• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نائن الیون کے بعدجس طرح دنیا کی تاریخ بدلی‘ اسی طرح پاکستان کی تاریخ کا ٹرننگ پوائنٹ 16دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردوں کا حملہ تھا جس میں 6دہشت گردوں نے 148بچوں اور اساتذہ کو شہید کر دیا جبکہ 114بچے اور اساتذہ اس حملے میں زخمی ہوئے۔ اس حملے کے بعد حکومت اور سیکورٹی اداروں نے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا اور پورے ملک میں عسکری اداروں اور خفیہ ایجنسیوں نے مشترکہ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز شروع کر دیے جن میں سینکڑوں دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔ سب سے زیادہ آپریشنز پنجاب اور کے پی کے میں کئے گئے۔ پنجاب میں ان آپریشنز میں دیگر خفیہ اداروں کیساتھ ساتھ صوبائی خفیہ ایجنسی اسپیشل برانچ نےبھی اپنا بھرپور اِن پٹ دیا جس کی وجہ سے بہت سے دہشت گردوں کو یا تو حملوں سے قبل ہی گرفتار کر لیا گیا یا پھر وہ ریڈز کے دوران مارے گئے۔ پنجاب حکومت نے بھی خزانوں کے منہ کھولے رکھے اور صوبائی خفیہ ایجنسی کو سالانہ بجٹ کے علاوہ ان کی طرف سے مانگے گئے سیکرٹ فنڈز کی فوری ادائیگی میں کبھی کسی تاخیر اور لیت و لعل سے کام نہ لیا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سیکرٹ فنڈز جو کروڑوں روپے میں مانگے جاتے ہیں اور جو عوام کا پیسہ ہے‘ اس کا حساب کیسے ہو گا؟ آج تک شاید یہی سننے میں آتا رہا ہے کہ سیکرٹ فنڈز کو ادارے بوقتِ ضرورت اپنی معلومات کے ذرائع (سورسز)اور وی وی آئی پیز، غیر ملکی افراد، خفیہ معلومات کے حصول، حساس تنصیبات و مذہبی مقامات کی سکیورٹی وغیرہ پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ یہ پیسہ مذکورہ اہم ٹاسکس پر خرچ ہوتا ہے لیکن یہ تاثر بھی عام ہے کہ اس پیسے کے مصرف کا آڈٹ نہیں ہو سکتا جو سراسر غلط ہےکسی بھی حکومت نے اس حوالے سے یا تو جان بوجھ کر یا پھر انجانے میں پنجاب میں دیئے گئے سیکرٹ فنڈز کے آڈٹ کے بارے میں کبھی سوچا تک نہیں۔ محکمۂ خزانہ کے پنجاب فنانشل رولز والیم ٹو کے صفحہ نمبر 112کا سیکشن 36سیکرٹ سروس اخراجات سے متعلقہ ہے جس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ایڈمنسٹریٹو ڈیپارٹمنٹ لازمی طور پر مالی سال میں کم از کم ایک مرتبہ سیکرٹ فنڈز کا حقیقی ایڈمنسٹریٹو آڈٹ کرے گا اور اس حوالے سے خرچ کی گئی رقم کا آڈٹ کر کے اکائونٹینٹ جنرل پنجاب کو ہر سال 31مارچ کو ایک سرٹیفکیٹ جمع کروائے گا جو کچھ یوں ہو گا:

"I HEREBY CERTIFY THAT THE AMOUNT ACTUALLY EXPENDED BY ME OR UNDER MY AUTHORITY FOR SECRET SERVICE IN YEAR ENDING THE 30TH OF JUNE RS....... THAT THE BALANCE IN HAND ON THE SAID 30TH OF JUNE WAS RS...... AND THAT THIS BALANCE WAS CREDITED INTO THE GOVERNMENT TREASURY ON...... AND I DECLARE THAT THE INTERESTS OF THE PUBLIC SERVICE REQUIRED THAT THE ABOVE PAYMENTS SHOULD BE MADE OUT OF SECRET SERVICE FUNDS AND THAT THEY WERE PROPERLY SO MADE. "

اب ایک اور سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر سیکرٹ فنڈز کے آڈٹ کا قانون موجود ہے تو اس پر کتنی مرتبہ اور کس حد تک عملدرآمد کو یقینی بنایا گیا۔ ویسے تو ہر حکومت رول آف لاء کی بات کرتی ہے اور عوام کو یقین دلاتی ہے کہ وہ ان کے ٹیکس کے پیسے کی ناصرف حفاظت کریگی بلکہ اس کو خرچ کرنے کے عمل کو ہر ممکن طور پر شفاف بنائے گی۔ میری معلومات کے مطابق، جو کہ کافی حد تک مصدقہ ہیں، محکمۂ داخلہ نے کبھی ان سیکرٹ فنڈزکو جاری کرتے ہوئے ایڈمنسٹریٹو ڈپارٹمنٹ کی ذمہ داریاں قانون کے مطابق سر انجام ہی نہیں دیں۔ پچھلے دو سالوں میں کروڑوں روپے کے سیکرٹ فنڈز جاری کئے گئے جن کا قانون ہونے کے باوجود سرکاری کھاتے میں کوئی آڈٹ موجود نہیں۔ ہوم سیکرٹری شریف آدمی ہیں، پنجاب پولیس کی طرف سے کی گئی کسی بھی ’’ڈیمانڈ‘‘ پر نہ اعتراض کرتے ہیں بلکہ یہ حکم ہوتا ہے کہ تمام ’’ڈیمانڈز‘‘ کی ان سے منظوری لیکر وقت ضائع نہ کیا جائے، قانون بعد میں دیکھا جائیگا۔ حکومت بھی یہی چاہتی ہے کہ صوبائی خفیہ ایجنسی کو مزید فعال کیا جائے جو اچھی بات ہے۔ اداروں کو ضرور مضبوط ہونا چاہئے کیونکہ انکی مضبوطی پاکستان کی مضبوطی ہے لیکن ساتھ ہی قانون پر عملدرآمد اور عوام کے خون پسینے کی کمائی کو مالِ مفت دل بے رحم کی طرح اڑا دینا کہاں کا انصاف ہے؟ تحریک انصاف کی حکومت میں تو کم از کم انصاف ہوتا دکھائی دینا چاہئے۔

تازہ ترین