• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ کے کورونا وائرس کی دوسری لہر کی زد میں ہونے کے باوجود ایک سو بیس سالہ امریکی تاریخ میں اِس سال سب سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ اِس سے پہلے مختلف اداروں کی طرف سے لیے گئے رائے زماری کے جائزوں کے مطابق یہ کہا جا رہا تھا کہ نہ صرف جوبائیڈن واضح اکثریت سے یہ الیکشن جیتیں گے بلکہ کانگریس اور سینیٹ میں بھی ڈیمو کریٹک پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ اِس کے برعکس نہ صرف جوبائیڈن واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکے بلکہ سینیٹ اور کانگریس میں بھی ڈیمو کریٹک پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امریکی کانگریس میں کچھ سیٹیں ہارنے کے باوجود ڈیمو کریٹک پارٹی اِس ادارے پر اپنا تسلط برقرار رکھ سکے گی لیکن حیرانی سینیٹ کے الیکشن پر ہوئی جہاں ری پبلکن پارٹی ڈیموکریٹس کے مقابلے میں دو گنا سے زیادہ نشستوں کو ڈیفنڈ کر رہی تھی۔ اب سینیٹ میں سارا دارومدار جارجیا کی ریاست کے دو حلقوں پر ہے جہاں مطلوبہ ووٹ حاصل نہ کرنے کی وجہ سے 4جنوری 2021کو دوبارہ الیکشن ہونگے اور اگر یہ دونوں سیٹیں ڈیمو کریٹک پارٹی جیت گئی تو اسے پچاس کے مقابلے میں 51امیدواروں کی اکثریت حاصل ہوگی۔ یاد رہے کہ قوانین میں تبدیلی کے لئے ان دونوں اداروں میں اکثریت ضروری ہوتی ہے اور اسی وجہ سے باراک اوباما اقتصادی میدان میں کوئی واضح تبدیلی نہیں کر سکا تھا۔ ڈیموکریٹک پارٹی میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے امیدواروں نے کانگریس اور سینیٹ میں شکست کا ذمہ دار بائیں بازو اور ترقی پسند بیانیے کو ٹھہرایا ہے جس کی روح سے بائیڈن نے یونیورسل ہیلتھ کئیر، مزدوروں کی فی گھنٹہ پندرہ ڈالر اجرت، یونیورسٹیوں کی ٹیوشن فیس کا خاتمہ، جیل خانہ جات کے بجٹ میں کمی،ماحولیات کے پیرس معاہدے کی تجدید، پولیس ریفارمز کے ذریعے سیاہ فاموں کی تذلیل کا خاتمہ اور امیگریشن کی پالیسیوں میں واضح تبدیلیوں جیسے مطالبات کو اپنے منشور کا حصہ بنا لیاتھا۔ یاد رہے کہ اسی سال پرائمری ڈیموکریٹک الیکشنز میں گوکہ بائیڈن نے برنی سینڈرز کو ہرا دیا تھا لیکن اس کے باوجود برنی سینڈرز کی انتخابی مہم کو سیاہ فام اور نوجوانوں کی شرکت نے اتنا ہمہ گیربنا دیا تھا کہ بائیڈن کو بھی برنی سینڈرس کی حمایت کے بغیر ٹرمپ کو ہرانا ممکن دکھائی نہ دیتا تھا ۔ بہرحال صدر ٹرمپ کی شکست کی اصل وجہ اس کی کورونا کے خلاف ناقص حکمتِ عملی اور سیاہ فام کے خلاف پالیسیاں ہیں۔

امریکہ، جو دنیا کا امیر ترین ملک ہے، وہ صحت پر جی ڈی پی کا اٹھارہ فیصدخرچ کرتا ہے، اس کے باوجود کورونا وائرس کے دوران امریکی عوام کو ماسک، وینٹی لیٹر اور دوسری ضروریات کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کی وجہ سے اب تک دو لاکھ سے زائد افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ اس پالیسی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر چیز کو ایک ’’جنس‘‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے اوراگروہ جنس منافع بخش نہ ہو،خواہ سماج کو اس کی کتنی ہی ضرورت کیوں نہ ہو تو سرمایہ دارانہ نظام میں اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔اس کا تقابلی جائزہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے فوجی اخراجات جو کہ جی ڈی پی کا چار فیصد ہیں اور دفاعی سازو سامان پرائیویٹ کارپوریشنز بناتی ہیں۔ اُس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اُن پالیسیوں کا تعلق امریکہ کی سامراجی پالیسیوں سے ہے جس سے دنیا پر غلبہ پانا ہے اور اس کے لیے یہی کارپوریشنیں جتنا پھلے پھولیں گی اتنا ہی بہتر ہوگا۔ امریکی تاریخ گواہ ہے کہ جوبائیڈن اِن پالیسیوں میں کوئی واضح تبدیلی نہیں کر سکتے یہ نہ تو ان کی خواہش ہے اور نہ ہی امریکی کانگریس اور سینیٹ میں ایسی قانون سازی کے لئے راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

یاد رہے کہ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ نیوکلیئر معاہدے اور ماحولیات کے پیرس معاہدے سے امریکا کو نہ صرف الگ کر لیا ہے بلکہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت ماننے کے ساتھ ساتھ گولان ہائیٹس پر اسرائیل کا تسلط تسلیم کیا اور فلسطین کے علاقوں میں یہودیوں کی نئی بستیوں کی آباد کاری کی بھی مذمت نہیں کی۔ آج ڈیموکریٹک پارٹی کے ترقی پسند عناصر، جنہوں نے جو بائیڈن کی جیت میں اہم کردار ادا کیا ہے، وہ ان پالیسیوں کے سخت خلاف ہیں۔ دیکھنا ہو گا کہ جو بائیڈن کس حد تک ان پالیسیوں کے سلسلے میں اسرائیل سے نبردآزماہوتے ہیں۔ جوبائیڈن کی جیت سے مودی کی کشمیر کے حوالے سے پالیسیوں اور غیر جمہوری رویے کو زک پہنچے گی۔ اس کا اثر پاکستان میں بھی پڑے گا جہاں جمہوری اداروں کی مضبوطی اور شفاف الیکشن کی راہ ہموار ہو سکتی ہے بشرطیکہ پی ڈی ایم کی موجودہ تحریک اپنے مومنٹم کو آخری حد تک لے جائے۔ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا علاقے میں ایک واضح پالیسی کے بغیر اب ممکن نہیں ہو سکے گا۔ اس کیساتھ ہی امریکہ چین کی مخالفت بھونڈے طریقے سے نہیں کرے گا بلکہ عالمی اداروں اور اپنے حواری ملکوں کی مدد سے چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت اور سی پیک کو روکنے کی کوشش کرے گا۔ لاطینی امریکہ خاص طور پر کیوبا اور وینزویلا کے اندرونی معاملات میں مداخلت گوکہ کم ہوگی لیکن اس کے باوجود امریکا اپنی سامراجی پالیسیوں جو کہ مونرو ڈاکٹرائن"Monroe Doctrine" کے نام سے مشہور ہیں، کی ترویج کرتا رہے گا۔

تازہ ترین