• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیکشن افسر کے امتحان میں باصلاحیت امیدوار بھی فیل، ایف پی ایس سی کی شرائط پر سوالیہ نشان

اسلام آباد (عمر چیمہ) انیلا معین ان سرکاری ملازمین میں شامل ہیں جنہوں نے سیکشن افسر پروموشن ایگزام (ایس او پی ای) کے امتحان میں شرکت کی۔ انیلا نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں اعلیٰ ترین نمبر لیے لیکن انٹرویو میں فیل ہوگئیں جو سی ایس ایس کے امتحان کے لحاظ سے بھی غیر معمولی ہے۔ ایک اور امیدوار جنہوں نے تحریری امتحان میں کم ترین پاسنگ نمبر لیے وہ انٹرویو میں پاس ہوگیا۔

اس حوالے سے اہلیت کا معیار کیا ہے یہ ایک راز ہے۔ تاہم، یہ طے ہے کہ یہ غیر معمولی صوابدید انٹرویو بورڈ نے استعمال کی۔ مجموعی طور پر 478؍ امیدوار تھے جو ٹیسٹ میں شامل ہوئے۔ 74؍ نے تحریری ٹیسٹ پاس کیا جبکہ 53؍ خالی نشستوں پر صرف 19؍ امیدوار کامیاب قرار پائے۔ دی نیوز نے ایف پی ایس سی کے ایک رکن سے معلوم کیا کہ کیا ایسی یکوئی مثال ہے کہ تحریری امتحان میں ٹاپ کرنے والا امیدوار انٹرویو میں پاس نہ ہو پائے۔ ان کا جواب نفی میں تھا۔ جب ان سے مزید پوچھا گیا کہ انٹرویو میں امیدواروں کی اکثریت فیل کیسے ہوئی، انہوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں لا علم ہیں کیونکہ وہ انٹرویو بورڈ میں نہیں تھے۔

انٹرویو میں امیدواروں کی ریکارڈ 74.32 فیصد تعداد فیل ہوگئی۔ تحریری ٹیسٹ میں 10 ٹاپ امیدواروں میں سے صرف 2؍ ہی انٹرویو میں کامیاب ہوئے۔ ایس او پی ای کیلئے اہل امیدواروں کیلئے لازم ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے گریڈ 11؍ تا 16؍ تک کے ملازم ہوں اور ان کے پاس 8؍ سال کا تجربہ ہو۔ ان کیلئے پاس ہونے کی شرط سی ایس ایس کے امیدواروں کیلئے مقررہ شرطوں سے بھی سخت ہے۔ ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ انٹرویو میں 50؍ فیصد نمبر لائیں جبکہ سی ایس ایس کے امیداروں کیلئے 33؍ فیصد نمبر لینا ضروری ہے۔ یہ ایک ایسا امتیازی سلوک ہے جس کی وجہ سے کئی ایس او پی ای امیدوار پریشان ہیں۔ اس کے باوجود ایس او پی ای امیدواروں کا امتحان میں کم پاس ہونا ایسا ہے گزشتہ امتحان سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔

ناکام ہونے والوں میں ایسے امیدوار شامل ہیں جو بہت باصلاحیت ہیں جنہوں نے ماضی میں سی ایس ایس کا تحریری امتحان بھی پاس کیا ہوا ہے۔ مثال، آصف علی شاہ کی ہے جو موٹر وے پولیس میں انسپکٹر ہیں۔ لیکن ہر مرتبہ وہ انٹرویو میں فیل ہوئے یا پھر ایلوکیشن حاصل نہ کر پائے۔ اس بار بھی صورتحال مختلف نہیں تھی ۔ محمد زبیر فی الوقت نان گزیٹڈ پوسٹ پر ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ میں کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے سی ایس ایس کوالیفائی کیا لیکن ایلوکیشن نہ حاصل کر پائے۔ اس مرتبہ وہ انٹرویو میں ناکام رہے۔ ایک اور موٹر وے انسپکٹر قمر حسنین سی ایس ایس کی گائیڈ بک یو ایس ہسٹری کے مصنف ہیں۔

وہ ایس او پی ای کے دس ٹاپ امیدواروں میں شامل تھے لیکن انٹرویو میں فیل ہوگئے۔ تاہم، ایف پی ایس سی کے ایک رکن نے انٹرویو بورڈ میں شامل اپنے ساتھیوں کی ساکھ کا دفاع کیا لیکن ان کے پاس بھی قابل قبول جواب نہیں تھا کہ بڑے پیمانے پر امیدواروں کو فیل کرنے کے فیصلے کے پیچھے کیا منطق ہوگی۔ ایف پی ایس سی حکام کے ساتھ پس منظر میں کی گئی بات چیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انٹرویو کے نمبر خصوصی طور پر بورڈ کی صوابدید پر ہے اور ان کے فیصلے کو کہیں بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

کچھ ناکام امیدواروں نے نظرثانی کیلئے درخواست دی تھی لیکن کچھ نہیں ہوا۔ ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایف پی ایس سی کے ارکان صرف قانونی معاملے پر کوئی حل پیش کر سکتے ہیں لیکن انٹرویو کے نمبرز کے معاملے پر نہیں۔ ایف پی ایس سی کے چیئرمین حسیب اطہر اچھی ساکھ کے شخص ہیں لیکن متاثرہ حکام کا کہنا ہے کہ کسی کی اچھی نیت سے اس کی دستاویزات کا فیصلہ کرنا درست نہیں قرار دیا جا سکتا خصوصاً اس وقت جب کئی لوگوں کا کیریئر دائو پر لگا ہو۔ 2012ء اور 2016ء کے نتائج دیکھیں تو ان کی شکایت جائز ہے۔ 149؍ امیدواروں میں سے 2012 میں 148 کو انٹرویو میں کامیاب قرار دیا گیا۔

2016ء میں تحریری امتحان پاس کرنے والے تمام امیدواروں نے انٹرویو بھی پاس کیا۔ رواں سال ستمبر میں متاثرہ ایسی او پی ای امیدواروں نے وزیراعظم عمران خان کو خط لکھا جس میں زیادتیوں کا احاطہ کیا گیا اور ازالے کی درخواست کی گئی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر امیدواروں کو مسترد کیے جانے سے نہ صرف فیڈرل سیکریٹریٹ میں اہل اور تجربہ کار سیکشن افسران کی قلت ہوگئی ہے بلکہ اس سے پی ٹی آئی حکومت میں اچھی طرز حکمرانی اور کارکردگی بھی زوال پذیر ہو رہی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس صورتحال کا نوٹس لیا جائے اور ایف پی ایس سی سے کہا جائے کہ وہ 2017ء کے زبانی امتحان میں مسترد کیے جانے والے امیدواروں کے نتائج پر غور کرے۔

تازہ ترین