• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں ہر شخص عظمت حاصل کرنا چاہتاہے ۔وہ سپرسٹار بننا چاہتاہے۔ مایہ ناز کرکٹر ، شوبز کا چمکتا ہوا ستارہ ، عظیم باکسر یا حضرت علی بن عثمان ہجویری ؒ جیسا تاریخ ساز صوفی ۔ لوگ یہ نہیں جانتے کہ عظمت حاصل کرنے کی ایک قیمت ہوتی ہے ۔ یہ عظمت دنیا وی ہو یا آخرت کی صورت میں ہمیشہ باقی رہنے والی ، اس کے لیے انسان کو بے پناہ تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے ۔

کھیلوں کی دنیا میں جس شخص کو دنیا میں سب سے زیادہ idealiseکیا گیا، وہ باکسر محمد علی تھا۔ محمد علی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ میں نے اپنی تربیت (Training)کے ہر لمحے سے نفرت کی لیکن میں خود کو سمجھاتا رہا کہ آج مجھے تکلیف برداشت کرنا ہے اور اپنی باقی زندگی ایک چیمپئن کی حیثیت سے بسر کرنا ہے ۔ ایک دفعہ محمد علی نے ایک دوسرے باکسر کے بارے میں کہا تھا کہ اس کے ساتھ جتنا وقت اکھاڑے میں میری لڑائی ہوئی، وہ سارا وقت جہنم میں زندگی گزارنے جیسا تھا۔ جہنم میں وقت گزار کر ہی محمد علی بنا جا سکتاہے۔

محمد علی دنیا کا عظیم ترین کھلاڑی ایسے ہی نہیں بنا تھا، اسے اکھاڑے میں جہنم جیسے ماحول میں ثابت قدمی سے وقت گزارنا پڑتا تھا۔ اس کے جتنے بھی حریف تھے، وہ آخر کار ہمت ہار جاتے تھے۔ ان کے اعصاب ٹوٹ جاتے تھے۔ محمد علی کے اعصاب کبھی ٹوٹے بھی تو اس نے دنیا کو اس کا علم نہ ہونے دیا۔ اپنی آخری لڑائی میں ، جب اس کی صحت خراب ہونا شروع ہو چکی تھی اور جب سپر فٹ نوجوان عالمی چیمپئن سے اسے خوفناک مار کھانا پڑی تو بھی اس نے ہار نہیں مانی ۔ مار کھاتا رہا اور ٹیکنیکل بنیادوں پر حریف نوجوان کو فاتح قرار دیا گیا ۔

یہی حال سیاسی مدبرین کا ہے ۔ کبھی آپ ابرہام لنکن کا چہرہ دیکھیں جسے ساری زندگی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔زندگی کی تکالیف اس کی شکل پر جیسے نقش ہو کر رہ گئی تھیں ۔ آپ قائدِ اعظم ؒ کو دیکھ لیں ۔ ایک طرف وہ انگریز اور ہندولیڈروں ، ملائوں اور مسلمانوں میں موجود ٹائوٹ حضرات کو شکست فاش دیتے نظر آتے ہیں ۔دوسری طرف آپ ان کی ذاتی زندگی میں بیوی اور بیٹی سے علیحدگی کے صدمات دیکھتے ہیں ۔ کروڑوں لوگ ایسے ہیں ، جو کسی خاص وصف کے حامل نہیں لیکن ان کی بیویاں اور بیٹیاں ساری زندگی ان کے پائوں دھو دھو کر پیتی ہیں ۔ اس قدر عظمت کے باوجود آزمائشوں کے باب میں خدا کسی شخص کے ساتھ کوئی نرمی نہیں کرتابلکہ عظمت منحصر ہی تکلیف پر ہے۔

سرکارِ دوعالم ؐ کے احترام میں کوئی شخص ذرا بھی کمی کرے تو خدا کو یہ سخت ناگوار گزرتا ہے ۔ خدا تویہ کہتاہے کہ اپنی آواز تک آپؐ کی آواز سے اونچی نہ کرو لیکن میرا آپ سے ایک سوال ہے ۔ طائف میں رسولِ اکرمؐکوبے انتہا تکلیف دی گئی ۔ آپؐ کو اس قدر پتھر مارے گئے کہ جسم مبارک لہولہان ہو گیا۔

