• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرّئہ اَرض کے قدرتی ماحول میں بگاڑ پیدا ہونے کی وجہ سے عالمی موسمی تغیّرات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ دہشت گردی سے زیادہ بڑا مسئلہ موسمی تبدیلیوں کا ہے جس کی وجہ سے موسلادھار بارشوں، سیلابی ریلوں، آندھیوں، طوفانوں، شدید ترین گرم موسم اور برفانی طوفانوں نے ہر طرح کی حیات کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے علاوہ اَربوں ڈالرز کے نقصانات بھی برداشت کرنے پڑے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ 

اس کی وجہ گرین ہائوس گیسز میں اضافہ، بارانی جنگلات کی کٹائی، کوئلے اور تیل کے استعمال میں اضافہ اور شہروں پر آبادی کا بڑھتا ہوا دبائو ہے۔ اس کے علاوہ کثیر القومی اداروں ، صنعتی کارخانوں اور کارپوریشنز نے آپس کی مسابقت اور زیادہ منافعے کی حرص میں بنیادی انسانی اور اخلاقی قدروں کو بھی نظرانداز کر دیا ہے۔ اس افراتفری نے زمین کے ماحول کو مزید بے ترتیب کر دیا ہے۔ ہم یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہ سب کچھ قدرت کی طرف سے ہے، مگر یہ حقیقت نظرانداز کر جاتے ہیں کہ ہم بھی اِس بگاڑ اور آلودگی میں اضافے کے برابر کے شریک ہیں۔

اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ پہلا صنعتی اِنقلاب اٹھارہ سو ساٹھ میں برطانیہ میں رُونما ہوا اور صنعتی ترقّی کا پہیہ گھومنے لگا۔ اس وقت توقدرتی ماحول پر زیادہ اثرات ظاہر نہیں ہوئے۔تاہم دُوسرے صنعتی انقلاب کے بعد، جو انیس سو بیس میں امریکا میں رُونما ہوا، موسمی تبدیلی کو کچھ کچھ محسوس کیا گیااور عالمی درجۂ حرارت میں اعشاریہ صفر پانچ ڈگری کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ انیس سو پچاس میں امریکاکے دُوسرے صنعتی انقلاب میں جب وہاں موٹرگاڑیوں، بجلی کے آلات ،بھاری مشینیں اور متفرق گھریلو اشیاء تیار کرنے کے کارخانے لگائے گئے تواس کےساتھ یورپی ممالک نے بھی اس طرح کے کارخانے لگانے شروع کر دیے۔

جب کوئلے اور تیل کے استعمال میں اضافہ ہواتوساٹھ اور ستّرکے عشروں میں زمینی، سمندری اور فضائی آلودگی میں بہ تدریج اضافہ ہوتا گیا۔ ماحول میں بگاڑ اور آلودگی میں اضافے کی وجہ سے نئے نئے وبائی اَمراض سے واسطہ پڑا۔ اِن وبائی اَمراض میں سےتاحال بیش تر اَمراض، جن سے گزشتہ تین چار عشروں میں واسطہ پڑا ،ان کا علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے۔ ان میں کورونا وائرس فی الحال سرفہرست ہے۔اس وائرس سے تاحال ساڑھے چار کروڑ سے زاید افراد متاثر ہوچکے اور ان میں سے بارہ لاکھ سے زاید جاں سے جاچکے ہیں۔ پوری دُنیا کے ماہرین اس وبائی بیماری کی ویکسین تیار کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ 

اس وائرس کی وجہ سے نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع ہوا بلکہ دنیا کو اربوں کھربوں ڈالرز کانقصان بھی اُٹھانا پڑا۔ دُنیا کی معیشت ، صنعت اور تجارت زبردست طور پر متاثر ہوئیں۔ طرزِ معاشرت اور معمولاتِ زندگی اَتھل پتھل ہو کر رہ گئے۔ ان تمام حقائق کے باوجود دُنیا میں، خاص طور پر امریکا میں اور اس کے بیش تراہم سائنسی اور ماحولیاتی ادارے گلوبل وارمنگ اور موسمی تغیّرات کویک سر مسترد کرتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیرس میں ہونے والے عالمی ماحولیات کے تحفظ کے معاہدے سے بھی امریکا کو علیحدہ کر لیا ہے جس پر دُنیا حیران ہے۔ 

ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ بعض سائنس دانوں اور ماہرین کا گھڑا ہوا شوشہ ہے جس سے وہ پوری دُنیا کو پریشان کر رہے ہیں،موسمی تغیّرات قدرتی عمل کا نتیجہ ہیں اور اس میں انسانوں کا کوئی عمل دخل نہیں اوریہ ہزاروں برس سے جاری قدرتی عمل کا حصہ ہے۔ دُنیا بھر کے سائنس دانوں اور ماہرینِ اَرضیات اورماحولیات نے ٹرمپ اور بعض امریکی سائنسی اداروں کی رائے سے قطعی اتفاق نہیں کیا ہے۔ ان سب کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ، موسمی تبدیلیاں اور آلودگی میں اضافہ ایک کھلی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس بگاڑ میں انسانی عمل کا بڑا ہاتھ ہے اور ہم اپنی ذمے داریوںسے مبرّا نہیں ہو سکتے۔

اکیسویں صدی کے بیس برسوں میں کی جانے والی تحقیق اور اس ضمن میں ہونے والی عالمی کانفرنسوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ کوئلے اور تیل کے بڑھتے ہوئے استعمال، مضر گیسز کے زبردست اخراج، دُھوئیں اور آلودگی سے فضائی ماحول شدید متاثر ہو رہا ہے۔ 

ماہرین بار بار گلوبل وارمنگ اور موسمی تغیّرات کے حوالے سے دُنیا کو خبردار کرتے رہے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی، سبزیوں، پھلوں اور غذائی اَجناس سے بھی مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں جن سے بچّے اور معمّر افراد زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اگر ماحول میں بگاڑ قدرتی عمل کا نتیجہ ہے تو پھر اس کا سدّباب بھی قدرتی طور پر ہوناچاہیے، مگرکرئہ اَرض پر قدرتی ماحول میں بگاڑ اور اس پر موجود حیاتیات کو درپیش مسائل انسانی عمل اور غیرقدرتی عوامل کا نتیجہ ہیں جس کی وجہ سے فضا پانی اور زمین میں زہریلے اور کیمیائی مادّے شامل ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں زمین کے فطری ماحول پر منفی بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ 

ہماری ہوا، پانی آلودہ ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ آوازوں اور شور کی آلودگی بھی انسانی سماعت کے لیے بڑا خطرہ بنتی جا رہی ہے۔علاوہ ازیں جوہری تاب کاری کو روکنے پر بھی زور دیا جاتا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایٹمی بجلی گھر اور دیگر ایٹمی تنصیبات سے ایٹمی تاب کاری کے اخراج کا خطرہ رہتا ہے جس کے لئے مزید سنجیدہ اقدام کی ضرورت ہے۔ سائنس داں اور ماہرین ماحولیات میں بگاڑ کی ذمے داری جدید سرمایہ داری اور اجارہ دار نظام پر عاید کرتے ہیں۔ بڑے کثیر القومی صنعتی ادارے اور کارپوریشنز غریب ممالک کے وسائل اور قدرتی معدنیات کا بے دریغ استحصال کیے جا رہی ہیں اور ان وسائل پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی حرص میں بہت کچھ پامال کرتی جا رہی ہیں جس سے غریب ملکوں کے معاشرے بھوک، پس ماندگی اور غربت سے حیران وپریشان ہیں۔

ماہرینِ ماحولیات کے مطابق دو تین دہائیوں سے عالمی سیاحت کے شعبے میں بڑی پیش رفت ہوئی جس میں چین اور روس کے سیّاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا بڑا دخل ہے۔اس بڑھتی ہوئی سیاحت سے عالمی آلودگی میں تیس فی صد تک اضافہ ہواہے۔ اب لاکھوں سیّاح ہر سال امریکا، یورپ، آسٹریلیا اور دیگر ممالک کا سفر کرتے ہیں جس سے فضائی آمد و رفت میں اضافہ ہوا۔ ساحلی علاقوں اور تفریحی مقامات پر سیّاحوں کے ہجوم کی وجہ سے کوڑا کرکٹ اور آلودگی بڑھ رہی ہے۔ شاہراہوں پر ٹریفک میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، کیوں کہ یورپی سیّاح زمینی راستوں سے بھی سیاحت کے لیے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ بحری جہازوں اور فیریز کے سفر میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

سائنس دانوں کو اس امر پر بھی تشویش لاحق ہوتی جا رہی ہے کہ بیش تر ممالک میں صنعتی ، بجلی اور اشیائے صرف کی پیداوار میں اضافے کی وجہ سے نئے نئے یونٹ قائم ہو رہے ہیں۔

دوسری جانب شہروں پر آبادی کے بڑھتے ہوئے دبائو کی وجہ سےبھی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غربت کی وجہ سے کم خوراک، حفظانِ صحت کے اُصولوں سے انحراف اور صفائی ستھرائی کے فقدان سے بیماریاں اور آلودگی بڑھ رہی ہے۔ سمندروں میں صنعتی کارخانوں کے فضلے سے سمندری حیات شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ 

ماہی گیروں کا دعویٰ ہے کہ جدید طریقوں سے مچھلیاں پکڑنے اور سمندری آلودگی میں اضافے کی وجہ سے بہت سی مچھلیوں کی اقسام میں کمی آتی جا رہی ہے اور سمندری حیات کو خطرات ہیں۔ قطب شمالی اور قطب جنوبی میں واقع بڑے بڑے گلیشیئرز پگھل کر سمندروں میں شامل ہو رہے ہیں جس سے سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ اس عمل سے بیش تر جزائر اور ساحلی شہروں کو خطرہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آئندہ پچیس سے تیس برسوں میں سمندروں کی سطح پانچ سے آٹھ فیٹ تک بلند ہو سکتی ہے۔

کچھ عرصہ قبل وسطی ایشیائی ریاست تاجکستان کے شہر دوشنبہ میں کرئہ اَرض کے قدرتی ماحول میں ہونے والے بگاڑ کے مسئلے پر ماہرین اور سائنس دانوں کی بڑی کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس کے ایجنڈے پر آلودگی کو کم سے کم سطح تک لانے پر زور دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وسط ایشیائی ریاستوں ازبکستان، کرغیزستان، قازقستان اور چین کی سرحدوں پر واقع پہاڑی سلسلوں کے گلیشیئرز خطرناک حد تک پگھل رہے ہیں۔ 

اس کانفرنس میں شریک جرمن سائنس دان نے اپنے تحقیقی مقالے میں بتایاتھا کہ بعض ممالک درپردہ کیمیائی ہتھیار تیار اور ان کے تجربات کررہے ہیں جس سے فضا میں مضر اثرات پھیل رہے ہیں اور مقامی آبادیوں میں بسنے والے افراد گلے، سانس اور دَمے کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ کانفرنس میں متفقہ طور پر پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیاتھا کہ زمین کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے اور گلوبل وارمنگ ایک بڑا مسئلہ ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ سائنس دانوں نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ ایک سو برس کا ڈیٹا جمع کیا تو معلوم ہوا کہ زیادہ تر جولائی کا مہینہ زیادہ گرم پایا گیا اور یہ حقیقت بھی عیاں ہوئی کہ گزرے تیس سے چالیس برسوں میں زمین کے درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری اضافہ ہوا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ شام کی خانہ جنگی سے متاثرہ شہروں کے قدرتی ماحول کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ان شہروں سے شہریوں کی نقل مکانی کے بعدوہاںنائٹروجن گیس سمیت دیگر مضر گیسوں میں کمی کی وجہ سے فضا صاف نظر آئی۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ذرایع نقل و حمل اور ٹریفک کے ہجوم میں کمی سے ماحول کو قدرے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ شہروں میں آلودگی کم کرنے اور فضا کو بڑی حد تک صاف بنانے کےلیے پبلک ٹرانسپورٹ زیادہ ضروری ہے۔ 

