• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آبادی کے بےتکے پھیلائو کے باعث ملک کا زرعی رقبہ جس تیزی سے سکڑ رہا ہے‘ وسائل نہ ہونے سے کاشتکار جس بےدلی کا شکار ہو رہا ہے اور اُس کے نتیجے میں فی ایکڑ پیداوار جس بری طرح متاثر ہو رہی ہے، یہ صورتحال بھاری فنڈنگ سے چلنے والے قومی و صوبائی زرعی اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ آج دنیا بھر میں سائنس و ٹیکنالوجی اور حکومتی سرپرستی کی بدولت فی ایکڑ پیداوار میں انقلاب برپا ہے لیکن وطن عزیز میں تشویشناک انحطاط رونما ہورہا ہے جس کا اندازہ گزشتہ برس گندم اور اِس سال کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ کمی سے لگایا جا سکتا ہے حالانکہ یہ دونوں اجناس ملک کی مقامی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ برآمدات کی شکل میں زرِمبادلہ کے حصول کا بڑا ذریعہ چلی آرہی ہیں۔ ٹیکسٹائل کا شعبہ جو گزشتہ کم و بیش دودہائی کے بعد اِس سال بمشکل اپنے پیروں پر کھڑا ہوا تھا، کپاس کی حالیہ فصل میں ریکارڈ کمی کے باعث اُس سے وابستہ لاکھوں افراد بےچینی کا شکار ہیں۔ امریکی محکمہ زراعت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دہائی کے دوران کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں تقریباً 35.42فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ سال 2009-10میں اِس کی 96لاکھ گانٹھیں پیدا ہوئی تھیں جبکہ گزشتہ برس میں یہ حجم کم ہو کر 62لاکھ گانٹھوں پر آگیا۔ کپاس کا پیداواری رقبہ جو 10سال پہلے 30لاکھ ایکڑ تھا 18.33فیصد کی کمی کے بعد تقریباً 25لاکھ ایکڑ رہ گیا ہے۔ وطن عزیز میں مکمل زرعی انفرا اسٹرکچر موجود ہے جس میں زرعی ترقیاتی بینک اور مائیکرو فنانس ادارے بھی شامل ہیں۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومت کی سطح پر ایک جامع پروگرام کے تحت بگڑتی ہوئی صورتحال کے حقیقی اسباب کا تعین کرکے اصلاح و بہتری کی تمام مطلوبہ تدابیر بلاتاخیر اختیار کی جائیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین