• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصنّف:ڈاکٹر صائمہ علی

صفحات: 288 ،قیمت: 800 روپے

ناشر: بُک ہوم ،لاہور۔

عسکری اداروں سے وابستہ ادیبوں میں کرنل محمّد خان اور سیّد ضمیر جعفری وہ نام ہیں،جو بے ساختہ ذہن میں آتے ہیں کہ ان کی تحریروں نے ایک زمانے کو اپنا گرویدہ کیا۔ (فہرست میں چند ناموں کا اضافہ بھی ہو سکتا ہے)۔ صف شکنی کی بہادرانہ صفت سے مُملو ایک اور نام، جس نے ادب کی دُنیا میں اپنے جھنڈے گاڑے، بریگیڈئیر صدیق سالک کا ہے۔ صدیق سالک اس عنوان سے کرنل محمّد خان پر تفوق ضرور رکھتے ہیں کہ ’’بریگیڈئیر‘‘ کے سابقے کے بغیر بھی اپنی ادبی شناخت قائم کرنے میں کام یاب ہیں، برعکس کرنل محمّد خان کے کہ جب اُنہوں نے ’’کرنل‘‘ کے سابقے کے بغیر یعنی محض ’’محمّد خان‘‘ لکھنا شروع کیا، تو لوگوں نے خطوط تحریر کیے کہ نام میں ’’کرنل‘‘ کا سابقہ یا منصب ضرور تحریر کیا جائے۔ خیر، سرِ دست گفتگو ’’صدیق سالک: شخصیت اور فن‘‘پر مقصود ہے اور سچّی بات یہ ہے کہ صاحبِ کتاب کی تحقیقی لگن کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ ڈاکٹر صائمہ نے جہاں اُن کی سوانحی زندگی کے بہت سے ہنگامہ خیز اُمور کا جائزہ لیا ہے، وہیں اُنہوں نے صدیق سالک کی تخلیقی اُپج اور جہتوں کا بھی عمیق نگاہی سے مطالعہ کیا ہے۔ 

دیکھیے، صدیق سالک کے چند خُوب صُورت فقرے کیسے پیش کیے ہیں’’جنرل حمید نے جنرل نیازی کو جنگ بندی کا جو ’’مشورہ‘‘ دیا تھا، موصوف نے اُسے’’منظوری‘‘سمجھ لیا‘‘۔’’مجھے اپنی عورتیں یاد آ گئیں، جو ان مغربی عورتوں کی نسبت اتنی پاک دامن اور با حیا ہوتی ہیں کہ کسی بُری چیز کا نام زبان پر نہیں لاتیں،حتیٰ کہ اپنے شوہر کو بھی نام سے نہیں پکارتیں۔‘‘ اُردو ادب نے جن باکمال تخلیق کاروں سے یا تو انصاف نہیں کیا یا اُن سے صرفِ نظر کیاگیا، اُن میں سے ایک نام صدیق سالک بھی ہے۔مصنّفہ نے اُن کی شخصیت اور فن کا مختلف زاویوں سے نہ صرف یہ کہ بَھرپور محاکمہ کیا ہے، بلکہ ایک ادیب ،قلم کار اور تخلیق کار صدیق سالک کو ’’منصب‘‘ سے دُور رکھ کر ادب میں اُس کا صحیح ’’منصب‘‘ بتانے کی ایک سعیِ مشکور بھی کی ہے۔

تازہ ترین