مگر ماہرین کو اس امرپر تشویش ہے کہ چالیس برسوں میں بڑی بڑی کانفرنسیں منعقد ہو چکی ہیں جن میں عالمی سربراہوں،اہم شخصیات سمیت دُنیا بھر کے سائنس دانوں، ماہرینِ ماحولیات اور اَرضیات نے شرکت کی، تحقیقی مقالے پیش کیے گئے، مگر مسئلہ اپنی جگہ برقرار ہے ۔کیوں کہ دُنیا میں کوئلے اور تیل کا استعمال روز بہ روز بڑھ رہا ہے۔ بڑی بڑی کمپنیاں، کارپوریشنز اور بینکار اپنے سیاسی اور معاشی اثر و رُسوخ اور منافع کمانے کی دُھن میں آلودگی میں کمی کے مسئلے کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ ان کو منافع اور دولت زیادہ عزیز ہے۔

ماہرین کو امریکا، چین، بھارت اور برازیل سے زیادہ شکوہ ہے۔ان کے مطابق امریکا دنیا بھر کی مجموعی آلودگی کے پچیس فی صد کا ذمے دار ہے اور تیل، گیس اور کوئلے کا سب سے بڑا صارف بھی ہے۔ اس کے بعد چین، بھارت اور برازیل زیادہ تر کوئلہ اور تیل استعمال کرتے ہیں۔ ماحولیات کے ماہرین میں سےبعض کا دعویٰ ہے کہ بہت سے سائنس دانوں نے گلوبل وارمنگ کے مسئلے کو عقیدہ بنا لیا ہے،حالاں کہ یہ محض ایک مفروضہ ہے۔ دراصل اس گروہ کے مطابق موسم اور آب و ہوا دو الگ الگ اکائیاں ہیںجنہیںگڈمڈ کر دیاگیا ہے اورذریاع ابلاغ نے بھی اس مسئلے کو بہت اُچھالا ہے۔ موسم گھنٹوں اور مہینوں پر محیط ہوتاہے، مگر آب و ہوا میں تبدیلی کو زماں اور مکاں کے تناظر میں پرکھنا ضروری ہے۔ 

اس میں کبھی درجہ حرارت زیادہ ہو جاتا ہے کبھی بارش زیادہ ہو جاتی ہے۔ امریکی ماہرِ موسمیات، ڈاکٹر رچرڈکین نے اپنے تحقیقی مضمون میں دعویٰ کیا ہے کہ گلوبل وارمنگ محض ایک سراب ہے، بیش تر ماہرین کو غلط فہمی ہے اور دُنیا کو فی الفور کوئی خطرات لاحق نہیں ہیں۔ ان کے بہ قول اگریہ کہا جائے کہ اس مسئلے کو پبلسٹی اسٹنٹ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ، تو غلط نہ ہوگا۔ بعض امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ صورت حال کو گلوبل وارمنگ نہیں بلکہ گلوبل کولنگ کہا جائے تو دُرست ہوگا۔ جس طرح سرد طوفان آ رہے ہیں اور برف باری میں اضافہ ہو رہا ہے ،یہ عالمی درجہ حرارت میں کمی کا شاخسانہ ہے۔ حال ہی میں شمالی امریکا میں آنے والے خوف ناک طوفانوں کے بارے میں بھی بعض امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ گلوبل وارمنگ کا نتیجہ نہیںتھےبلکہ یہ موسم میں نمایاں تبدیلی کا انتباہ ہے۔ 

