• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گندم کے آٹے کی روٹی ہمارے خطے کے عوام کی غذا کا اہم جزو ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ کچھ ماہ سے ملک میں آٹا یا تو مارکیٹ سے غائب کردیا جاتا ہے یا اُس کی فی کلو قیمت میں من چاہا اضافہ کر لیا جاتا ہے جس کی بڑی وجہ مارکیٹ میں گندم کی طلب کے مطابق اُس کی رسد کا نہ ہونا ہے۔ مارکیٹ میں گندم کی فی من قیمت کم ہونے کی وجہ سے کسان کا رجحان دوسری فصلوں کی طرف ہوتا جا رہا ہے کیونکہ صرف گندم کی فی ایکڑ کاشت پر اُسے 6ماہ کی شبانہ روز محنت کے بعد مزدوری روٹا ویٹر، ہل ٹریکٹر، ڈرل، کھاد، بیج، سپرے، آبیانہ، پانی ٹیوب ویل، کٹائی اور گہائی کے اخراجات نکال کر بمشکل 3سے 4ہزار روپے کی بچت ہوتی ہے۔ اِس لئے وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے آئندہ مالی سال کیلئے گندم کی کم از کم امدادی قیمت میں 200روپے اضافہ کرکے 1600روپے فی 40کلوگرام مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی منظوری منگل کے روز ای سی سی کے اجلاس میں دے دی گئی ہے۔ ای سی سی نے آئندہ مالی سال کیلئے ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کیلئے گندم کی درآمد 15لاکھ میٹرک ٹن سے بڑھا کر 18لاکھ میٹرک ٹن تک کرنےکی بھی منظوری دی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ روس سے بین الحکومتی بنیادوں پر پاسکو کے ذریعہ 3لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی جائیگی تاکہ گندم کی نئی فصل کے آنے تک ملکی ضروریات باآسانی پوری کی جا سکیں۔ وفاقی کابینہ کی طرف سے گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ احسن اقدام ہے جو کہ گندم کی پیداوار میں اضافے، مارکیٹ کے استحکام اور کسانوں کا منافع بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ گندم کی امدادی قیمت میں اضافے کیساتھ ساتھ حکومت اُن ممالک کی زرعی ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ کرے جن کی فی ایکڑ پیداوار ہم سے زیادہ ہے۔ ساتھ ہی گندم کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کیخلاف بھی کریک ڈاؤن کیا جانا چاہئے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین