سے ہی شروع ہوتی ہے۔بہارسرسبز کونپلوں کو سوکھی شاخوں پرسجاتی ہےدوموسموں کو جدا کرکے ہوا کوخوشبو سے آراستہ کرتی ہےبہارآنے والے دنوں کی مسرت کوویران دلوں میں اتارتی ہےمیںبہار کے موسم میںمڑکر پیچھے نہیں دیکھتااور افق پر سات رنگوں کےبیک وقت طلوع ہونے کا انتظار کرتا ہوںقوت نمو سےخالی ہوتے ہوئے بدنبہار کو دیکھ کرخیر مقدمی گیت گاتے ہیںاور پرندےگھروں کو لوٹنے سے پیشترپھولوں کی پتیوں سےاگلی صبح کی زندگی ادھار مانگتے ہیںبلاشبہ بہار سوکھی شاخوں پر سربز کونپلوں کو سجاتی ہے۔ موسموں کو جدا کرنے والی ہوا کو خوشبو سے آراستہ کرتی ہے اور بہار آنے والے دنوں کی مسرت کو ویران دلوں میں اتارتی ہے۔ ویران دلوں کو آباد کرتی ہے بہار کے موسم میں مڑ کر پیچھے دیکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، دیکھنا بھی نہیں چاہئے، افق پر بیک وقت سات رنگوں کے طلوع ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ یہ سات رنگ اکھٹے ہو کر روشنی بنتے ہیں۔ قوت نمو سے محروم بدن بہار کو دیکھ کر خیر مقدمی گیت گاتے ہیں اور پرندے واپس اپنے آشیانوں کو لوٹتے ہوئے پھولوں کی پتیوں سے ا گلی صبح تک زندگی ادھار مانگتے ہیں۔ پھولوں کی پتیوں کے پاس اگلی صبح تک کی زندگی کا ادھار دینے کے علاوہ کچھ ہوتا بھی تو نہیں ہے جو بہار جاں فزا میں اپنا اہم اور ضروری حصہ ادا کرسکے۔ بہار کی خوبصورتی اور رونق میں اس ایک دن کی زندگی رکھنے والی پھولوں کی پتیوں، کونپلوں اور ان پر چمکنے والے شبنم کے قطروں کے حصے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ایک افریقی کہاوت ہے کہ ہم نے زندگی اپنے بزرگوں اور آباء کے قدیم سے ورثے میں نہیں پائی، اپنے بچوں سے ادھار لی ہے۔ ادھار لی ہوئی چیز واپس بھی کرنی ہوتی ہے، اگر سود کے ساتھ نہیں تو اصل زر کی شکل میں واپس کرنی ہوتی ہے، یعنی جس حالت میں کوئی چیز لی جائے وہ اگر بہتر حالت میں نہیں تو اسی اصل حالت میں واپس کی جاتی ہے۔ سوچنا پڑے گا کہ ہم نے اپنے بچوں سے جو کچھ ادھار لیا تھا اس کے ساتھ اب تک کیا کچھ ہوچکا ہے۔ ستر سال پہلے کی بہار اور کل کی صبح کی بہار میں کتنا فرق ہے، کبھی کبھی پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی تو پڑجاتا ہے۔