ان ماہرین کایہ بھی دعویٰ ہے کہ انہوںنے امریکی حکومت کو مطلع کر دیا ہے کہ شمالی امریکا کو آئندہ سو برس تک اس طرح کے سرد برفانی طوفانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سائنس دانوں نے اس مسئلے پر غور و خوض کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ درحقیقت ہر تیس برس بعد زمینی موسم میں نمایاں تبدیلی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اس طرح اس صدی کے اوّلین تیس برسوں میں گلوبل کولنگ اوربعد کے تیس برسوں میں گلوبل وارمنگ کا چکّر جاری رہنے کا امکان ہے۔ بیش تر ماہرین کا خیال ہے کہ بیسویں صدی میں انیس سو بیس تا انیس سو ستّر گلوبل کولنگ کا دور رہا ،مگر گلوبل وارمنگ کے مسئلے کو زیادہ سنجیدگی سے لیا گیا کیوںکہ فضا میں مضر گیسز کی مقدار میں اضافے اور آلودگی بڑھنے کے عمل نے سب کو اس مسئلے کی جانب متوجہ کیا۔ اس حوالے سے سائنس داں اب گلوبل وارمنگ کے نظریے پر اصرار کرتے ہیں۔

خلاء میں موجود موسمی سیّارچوں کی مدد سے حاصل شدہ اعداد و شمار سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ گلوبل وارمنگ ایک کھلی حقیقت ہے جس کی وجہ سے کرئہ اَرض کے موسم میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ اندازے سے زیادہ برفانی خطّے متاثر ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے بڑے برفانی تودے پگھل کر سمندروں میں شامل ہو رہے ہیں۔اس عمل کے سبب سمندروں کی سطح بہ تدریج بلند ہو رہی ہے۔ اس اہم مسئلے پر امریکہ کی سردمہری اور حقائق سے انکار ماہرین کے نزدیک تشویش ناک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا کی آبادی دُنیا کی آبادی کا تین فی صد سے کچھ زاید ہے، مگر امریکا دُنیا کے تیل کی پیداوار کا پچّیس فی صد حصہ استعمال کرتا ہے۔ 

دُنیا میں سب سے زیادہ موٹرکاریں امریکا میں ہیں۔ صنعتی کارخانے، بجلی گھر، ہوائی اور بحری جہاز،بھاری مشینیں، ایٹمی بجلی گھر، بجلی سے چلنے والی گھریلو اشیاء، تیل صاف کرنےاور کیمیائی مادّے تیار کرنے کی فیکٹریاں سب سے زیادہ امریکا میں ہیں۔ دُنیا میںدُوسرے بڑے کے تیل کے ذخائر امریکاکے پاس ہیں،پانچ برسوں سے امریکی تیل کی کمپنیاں امریکی سمندروں سے وافر مقدار میں تیل نکال رہی ہیں اور امریکا بہ تدریج مشرق وسطیٰ کے تیل پر انحصار کم کرتا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ دُنیا میں سب سے زیادہ تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر روس کے پاس ہیں اور امریکا دُوسرے نمبر پر ہے۔ روس کی معیشت تاحال خاصی کم زور ہے اور وہ ہتھیاروں اور تیل کی فروخت پر اپنی معیشت کو استوار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ آج کے دور میں بیش تر ترقّی یافتہ ممالک تیل کے متبادل ایندھن کی تلاش میں مختلف تجربات کر رہے ہیں۔ مثلاً شمسی توانائی سے چلنے والی موٹر کاریں تیار کرنے کے کارخانے جرمنی، فرانس، سوئیڈن اور جاپان میں چھوٹی کاریں تیار کر رہے ہیں، مگر تاحال تیل کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے اور روس اپنا تیل اور قدرتی گیس یورپی ملکوں کو فروخت کرنے کے لیےبہت سے معاہدے کر رہا ہے، جن میں ہالینڈ، بیلجیم، جرمنی شامل ہیں۔ 

مشرق وسطیٰ میں تیل پیدا کرنے والی ریاستیں، جن میں متحدہ عرب امارات، کویت، سعودی عرب اور قطر نمایاں ہیں، تیل کی قیمتوں میں خاصی کمی کر چکی ہیں کیوں کہ تیل کی منڈی میں روس کی شمولیت اور امریکا کی تیل کی جانب سےبیرونی ملکوں سے خریداری میں کمی نے قیمتوں پر اَثر ڈالا ہے۔خاص کر روس اور سعودی عرب کی مسابقت اور غیر لچک دار رویّوں کی وجہ سے تیل وافر مقدار میں منڈی میں موجود ہے اور دونوں ممالک اپنی پیداوار میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں جس سے تیل کی قیمتوں میں کمی عود کر آئی ہے۔ اس مقابلے کے رُجحان سے دونوں ممالک کو نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ توانائی حاصل کرنے کے متبادل طریقے آزمانے کے باوجود تیل کی اہمیت اور ضرورت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مبصرین کا آج بھی یہ دعویٰ ہے کہ تیل کی فراہمی کے لیے بڑی اور چھوٹی طاقتیں تیسری عالمی جنگ چھیڑ سکتی ہیں۔ آذربائیجان اور آرمینیا کی جنگ کے پس منظر میں تیل کی پائپ لائنوں کا مسئلہ کارفرما ہے۔ اس ضمن میں روس زیادہ فکرمندی کا شکار ہے۔ امریکا اور بعض یورپی ممالک آرمینیا کی مدد سے اس لیے کترا رہے ہیں کہ اس جنگ سے روس کی تیل کی لائنیں متاثر ہوں گی اور امریکا نہیں چاہتا کہ روس اپنا تیل یورپ تک پہنچائے۔

اقوام متحدہ کی حالیہ کانفرنس برائے تحفظ ماحولیات اور آلودگی میں کمی،میںاس امر پر زور دیاگیا کہ زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے مصنوعی کھاد کا استعمال بہت زیادہ ہو رہا ہے جس سے زمین کی پیداواری صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ ایک طرف خشک سالی سے زرعی زمین بنجر ہونے کا عمل بڑھ رہا ہے اور دُوسری طرف مصنوعی کھاد زرعی زمین کو متاثر کر رہی ہے۔ ماہرین کو اس بات پر تشویش ہے کہ تمام تر جائزوں اورہدایات کے باوجود ماحول کے تحفظ کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کی جا رہی ہیں۔

پاکستان میں بھی ماحولیات کوبہتر بنانے اور آلودگی میں بہ تدریج اضافے کی روک تھام کی کوششیں آج بھی حکومت اور عوام کی توجہ کی محتاج ہیں۔ اس مسئلے پر بہت کچھ کہا جاتارہا ہے، مگر سدھار نمایاں نہیں ہے۔ عالمی بینک کی ایک جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ایک عشرے میں موٹرکاروں کی خریداری اور استعمال میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے، صنعتی یونٹس میں قدرے اضافے سے کوئلے اور تیل کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے جس سے فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے۔ 

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہروں، خصوصا کراچی میں آبادی میں اضافے کا دبائو تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کے لیے شہر کے وسائل قطعی ناکافی ہیں۔ اس سے نہ صرف آلودگی تیزی سے بڑھ رہی ہے بلکہ دیگر سماجی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ پاکستان میں آبادی کا ایک بڑا حصہ زرعی شعبے اور ماہی گیری سے وابستہ ہے۔ زرعی شعبہ کئی برسوں سے آنے والے سیلابوں اور موسلادھار طوفانی بارشوں سے شدید متاثر ہو رہا ہے اور فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔ اسی طرح ماہی گیری کا شعبہ سمندروں میں بڑھتی ہوئی آلودگی سے پریشان ہے۔ صنعتی یونٹس اور کارخانوں کا کیمیائی فضلہ سمندر میں بہا دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کوڑا کرکٹ بھی سمندری پانی میں شامل ہو رہا ہے جس سے سمندری حیات کو شدید خطرات لاحق ہوتے جا رہے ہیں اور ماہی گیری کاشعبہ مختلف مسائل کا سامنا کررہا ہے۔ حکومت یہ مسائل حل کرنے اور آلودگی میں اضافے کی روک تھام سے قاصر نظر آتی ہے۔