سرکارؐنے جب طائف کے لوگوں سے بات چیت شروع کی تو کیا انہیں اندازہ نہیں تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟آپؐ کو بخوبی معلوم تھا کہ یہ آزمائش کا دن ہے ۔

پھر جب طائف والوں نے پتھر برسائے تو ﷲ نے فرشتہ بھیج کر پوچھا کہ اگر آپؐ کہیں تو طائف والوں کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس دیا جائے؟ پہلے ایسا کبھی نہ ہوا کہ کسی گروہ پہ عذاب نازل کرتے ہوئے خدا نے پیغمبرؑ سے ان کی منشا پوچھی ہو۔ پیغمبروں ؑ کو تو بتا دیا جاتا تھا کہ فلاں دن ، فلاں گھڑی عذاب نازل ہونے والا ہے۔ حضرت یونسؑ اس سے پہلے ناراض ہو کر چل دیے تو انہیں مچھلی کے پیٹ میں پہنچا دیا گیا ؛حتیٰ کہ انہوں نے آیتِ کریمہ پڑھنا شروع کر دی۔

دنیا میں سب سے گہری دشمنی جو ہوتی ہے ، وہ مذاق اڑانے پر ہوتی ہے ۔ آپ کسی شخص کا پانچ منٹ مذاق اڑائیے ، وہ باقی زندگی آپ کا دشمن رہے گا۔ جتنی بڑی شخصیت ہوگی ، اسے اپنی توہین کا احساس اتنا زیادہ ہوگا۔ آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ سرکارؐ کے زندگی بھر کے خطبات میں طائف کے سانحےکا ذکر ہی نہیں ۔ استاد پروفیسر احمد رفیق اختر فرماتے ہیں کہ کسی شخص کے ساتھ زندگی میں ذرا سا سانحہ بھی پیش آئے ، حتیٰ کہ اس کی ایک انگلی کٹ جائے تو وہ ساری زندگی احساسِ کمتری سے نکل نہیں پاتا۔ آپؐ پیدائشی طور پر یتیم تھے ۔ آپؐ کی والدہ بھی کم سنی میں وفات پا گئیں ۔ آپؐ کی شخصیت میں ان سانحات کا صدمہ کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ تین سال تو آپؐ کو شعبِ ابی طالب میں گزارنا پڑے۔

ﷲ کا قرینہ یہ ہے کہ جسے وہ مرتبہ دینا چاہتاہے ، اسے کڑی آزمائش سے گزارتا ہے ۔ آپؐ کو جب تمام انسانوں اور تمام مخلوقات سے افضل ٹھہرایا گیا تو اس کا ایک خفیہ مطلب بھی تھا۔ وہ مطلب یہ تھا کہ آپؐ کو تمام انسانوں سے زیادہ تکالیف سے گزرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ بچپن ہی سے سانحات آپؐ پہ ٹوٹ پڑے مگر وہ آپؐ کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکے ۔ آپؐ کو اگر دنیامیں سب سے زیادہ تکالیف سے نہ گزارا جاتا تو زمین و آسمان کی مخلوقات پہ سرکارؐ کی لافانی عظمت کیسے ثابت کی جاتی؟

لوگ عظمت پانا چاہتے ہیں ۔صوفی بننا چاہتے ہیں ۔ انہیں پتہ ہی نہیں کہ وہ کس آزمائش کو دعوت دے رہے ہیں ۔ صوفی بننے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ذاتی زندگی ختم۔ روزانہ دس دس گھنٹے آپ لوگوں کی تحلیلِ نفسی کریں گے ۔اگلے روز کوئی اور بندہ آکر وہی سوالات دہرائے گا۔ آپ کو جواب دہرانا ہوں گے۔

آپ عظمت حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟ ضرور ، کیوں نہیں لیکن پھر تکلیف ، صدمات اور حادثات کے لیے بھی تیاررہئے۔عظمت بغیر تکلیف کے حاصل نہیں ہوتی !

تازہ ترین