پاکستان کا پڑوسی ملک بھارت عالمی آلودگی میں نمایاں اضافے کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس مسئلے سے آنکھیں چُرانے کے لیے بھارت نے ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی معروف عالمی غیرسرکاری تنظیم، گرین پیس کو بھارت میں کام کرنے سے روک دیا اور تمام رضا کاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ گرین پیس کے رضاکار اپنا کام چھوڑ کر چلے گئے۔ بھارت میں کوئلے کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت جنگلات کی غیرقانونی کٹائی روکنے میں بھی ناکام نظر آتی ہے۔بیش تر غیرسرکاری تنظیموں نے بھارتی حکومت کی ماحولیات میںسدھار اور آلودگی میں کمی لانے کے مسئلے پر سردمہری دکھانے اور مسئلے کو نظرانداز کرنے کے عمل پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی آلودگی میں اضافے میں بھارت تیسرا بڑا حصے دارہے۔ ایک طرف بھارت عالمی معاہدوں پر دست خط کرتاہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ماحولیات میں سدھار لانے اور آلودگی کم سے کم کرنے کے عمل میں اپنا کردارپوری طرح نبھائے گا، مگر عمل اس کے برعکس کرتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ بھارت ہر طرح کی آلودگی میں بہ تدریج اضافہ کر رہا ہے اور ماحول کو بگاڑ رہا ہے۔ اس حوالے سے ماحولیات کی عالمی تنظیموں کو شدید تشویش لاحق ہے۔

امریکی پالیسی کی وجہ سے بھی بیش ترترقّی پذیر ممالک کو یہ بہانہ ملتا رہا ہے کہ امریکا ماحول کے بگاڑ میں زیادہ حصے دار ہے اور عالمی معاہدوں پر عمل کرنے سے کنّی کتراتا رہا ہے۔ آلودگی پھیلانےمیں شامل دُوسرا بڑا ملک چین،کوئلے کے استعمال میں قدرے کمی لاتے ہوئے اپنی کانوں سے نکلنے والے کوئلے کے ذخائر ترقّی پذیر ممالک کو فروخت کرنے پر مائل ہو رہا ہے، مگر زیادہ تر ترقّی یافتہ ممالک معاہدوں کی پاسداری نہیں کررہے ہیں ۔حقیقتا یہ تاثر غلط ہے، بیش ترترقّی یافتہ ممالک،جیسے جرمنی، جاپان، آسٹریلیا، ڈنمارک، سوئیڈن، بیلجیم اور سوئٹزرلینڈ، زمین کا ماحول سدھارنے اور آلودگی میں کمی لانے کےلیے عالمی معاہدوں کی پوری پاس داری کر رہے ہیں۔ 

یہاں تک کہ جاپان نے گزشتہ دنوں اپنے ملک سے تمام ایٹمی بجلی گھر ختم کر دیے کیوں کہ جب کچھ عرصہ قبل سونامی نے جاپان کے ساحلوں اور جزائر کونشانہ بنایا تھا تو جاپان کے ساحلی شہروں میں واقع ایٹمی بجلی گھروں کو نقصان پہنچا تھا جس سے شدید خطرہ تھا کہ ایسے میں بجلی گھروں سے تاب کاراثرات نکل سکتے ہیں، اس لیے جاپان نے ایک بڑا فیصلہ کیا۔مگر دُنیا کے زیادہ تر امیر ممالک تمام حقایق سے آگاہ ہونے کے باوجود اپنی زرگری اور دولت میں اضافے کی حرص کی وجہ سے ماحول میں سدھارلانے اور آلودگی میں کمی پر کب توجہ دے سکتے ہیں؟

کرئہ اَرض کی سلامتی اور آئندہ نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے آج کی نسل کو ضرور سوچنا ہوگااور زمین کا ماحول بہتر سے بہتر بنانے کے لیے ہمیں اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔

تازہ ترین